سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی

ایڈیٹوریل  جمعـء 25 نومبر 2022

آرمی چیف کی تعیناتی پر مشاورت کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’وزیراعظم نے لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو چیف آف دی آرمی اسٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس بابت سمری صدر پاکستان کو ارسال کر دی ہے جنھوں نے اس سمری کی منظوری دے دی ہے۔یوں جنرل سید عاصم منیر باضابطہ طورپر پاک فوج کے سربراہ بن گئے ہیں۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تقرری کا بروقت اعلان کر دیا گیا ہے اور یہ تقریاں کرتے ہوئے سنیارٹی کے اصولوں کو فالو کیا گیا ہے۔

ان تقریوں کے بعد اس حوالے سے قیاس آرائیاں افواہیں دم توڑ گئیں ، بعض حلقوں نے اس خالصتا آئینی اور قانونی معاملے کو اپنی سیاست چمکانے کی خاطر متنازعہ بنانے کی کوشش کی جو ایک غیر سنجیدہ سیاسی طرز عمل قرار پایا۔ پاکستان آرمی کا بحیثیت ادارہ اپنی ترجیحات ، کلچر، اخلاقیات، سوچ، اصول اور رول آف بزنس ہیں اور وہ انھی کے مطابق کام کرتی ہے ۔ لہٰذا ان تقریوں کو سیاسی ایشو بنانے سے گریز کیا جانا چاہیے ۔

ادھر یوم شہدا پاکستان سے بطور آرمی چیف آخری بار خطاب کرتے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سازش کا جھوٹا بیانیہ بنایا گیا ، پھر راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔

سول ملٹری قیادت کو نامناسب القاب دیے گئے، ہم نے ملکی مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا ، صبر کی حد ہے، یہ ناممکن نہیں بلکہ گناہ کبیرہ ہے کہ بیرونی سازش ہو اور فوج کچھ نہ کرے۔ پچھلے سال فروری میں فیصلہ کیا کہ فوج آیندہ کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ فوج نے تو اپنی اصلاح شروع کردی ہے، امید ہے سیاسی پارٹیاں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گی۔

سپہ سالار قمر جاوید باجوہ نے صائب خیالات کا اظہار کیا، بلاشبہ پاک فوج کی قیادت نے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ، فوج نے جمہوریت کو بچانے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے اور ملک کی سرحدوں کا بھی کامیابی سے دفاع کیا ہے۔

عسکری قیادت کی دانش مندانہ کردار کے باعث ہی موجودہ جمہوری سسٹم کسی نقصان سے بچ گیا اور آج جمہوریت کی گاڑی اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔

ہمیں تاحال دہشت گردی اور دیگر مسائل کا سامنا ہے، اور اسی کی آڑ میں دشمن ہمیں کبھی دہشت گرد ملک قرار دینا چاہتا ہے تو دوسری جانب ڈیپ اسٹیٹ کا پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے، اس سے پہلے کہ بیرونی طاقتیں ہماری صورتحال کا فائدہ اٹھائیں، پاکستانی سیاستدان خود مل بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کریں اور ملک کو ترقی کی طرف لے کر جائیں۔

بدقسمتی سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ یہاں سب اقتدار میں آنے کے بعد ساری طاقت کا مرکز اپنی ذات کو بنانا چاہتے ہیں اور اس حقیت کو بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت نام کی بھی کوئی چیز ہے جس کے مطابق طاقت ایک جگہ پر اکٹھی نہیں ہوتی بلکہ اداروں میں آئینی اعتبار سے یکساں طور پر تقسیم ہوتی ہے تا کہ ادارے اس آئینی طاقت کے ذریعے اپنی اپنی حدود میں رہ کر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام جاری رکھ سکیں۔

دانش مند اور زیرک جنرل پردے کے پیچھے رہ کر ریاست کے سیاسی اسٹرکچر کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ انھیں تاریخ کے جدلیاتی عمل کا گہرا شعور اور ادراک ہوتا ہے لہٰذا ان کی بھرپور کوششوں سے حکومت، اپوزیشن، فوج، پارلیمنٹ اور عوام کے درمیان ایک ہم آہنگی اور توازن برقرار رہتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک فوج قیام پاکستان کے وقت سے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے بے مثال قربانیاں دیتی آرہی ہے اور ملکی سالمیت کا تقاضا یہ ہے کہ جانباز و جاں نثار فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے جو ایٹمی پاکستان کے خلاف ہیں، جو دنیائے اسلام کی جوہری قوت کے خاتمے کے درپے ہیں، جو لوگ اپنی فوج کے خلاف ہیں وہ شام ، عراق کی بربادی کو یاد رکھیں کہ کس طرح دشمنان اسلام نے ان اسلامی ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

پاک فوج کا قومی سلامتی پر کبھی سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم جہاں وطن میں موجود اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے حوصلوں کو فزوں تر کرنے کا باعث ہے وہاں گلوبل سطح پر بھی یہ پیغام گیا ہے کہ انسانیت کی ابدی و صفاتی اقدار، عالمی امن اور پْر امن بقائے باہم کی خواہش رکھنے والی پاکستانی قوم اپنی ذمے داریوں سے آگاہ اور سالمیت و خود مختاری کے دفاع میں مستعد ہے۔

ملک کے محافظ ادارے جب سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہے ہیں، تب سے پاکستان میں ایک طبقہ پس پردہ رہ کر دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کا کام کر رہا ہے جب کہ علمی اور فکری سطح پر ان کارروائیوں کو کبھی مذہبی اور کبھی قوم پرستی کی ایسی تاویلات کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے، جس سے دہشت گردوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں اور عام پڑھا لکھا شہری ریاست کو ظالم سمجھنے لگے۔

اسی مائنڈ سیٹ کے لوگ پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلانے میں مصروف ہیں، جب کہ فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا ٹولز کا پہلا مقصد انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ہم خیال افراد کو باہمی رابطے کی بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں ایک مخصوص گروہ سوشل میڈیا کے یہ سارے ٹولز پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔

مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مہم میں اندرونی گروہ ہی متحرک نظر آتے ہیں، ان کا قلع قمع کرنا انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان کے عوام آج بھی ملک میں سیاسی استحکام کی امید لگائے ہوئے تاکہ ملک کی سیاسی قیادت آئین اور جمہوری اصولوں کو مدنظر رکھ کر پاکستان کی تعمیرنو کرے اور ایسی اصلاحات متعارف کرائے جس کے ذریعے ایماندار اور قابل افراد ریاستی نظام کا حصہ بن سکیں اور سیاست کرپٹ سیاستدانوں اور جاگیرداری نظام سے پاک ہوجائے اور طبقہ اشرافیہ اور خاندانی سیاست کا اثر و رسوخ ختم ہو سکے تاکہ باپ کے بعد بیٹا اور پھر اس کا بیٹا یا خاندان کا کوئی دوسرا شخص اپنے شخصی اثر ، روپے پیسے کے بل بوتے اور پارٹی کا خاندانی مالک ہونے کی بنا پر پاکستان میں اقتدار پر قبضہ جمائے رکھے۔ کرپشن کا مسئلہ امیر یا غریب جاگیردار اور غیرجاگیردار کا نہیں ہے، یہ تو لالچ اور خاندانوں کی نسل در نسل بھوک ہے جو لامتناہی ہوتی ہے ۔

ہمارا آئین ہر جماعت کو اپنے جائز حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرنے کی اجازت دیتا ہے، لہٰذا سیاسی جماعتیں آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنا جمہوری حق استعمال کریں۔ سازش ، غداری ، الزام تراشی اور لعن طعن کرنے کے رویوں سے اغماض برتا جائے اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اس کی بہتری، خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے یکسو ہو کر کام کیا جائے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جس قسم کے افسوسناک واقعات رونما ہوئے، ان سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے جس نے ملک کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ تمام اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہترین ملکی مفاد کی ضمانت ہے۔

سویلین قیادت کو خاص طور پر قومی سلامتی کے معاملات میں اپنی طرف سے ذاتی اور غیر ادارہ جاتی فیصلہ سازی سے گریز کرنا چاہیے۔ سویلین قیادت کو ادارہ جاتی فیصلہ سازی کے لیے مضبوط نگرانی کے ڈھانچے اور اداروں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ایسے اداروں کی عدم موجودگی پالیسی میں ناپسندیدہ خلاء کا باعث بنتی ہے، جو فوج کی طرف سے ناقابل تلافی کے طور پر پُر ہوتی ہے۔ اخلاقی اور فکری خلیج کو کم کرنے کے بعد فیصلہ سازی کے ڈھانچے کے ساختی خامیوں کو بھی دور کیا جانا چاہیے۔پاکستان جیسے ممالک میں سول ملٹری تعلقات میں صحت مند توازن ازبس ضروری ہے۔ سول ملٹری تعلقات میں معیاری تبدیلی لانے کے لیے سویلین اور ملٹری دونوں حصوں کو اخلاقی، فکری اور ساختی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ ایسی صلاحیتیں پیدا کی جائیں جو سول ملٹری تعلقات میں صحت مند توازن کے لیے کردار ادا کریں۔

اس توازن کی تعریف پیٹر فیور نے بہترین انداز میں کی ہے، جو سمجھتا ہے کہ فوج کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ ایسا کچھ بھی کر سکے جو سول قیادت اسے کرنے کے لیے کہتی ہے، جب کہ اس کے ماتحت ہوتے ہوئے اسے صرف وہی کچھ کرنا چاہیے جو سِول قیادت اسے کرنے کا اختیار دیتی ہے۔

سب سے پہلے ملک کی سویلین سیاسی قیادت کو اپنی خود احتسابی کرنی چاہیے کیوں جب تک سیاسی قیادت جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کرتی، آئین اور قانون خود پر نافذ نہیں کرتی ، اس وقت تک وہ کسی ادارے پر الزام عائد کرنے کا حق نہیں رکھتی۔

موجودہ حالات سول ملٹری تعلقات میں ایک معیاری تبدیلی لانے کا تقاضاکرتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری اقدار مستحکم ہوں اور ملک میں سیاسی استحکام آئے اور معیشت مستحکم ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔