ڈپریشن دور کرنے والی ادویہ بے فائدہ ہیں؟

سید عاصم محمود  اتوار 27 نومبر 2022
اداسی و افسردگی میں مستعمل دواؤں پر ہوئی جدید تحقیق کے نتائج نے امریکا ویورپ میں تہلکہ مچا دیا۔۔۔۔خصوصی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

اداسی و افسردگی میں مستعمل دواؤں پر ہوئی جدید تحقیق کے نتائج نے امریکا ویورپ میں تہلکہ مچا دیا۔۔۔۔خصوصی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

میری ایک عزیزہ مرگی کی مریضہ ہیں۔بیماری کے باعث اکثر ان پہ اداسی و پژمردگی طاری رہتی۔ڈاکٹر نے انھیں اداسی (ڈپریشن)دور کرنے والی دوا بھی دے رکھی ہے۔مگر سال رواں میں یہ دوا کئی فیصد مہنگی ہو چکی۔یہی نہیں، اب وہ خاصی مشکل سے، تلاش بسیار کے بعد ملتی ہے۔

بہت سی دیگر ادویہ بھی نایاب ہو چکیں اور پہلے کی نسبت خاصی مہنگی ملتی ہیں۔اس صورت حال سے عوام پریشان ہیں جنھیں خوراک اور ایندھن کی مہنگائی نے پہلے ہی ادھ موا کر رکھا ہے۔اب ادویہ مہنگی ہونے سے علاج کرانا بھی مہنگا عمل بن چکا۔غریب کو تو سرکاری اسپتال میں بھی بہت سی داوئیں خود خریدنا پڑتی ہیں۔

پاکستان کی ادویہ ساز کمپنیوں کا دعوی ہے کہ دوائیں مختلف وجوہ کی بنا پر مہنگی ہوئی ہیں۔ مثلاً حکومت نے ان پہ نئے ٹیکس لگا دئیے۔ مروج ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھا دی۔ پھر بیشتر ادویہ کا خام مال بیرون ممالک سے آتا ہے۔ڈالر کی قدر بڑھنے سے وہ مہنگا ہو چکا۔بجلی کی قیمت اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات بڑھنے سے بھی لاگت بڑھ گئی۔

ان تمام مسائل کی وجہ سے ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو گیا ورنہ کمپنیاں خسارے کی وجہ سے بند ہو جائیں گی۔ دنیا بھر میں حکومتیں ادویہ ساز کمپنیوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی ہیں۔مقصد یہی ہے کہ وہ ادویہ کی قیمت کم رکھیں اور انھیں عام آدمی بھی آسانی سے خرید لے۔عوام دوست حکومتیں تو کمپنیوں کو سبسڈی یا مالی مدد بھی دیتی ہیں تاکہ ان کا خسارہ کم ہو سکے۔

پاکستان میں مگر ان پہ ٹیکس بڑھا دئیے گئے جو دراصل عوام سے زیادتی کرنے کے مترادف ہے۔وجہ یہ کہ ٹیکسوں کی ادا کردہ رقم کمپنیاں دواؤں کی قیمت بڑھا کر وصول کرتی ہیں۔گویا نئے ٹیکس لگنے یا ٹیکسوں کی شرح بڑھنے سے حقیقتاً عوام متاثر ہوتے ہیں۔جبکہ پاکستان میں یہ عمل اس لیے اپنایا جاتا ہے تاکہ حکمران طبقے کو اپنا شاہانہ طرززندگی برقرار رکھنے کی خاطر پیسا مل سکے۔

نیا انکشاف

حیرت انگیز بات یہ کہ مغربی طبی سائنس دانوں نے حال ہی میں یہ حیران کن انکشاف کیا ہے ، کم ازکم ڈپریشن دور کرنے والی ادویہ مریضوں پہ معمولی اثرات ہی مرتب کرتی ہیں۔معنی یہ کہ ڈپریشن میں یہ ادویہ لینے سے کم ہی لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ طبی ماہرین اب کہہ رہے ہیں کہ اکثر صورتوں میں یہ ادویہ لینی ہی نہیں چاہیں۔

یہ ایک بڑا انکشاف ہے جس نے ڈپریشن دور کرنے والی ادویہ کی کارکردگی اور استعمال پہ سوالیہ نشان لگا دیا۔یاد رہے، پاکستان سمیت دنیا کے سبھی ملکوں میں کروڑوں انسان ہر سال یہ ادویہ استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ اربوں ڈالر مالیت کی مارکیٹ رکھتی ہیں۔

انگریزی لفظ ’’ڈپریشن‘‘عربی میں ’’اکئتاب‘‘، فارسی میں ’’افسردگی‘‘اور اردو میں ’’اداسی ‘‘کہلاتا ہے۔یہ اس کیفیت کا نام ہے جو کوئی جسمانی یا نفسیاتی صدمہ پہنچنے پر انسان پہ طاری ہوتی ہے۔وہ اداس اور پژمردہ ہو جاتا ہے۔کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔روزمرہ کاموں میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتا ہے۔کسی سرگرمی میں اسے لطف نہیں آتا۔ماہرین طب کا کہنا ہے کہ جب اداسی و افسردگی کی یہ حالت دو ہفتے سے زیادہ رہے تو طبی اصطلاح میں ایک ذہنی خلل ’’کبیر اکئتاب اضطراب‘‘ (Major depressive disorder) کا روپ دھار لیتی ہے۔

اگر حالت یعنی ڈپریشن زیادہ شدید ہو جائے تو ایک اور خطرناک ذہنی خلل’’کج خلقی‘‘ (Dysthymia) بن جاتی ہے۔اس خلل میں مبتلا انسان خودکشی بھی کر سکتا ہے۔ ڈپریشن امراض قلب، کینسر اور ٹریفک حادثات کے بعد انسان کو مارنے والا چوتھا بڑا عنصر ہے۔یاد رہے، ذہنی دباؤ (Stress)اور ذہنی اضطراب (Anxiety) مختلف نفسیاتی بیماریاں ہیں۔

دنیا میں زندگی گذارتے ہر انسان خوشیوں اور غموں کے مراحل سے گذرتا ہے۔ ہر صدمہ انسان کو اداس وغم زدہ کر دیتا ہے۔مگر کچھ مدت بعد وہ اپنا غم بھول کر معمول کی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔تاہم بعض مردوزن ذہنی یا جسمانی صدمے سے جنم لینے والی اداسی وافسردگی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتے۔یہی کیفیت پھر مختلف نفسیاتی بیماریوں کو جنم دے سکتی ہے جن میں سے ایک ڈپریشن ہے۔

یہ معاملہ متنازع ہے کہ کیا نفسیاتی بیماریوں کا علاج دوا سے ممکن ہے؟دلچسپ بات یہ کہ زمانہ قدیم میں سمجھا جاتا تھا، انسان جن بھوت چمٹ جانے سے نفسیاتی مریض بنتا ہے۔یونان کا مدبر، بقراط (متوفی 370 قبل مسیح)پہلا انسان ہے جس نے اداسی و پژمردگی کی حالت کو بیماری قرار دیا۔ایک اور مشہور یونانی حکیم، جالینوس بھی ڈپریشن جیسی کیفیات کو بیماری سمجھتا تھا۔

یونانی اور ہندوستانی حکما ہی پہلے پہل نفسیاتی مریضوں کو بھنگ، افیون جیسی نشہ آور جڑی بوٹیاں سے بنی ادویہ بطور علاج دینے لگے۔یہ ادویہ مریض میں خوشی کے اثرات پیدا کر کے اسے اداسی وغم سے دور کر دیتیں۔مگر جیسے ہی دوا کا نشہ اترتا، نفسیاتی مریض دوبارہ ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا۔ اسی لیے حکما نے نشہ آور جڑی بوٹیوں سے دوائیں بنانا ترک کر دیں۔صرف خاص کیس ہی میں ان کا استعمال کرایا جاتا۔

یونانی حکما کا علم ترجمہ شدہ کتب کے ذریعے عالم اسلام میں پھیلا۔مسلم حکما نے اس علم کو مذید ترقی دی اور درجہ کمال تک پہنچا دیا۔ عظیم مسلم طبیب، زکریا الرازی (متوفی935 ئ) بھی تحقیق وتجربات کی مدد سے اس نتیجے پر پہنچے کہ نفسیاتی بیماریاں کوئی ذہنی یا جسمانی صدمہ پہنچنے پر جنم لیتی ہیں۔ لہذا انھوں نے بغداد کے ایک بیمارستان (اسپتال)میں ایسا وارڈ یا شعبہ قائم کیا جہاں نفسیاتی مریض رکھے جاتے تھے۔

یہ نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرنے والا اپنی نوعیت کی دنیا میں پہلی علاج گاہ تھی۔اس کو قائم کرنے کا اعزاز ایک مسلم حکیم کے حصے میں آیا۔زکریا الرازی نے نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرنے کی غرض سے نئے طریق علاج بھی وضع کیے جو ان کی کتاب ’’المنصوری‘‘میں درج ہیں۔ان طریقوں میں ’’روحانی علاج‘‘اور ’’فزیوتھراپی ‘‘نمایاں ہیں۔

نئی قسم کی ادویہ

1800ء کے بعد دنیائے مغرب میں طبی سائنس کی ترقی شروع ہوئی۔تب وہاں قدرتی اشیا کے علاوہ مصنوعی (انسان ساختہ)مرکبات اور کیمیائی مادوں سے بھی دوائیں بننے لگیں۔ان میں ایسی ادویہ بھی شامل تھیں جو نفسیاتی بیماریوں کے علاج میں استعمال ہونے لگیں۔وہ ادویہ جو ڈپریشن دور کرنے میں مستعمل ہوئیں، انھیں ’’اینٹی ڈپریسنٹ‘‘(Antidepressant )کانام ملا۔دنیا کی پہلی اینٹی ڈپریسنٹ دوا ’’آزؤنیزیڈ‘‘(Isoniazid)تھی۔دلچسپ بات یہ کہ طبی ماہرین نے یہ اینٹی بائیوٹک (جراثیم کش )دوا ڈپریشن نہیں تپ دق کا علاج کرنے تیار کی تھی۔

یہ 1951ء میں بنائی گئی۔ہوا یہ کہ اگلے برس نیویارک کے سی ویو اسپتال میں یہ دوا تپ دق کے مریضوں کو تجرباتی طورپہ دی گئی۔دوران تجربہ ڈاکٹروں نے حیرت سے دیکھا کہ کچھ مریض یہ دوا لیتے ہی چاق وچوبند ہو جاتے۔ان کی اداسی وسستی جاتی رہتی اور وہ خوش وخرم ہو آزؤنیزیڈ تپ دق کے بیشتر مریض صحت یاب کر دئیے۔

یوں یہ دوا کامیاب ثابت ہوئی۔اس کا ایک حیران کن اور مثبت ضمنی اثر یہ تھا کہ نئی دوا نے کئی مریضوں کی اداسی وپژمردگی بھی دور کر دی۔اسی زمانے میں ماہرین طب نے تپ دق کا علاج کرنے کی غرض سے ایک اور اینٹی بائیوٹک دوا، آئپرونیزیڈ (iproniazid) تیار کی تھی۔جب مختلف اسپتالوں میں بطور تجربہ یہ دوا تپ دق کے مریضوں کو دی گئی تو انھیں افاقہ ہوا۔مگر اس دوا کا بھی ایک ضمنی اثر یہ ہوا کہ مریضوں کی اداسی دور ہو گئی اور وہ معمول کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے لگے۔

اب ماہرین طب کو تجسّس ہوا کہ آخر ان دونوں ادویہ میں کون سا ایسا راز چھپا ہے جس نے کئی مریضوں کو نہ صرف ٹارگٹ شدہ مرض(تپ دق)بلکہ ڈپریشن جیسی منفی حالت سے بھی نجات دلا دی۔چناں چہ وہ ادویہ میں موجود مختلف کیمیائی مادوں پر تحقیق وتجربات کرنے لگے۔

عرصہ گذر گیا،وہ سو فیصد حد تک نہیں جان سکے کہ فلاں کیمیائی مادہ یا مادے ڈپریشن کے اثرات دور کرنے میں کامیاب رہے۔انھوں نے بہرحال یہ ’’ اندازہ‘‘لگایا کہ دونوں ادویہ نے دماغ میں موجود نیوروٹرانسمیٹروں کی تعداد کم یا زیادہ کر کے ڈپریشن ختم کیا ۔یوں ڈپریشن ہی نہیں دیگر نفسیاتی یا ذہنی بیماریوں کی وجہ ِتخلیق کے سلسلے میں ایک نیا نظریہ سامنے آ گیا…یہ کہ انسانی دماغ میںنیوروٹرانسمیٹروںکے مابین قدرتی توازن بگڑ جائے تو انسان ڈپریشن سمیت مختلف نفسیاتی بیماریوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔

اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ نیوروٹرانسمیٹروں کا عدم توازن ختم کر کے انسان کو ڈپریشن سے نجات دلوا کر تندرست کر سکتی ہیں۔تمام ڈاکٹر اسی نظریے کے تحت اداسی و افسردگی کا شکار لوگوں کو اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ تجویز کرتے ہیں۔

نیورون یا عصبی خلیے انسان کے خلیوں کی ایک قسم ہے۔یہ عصبی خلیے خصوصی سالمے (مالیکیول) خارج کر کے ایک دوسرے سے پیغام رسانی کرتے اور رابطہ رکھتے ہیں۔ یہی خصوصی سالمے ’’نیوروٹرانسمیٹر‘‘کہلاتے ہیں۔

ان کی ایک سو سے زائد اقسام ہیں۔ ہمارا سارا نظام اعصاب(Nervous System)انہی نیوروٹرانسمیٹروں کی مدد سے کام کرتا ہے۔چونکہ دماغ انسانی بدن کا شہنشاہ ہے لہذا وہاں دماغی افعال سے منسلک نیوروٹرانسمیٹروں نے اپنے خاص گروہ بنا رکھے ہیں جن میں سے چھ بڑے ہیں۔چھوٹے گروہوں کی تعداد زیادہ ہے۔تمام نظاموں سے سیکڑوں کیمیائی مادے منسلک ہیں۔انسانی دماغ میں نیوروٹرانسمیٹروں کے چھ بڑے گروہ یہ ہیں:

(1) نورا ڈرینالین Noradrenaline system(2) ڈوپمائن Dopamine system (3) ہسٹامائن Histamine system (4) سیروٹونین Serotonin system(5) ایسیٹائلکولین Acetylcholine system (6) ایڈرینلین Adrenaline system

پچھلے ستر سال کے دوران کئی سو ایسی ادویہ ایجاد ہو چکیں جو دماغ کے نیوروٹرانسمیٹروںکو ٹارگٹ کر کے نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ انہی دواؤں کی ایک قسم ہیں۔ پھر خود اینٹی ڈپریسنٹ کی ذیلی اقسام ہیں۔ان میں قابل ذکر یہ ہیں:

٭… ایس ایس آر آئی ایس Selective serotonin reuptake inhibitors (SSRIs) ٭… ایس این آر آئی ایس Serotonin-noradrenaline reuptake inhibitors (SNRIs)٭… این اے ایس ایس اے ایس Noradrenaline and specific serotonergic antidepressants (NASSAs) ٭… ٹی سی اے ایس Tricyclic antidepressants (TCAs)٭… Serotonin ایس اے آر آئی ایس  antagonists and reuptake inhibitors (SARIs)٭… ایم اے او آئی ایس Monoamine oxidase inhibitors (MAOIs)۔

درج بالا اینٹی ڈپریسنٹ اقسام پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک میں مختلف مشہور و معروف برانڈ ناموں سے فروخت ہوتی ہیں۔’’ایس ایس آر آئی ایس‘‘(SSRIs) سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ ہیں۔ فلوکیسٹین (Fluoxetine)، سائٹالوپرام (citalopram)، ایسیٹالوپرام (escitalopram)، پاروزیلین (paroxetine) اور سیرٹرلین (sertraline) ایس ایس آر آئی ایس ادویہ کی نمایاں اقسام ہیں۔ اس کے بعد ایس اے آر آئی ادویہ کا نمبر آتا ہے۔

کیا فائدہ ہوتا ہے؟

پچھلے پچاس برس سے جدید اور تیزرفتار مغربی طرززندگی دنیا بھر میں پھیل چکا۔ اس انداز ِحیات نے مگر نت نئی نفسیاتی بیماریوں کو بھی تخلیق کیا۔یہی وجہ ہے، نصف صدی سے اینٹی ڈپریسنٹ اور نفسیاتی امراض میں مستعمل دیگر ادویہ کا استعمال بھی بڑھ گیا۔ان ادویہ سے متعلق ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا ان دواؤں سے مریضوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے؟یہ سوال کئی لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتا مگر وہ جواب نہ ڈھونڈ پاتے۔ آخر ایک ماہر نفسیات جواب تلاش کرنے میں کامایب ہو گیا۔اس کھوج کی داستان حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔

ہوا یہ کہ پندرہ سال قبل آسٹریلیا سے ایک طالب علم، مارک ہوروٹز (Mark Horowitz) علم نفسیات پڑھنے لندن، برطانیہ آیا۔ وہاں اسے مشہور تعلیمی ادارے، کنگز کالج میں داخلہ مل گیا۔وہیں سے مارک نے نیوروسائنس میں پی ایچ ڈی کی اور سند یافتہ ماہر نفسیات بن گیا۔دوران تعلیم وہ اپنا ڈپریشن قابو میں رکھنے کے لیے ایک اینٹی ڈپریسنٹ دوا، لیکساپرو(Lexapro)استعمال کرتا رہا۔پانچ سال قبل ڈاکٹر مارک نے فیصلہ کیا کہ اب وہ لیکساپرو استعمال نہیں کرے گا۔پڑھائی کے دوران اسے جو دباؤ پڑا تھا، وہ اب کافور ہو چکا تھا۔مگر دوا چھوڑتے ہی اس پہ عجیب مصائب نازل ہو گئے۔ بے چینی وگھبراہٹ کے دورے پڑنے لگے۔نیند کا نظام خراب ہو گیا۔اور آخر میں ڈپریشن بھی آ چمٹا۔ان آفتوں نے اسے اتنا زیادہ پریشان کیا کہ مارک سکون کی تلاش میں اپنے والدین کے گھر آسٹریلیا چلا گیا۔

اس ہولناک تجربے نے ڈاکٹر مارک کی آنکھیں کھول دیں۔وہ تو یہی سمجھتا تھا کہ دوا کا کام انسان کو تندرست کرنا اور رکھنا ہے۔یہ تو غیر معمولی بات ہے کہ کوئی دوا چھوڑنے پر انسان کی طبعیت اتنی زیادہ خراب ہو جائے۔

گویا یہ اینٹی ڈپریسنٹ دوا تو کوئی نشہ بن چکی تھی کہ اسے چھوڑنے پر بھی انسان تکالیف میں گھر جاتا ۔مارک نے فیصلہ کیا، وہ تحقیق کر کے دریافت کرنے کی کوشش کرے گاکہ کیا اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا رہی ہیں یا نہیں؟ تحقیق کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر مارک سب سے پہلے دنیائے انٹرنیٹ میں گھوما پھرا۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا دوسرے لوگوں کو بھی اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ ترک کرنے پر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا؟وہاں اسے ہزارہا ایسے مردوزن ملے جن کی کہانیاں اس کی آپ بیتی سے ملتی جلتی تھیں۔

وہ بھی اینٹی ڈپریسنٹ چھوڑنے پہ بے چینی، کمی ِنیند اور ڈپریشن کا نشانہ بن گئے۔لوگوں کو سب سے زیادہ ایس ایس آر آئی ایس ادویہ سے شکایات تھیں۔انھوں نے جب اپنی حالت ڈاکٹروں کو بتائی تو جواب ملا:’’آپ کا ڈپریشن دوا چھوڑنے کی وجہ سے واپس آ گیا ہے۔‘‘اب ڈاکٹر مارک کے شکوک بڑھ گئے۔اسے احساس ہوا کہ دوا ساز اداروں اور ان سے منسلک ڈاکٹروں کا یہ دعوی مبنی بر حقیقت نہیں کہ اینٹ ڈپریسنٹ خصوصاً ایس ایس آر آئی ایس ڈپریشن دور کرتی اور افاقہ دیتی ہیں۔تب تک وہ لندن کی ایک درسگاہ، یونیورسٹی کالج سے وابستہ ہو چکا تھا۔وہاں شعبہ نفسیات کی سربراہ ڈاکٹر جوآنا مونسریف (Joanna Moncrieff) تھی۔ جب ڈاکٹر مارک نے سارا معاملہ باس کے سامنے رکھا تو اس نے تحقیق شروع کرنے کی منظوری دے دی۔

ایس ایس آر آئی ایس ادویہ ہمارے دماغ میں ایک نیوروٹرانسمیٹر ’’سیروٹونین‘‘ کی مقدار بڑھا کر اپنا اثر دکھاتی ہیں۔ سیروٹونین اہم نیوروٹرانسمیٹر ہے۔ ماہرین کی رو سے یہ ہامرے مزاج (موڈ) کو بہتر کرتا،نیند لاتا، کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتا ،ہڈیاں صحت مند رکھتا اور خون کو جمنے سے روکتا ہے۔ جنسی خواہش بھی پیدا کرتا ہے۔

غرض انسان کے کئی افعال اس کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ ایس ایس آر آئی ایس کے حامی ماہرین کا دعوی ہے کہ جب انسان ڈپریشن زدہ ہو تو اس کے دماغ میں ایک نیوروٹرانسمیٹر، گلوٹامیٹ (Glutamate) کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہ کیمیائی مادہ دماغی عصبی خلیوں (نیورنز) کے مابین پیغام رسانی روک کر انسان کو تھکن زدہ، سست الوجود اور ڈپریشن زدہ بنا دیتا ہے۔جب ایس ایس آر آئی ایسادویہ کھائی جائیں تو سیروٹونین زیادہ پیدا ہو کر گلوٹامیٹ کے منفی اثرات زائل کر دیتا ہے۔

تحقیق کا آغاز

ڈاکٹرجوآنا،ڈاکٹر مارک اور ان کے ساتھیوں نے زیر تحقیق ادویہ پر دستیاب سارے مقالہ جات کا مطالعہ کیا جن کی تعداد ہزروں میں ہے۔کئی مقالوں میں مریضوں کی کیس ہسٹریاں درج تھیں۔دیگر میں ایس ایس آر آئی ایس ادویہ کے طریق عمل کا جائزہ لیا گیا۔ان مقالات کا جوہر مدون کرتے محققین کو تین سال لگ گئے۔

اپنی طویل تحقیق سے یونورسٹی کالج کی ٹیم بشمول ڈاکٹر مارک نے جو نتائج اخذ کیے وہ ایک مقالے(The serotonin theory of depression: a systematic umbrella review of the evidence)کی صورت ممتاز امریکی سائنسی رسالے، نیچر میں جولائی 2022ء میں شائع ہوئے۔اس نئے مقالے نے امریکا و یورپ میں ہلچل مچا دی کیونکہ اُس کے ذریعے ماہرین طب نے انکشاف کیا کہ انسان کے دماغ میں سیروٹونین زیادہ یا کم ہونے کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں۔یہ ایک غلط نظریہ ہے جسے پروان چڑھانے میں ادویہ ساز اداروں نے حصہ لیا۔

وجہ یہ کہ اس نظریے کی بدولت انھیں ڈپریشن دور کرنے والی ادویہ بنانے اور کمائی کرنے کا موقع مل گیا۔ان سے منسلک ڈاکٹروں ہی نے یہ نظریہ مقبول بنایا کہ دماغ میں سیروٹونین کی کمی سے ڈپریشن پیدا ہوتا ہے۔لہذا دوا کی مدد سے اس نیوروٹرانسمیٹر کی مقدار بڑھا کر ڈپریشن کا علاج ہو سکتا ہے۔

آج امریکا، یورپ اور دیگر ممالک میں بھی کروڑوں انسان یہی سمجھتے ہیں کہ سیروٹونین کا مقدار بڑھانے سے ڈپریشن دور ہوتا ہے۔ مگر یونیورسٹی لندن کے ماہرین طب نے اپنی تحقیق سے یہ نظریہ باطل قرار دے ڈالا۔مقالے کی اشاعت کے بعد ڈاکٹر مارک نے صحافیوں کو بتایا :’’ادویہ ساز اداروں نے پروپیگنڈا کر کے عام آدمی کو یقین دلایا کہ اگر تم اداس ہو تو تمھیں علاج کی ضرورت ہے۔لہذا ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور یہ دوا استعمال کرو۔حالانکہ کوئی صدمہ پہنچنے پر انسان کا اداس وغمگین اور پریشان ہونا فطری عمل ہے۔ ‘‘

زندگی گذارتے انسان کو کسی بھی وقت اچانک کوئی بھی صدمہ پہنچ سکتا ہے۔یہ حالت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔صدمے سے جو منفی جذبے جنم لیں، انھیں دور کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی اندرونی روحانی طاقت سے ان کو کافور کرے۔ مگر ڈاکٹروں نے اس قدرتی کیفیت کو مختلف بیماریوں مثلاً ڈپریشن کا نام دے ڈالا ۔دعوی کیا کہ صدمے سے جنم لینے والا قدرتی ردعمل مرض ہے لہذا اس کا علاج کراؤ۔پھر یہ دعوی کیا کہ اس مرض کی دوائیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتیں حالانکہ یہ بھی جھوٹ تھا جیسا کہ ڈاکٹر مارک پہ افشا ہوا۔مقالے کی اشاعت کے بعد ڈاکٹر جوآنا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا:’’تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا کہ ایس ایس آر آئی ایس ادویہ صرف ان مردوزن کو فائدہ پہنچاتی ہیں جو شدید اداسی وافسردگی میں مبتلا ہوں۔

عام ڈپریشن میں یہ دوائیں دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔سوال یہ ہے کہ پھر انھیں لینے سے اکثر مردوزن افاقہ کیوں محسوس کرتے ہیں؟ وجہ نفسیاتی اثر ہے۔یہ مردوزن سمجھتے ہیں کہ چونکہ ان کا علاج شروع ہو چکا لہذا اب ڈپریشن میں کمی آئے گی۔ حالانکہ اگر وہ ایس ایس آر آئی ایس کی جگہ مٹی سے بنی گولیاں بھی کھا لیں تو نفسیاتی وجوہ کی بنا پر ڈپریشن میں کمی محسوس کریں گے۔‘‘

یونیورسٹی کالج لندن کے محققوں کی تین سالہ تحقیق سے یہ نکتہ بھی اجاگر ہوا کہ ماہرین طب اب تک سمجھ نہیں سکے، نفسیاتی ہیماریوں کا علاج ادویہ سے کیونکر کیا جائے؟ بلکہ پہلا سوال یہی ہے کہ کیا کسی نفسیاتی بیماری کا علاج دوا سے ممکن ہے؟ ابھی تو ادویہ استعمال کرانے کے حامی ماہرین کا استدلال یہی ہے کہ دماغ میں موجود نیروٹرانسمیٹروں اور دیگر کیمیائی مادوں کا قدرتی توازن بگڑنے سے نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور ان کا علاج دوا سے ہو سکتا ہے۔

یونیورسٹی کالج کے ماہرین کی تحقیق سے مگر عیاں ہوا کہ کم از کم ڈپریشن کا ایک اہم نیوروٹراسمیٹر، سیروٹونین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ممکن ہے کہ دیگر کئی نفسیاتی یا ذہنی امراض بھی کیمیائی مادوں سے براہ راست تعلق نہ رکھتے ہوں۔بلکہ انھیں جنم دینے میں صدمات کا کردار ہو۔لہذا ان کا علاج بھی قدرتی طریقوں سے ہونا چاہیے جیسے روحانی علاج یا جڑی بوٹیوں سے معالجہ (مشرقی طریق علاج)۔یہ بھی ممکن ہے، مصنوعی کیمیائی مادوں سے بنی ادویہ ذہنی امراض کی شدت میں اضافہ کرتی ہوں۔

یونیورسٹی کالج کے ماہرین کی تحقیق نے بہرحال امریکا و یورپ میں ماہرین نفسیات کو تقسیم کر دیا۔ ایک طبقہ اب سمجھتا ہے کہ ڈپریشن کا علاج کرتے ہوئے ادویہ کم سے کم استعمال کی جائیں۔جبکہ ادویہ ساز اداروں سے منسلک ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دوائیں ڈپریشن کو بڑھنے سے روکتی اور انسانی جانیں محفوظ بناتی ہیں۔لہذا ان کا استعمال جاری رہنا چاہیے۔دونوں فریق خود کو درست قرار دیتے ہیں۔

ڈاکٹر مارک اور ڈاکٹرجوآناکہتے ہیں، ایس ایس آر آئی ایس ادویہ سیروٹونین کی مقدار بڑھا کر دماغ کی قدرتی حالت میں تبدیلی لے آتی ہیں۔تب انسان مصنوعی طور پہ خوشی ومسّرت محسوس کرتا ہے۔مگر جب ادویہ کا استعمال چھوڑے تو سیرٹونین کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔اب انسان زیادہ غم واداسی محسوس کرتا ہے کہ سیروٹونین کی سطح مسلسل بلند رہنے سے وہ خوش رہنے کا عادی ہو جاتا ہے۔جب دوا نہ ملے تو پریشانی و بے چینی کا مظاہرہ کرتا ہے۔گویا ان ادویہ کا عمل شراب یا نشہ آور چیز جیسا ہے،وہ انسان کو اپنا عادی بنا لیتی ہیں۔یہ ان کا اہم منفی پہلو ہے۔

اسلامی طریقہ علاج

واقعہ یہ ہے کہ ہر انسان کو دکھ سکھ اور خوشی وغم سے واسطہ پڑتا ہے۔قران پاک میں فرمایا گیا ہے:’’ہم انسانوں کے دن ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔‘‘(سورہ آلعمران۔140) اسلامی تعلیم یہ ہے کہ دکھ وغم کو بہادری سے سہا جائے۔ایک مشہور حدیث ہے، رسول اکرمﷺ نے فرمایا:مومن کا معاملہ بھی کیسا اعلی ہے۔جو مومن ہے، اسے بظاہر شر سے بھی نیکیاں ملتی ہیں۔اگر اللہ تعالی اس پہ برکتیں نازل فرمائے تو وہ شکر گذار ہوتا ہے۔

اور یہ ایک نیک عمل ہے۔اگر مصائب میں گھر جائے تو صبر کرتا ہے۔اور یہ بھی ایک نیکی ہے۔(مسلم شریف)یہ ہے اداسی و افسردگی المعروف بہ ڈپریشن کا قدرتی اسلامی طریق علاج جسے بڑی خوبصورتی سے فرمایا گیا۔

یونیورسٹی کالج کے محقق کہتے ہیں:’’اب ہم سمجھتے ہیں کہ ڈپریشن کوئی ذہنی بیماری نہیں بلکہ جب انسان کسی صدمے سے دوچار ہو تو اس کا قدرتی ردعمل ہے۔یہی وجہ ہے، جب کوئی انسان کسی حادثے کا نشانہ بنے تو اداس، پژمردہ اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔

حادثے کے اثرات ختم ہو جائیں تو وہی انسان نارمل ہو جاتا ہے۔اسے کسی دوا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ہاں کمزور قوت ارادی والے مردوزن سہارے تلاش کرتے ہیں، جیسے سگریٹ پینا، پان یا نسوار کھانا۔کچھ تو نشہ آور اشیا کے چنگل میں پھنس کر اپنی زندگی تباہ کر ڈالتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ کہ امریکا و یورپ میں اب ماہرین نفسیات کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ حادثات ِزندگی سے انسان میں مختلف منفی ردعمل اور رویے جنم لیتے ہیں۔ان کے مابین بنیادی اختلاف یہ ہے کہ منفی ردعمل کا علاج کیسے کیا جائے؟ ایک طبقہ ایس ایس آر آئی ایس سمیت دیگر اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ استعمال کرنے کا حامی ہے۔ ڈاکٹرمارک و جوآناکہتے ہیں کہ ڈپریشن، ذہنی دباؤ، ذہنی اضطراب وغیرہ کو فزیوتھراپی اور روحانی علاج سے دور کیا جائے۔

ان کے نزدیک یہ عمل ادویہ کھانے سے بہتر ہیں۔ جبکہ ادویہ کے حامی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ صدمے انسانی دماغ کی ساخت میں منفی تبدیلیاں لاتے ہیں لہذا انھیں ختم کرنے کی خاطر دوا کا استعمال ضروری ہے۔

یونیورسٹی لندن کے محققوں کی انکشافاتی رپورٹ شائع ہوئے چند ہفتے گذرے تھے کہ امریکی حکومت کی ایجنسی برائے انتظام خوراک ودوا(FDA)سے منسلک ماہرین طب نے ایک اور چشم کشا تحقیقی رپورٹ’’Response to acute monotherapy for major depressive disorder in randomized, placebo controlled trials submitted to the US Food and Drug Administration‘‘جاری کر دی۔اس میں انکشاف کیا گیا کہ مشہور اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ صرف ۱۵ فیصد مریضوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ یہ مریض شدید ڈپریشن میں مبتلا ہوتے ہیں۔

درج بالا تحقیقی رپورٹیں سامنے آنے کے بعد امریکا ویورپ میں یہ مہم زور پکڑچکی کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ کا استعمال محدود کیا جائے۔مہم کے حامی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ ادویہ صرف شدید ڈپریشن کا شکار مریضوں کو دی جائیں ۔تب بھی چھ تا نو ماہ تک لیں۔اس کے بعد اشد ضروری ہو تو دیں۔وجہ یہی کہ طویل عرصہ استعمال سے انسان ان کا عادی ہو جاتا ہے۔پھر وہ کبھی انھیں ترک کرنا چاہے تو اسے ڈاکٹر مارک کی طرح مصائب کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ صرف ضرورت کے وقت ہی دوا کھائیے۔ادویہ کا غیر ضروری استعمال انسانی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔