مارکس اور غربت

جمیل مرغز  جمعـء 25 نومبر 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

آرمی چیف کی تعیناتی کو میڈیا اور صحافی حضرات نے الف لیلی کی کہانی بنادیا تھا، عجیب و غریب تجزیے اور بے سروپا خبروں کا مقابلہ تھا ۔ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی جیسے پورا ملک اس مسئلے میں الجھا ہوا تھا‘شکر ہے کہ آرمی چیف کی تعینات ہوگئی اور چئیر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا تقرر بھی ہوگیا ہے۔ اب میڈیا کے جغادریوں کو کوئی نیا شوشا ڈھونڈنا چاہیے۔

اس حل ہوچکے معاملے کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتا ہوں۔ پچھلے کالم میں آبادی میں اضافے اور غربت کے تعلق کے بارے میں مالتھس کے نظریے کاجائزہ لیا تھا‘ آج کے کالم میںکارل مارکس کے خیالات کا جائزہ لیں گے۔کارل مارکس نے غربت کے بارے میں مالتھس کے نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ آبادی بڑھنے سے غربت قدرتی طور پر ہوتی ہے۔

یہ بات بھی غلط ہے کہ قدرتی وسائل اتنے کم ہوجا ئیںگے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری نہ کر سکیں‘اس کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر غربت سرمایہ داری نظام کے سماجی ساخت کا لازمی نتیجہ ہے ‘سرمائے کی نہ ختم ہونے والی بھوک کی وجہ سے مزید سرمایہ پیدا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر استحصال ہوتا ہے۔مارکس کا اصرار تھا کہ دنیا میں موجود وسائل آبادی کے لیے کافی بلکہ زیادہ ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایک مخصوص اقلیت ان وسائل کا استعمال اس طریقے سے کرتی ہے کہ دنیا کی آبادی کا غالب حصہ ان کے ثمرات سے محروم رہ جاتا ہے ‘آج دو سو سال گزرنے کے بعد بھی مارکس کا تجزیہ صحیح ثابت ہورہا ہے۔

آج سرمایہ دار ترقی یافتہ ممالک قدرتی وسائل کا استعمال غریب ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ کر رہے ہیں‘اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ ممالک غریب ملکوں کے وسائل لوٹ کر اپنے ممالک میں لے جارہے ہیں۔

مارکس نے سرمایہ داری کے اس غیر انسانی اور غیر اخلاقی پہلو کو بھی اجاگر کیا کہ یہ نظام پیداواری عمل کے دوران انسان کو بھی ایک شے (commodity)سمجھتی ہے ‘اس نے مالتھس کے نظریے کی یہ کمزوری بھی و اضح کی کہ وہ غربت میں اضافے کی وجوہات میں سرمایے کی چند ہاتھوں میں ارتکاز کو نظر انداز کر دیتا ہے اور صرف آبادی میں اضافے کو اس کا سبب بتاتا ہے۔مارکس نے کہا کہ سرمایہ داری کے بدترین استحصال کے نتیجے میں ماڈرن اقتصادی نظام میں آبادی کا بڑا حصہ بیگانگی کا شکار مزدور طبقہ بن جاتا ہے‘ یہ طبقہ اپنے ارد گرد سے بیگانہ ہوتا ہے۔

’’ فلسفہ بیگانگی‘‘ یا لاتعلقی (alienation)مارکس کے ذہن کی اختراع نہیں ہے بلکہ نفسیات کی ایک پرانی اصطلاح ہے ’اس سے مراد وہ ذہنی کیفیت ہے جس کے باعث انسان اپنے معاشرے ‘اپنی تہذیب حتی کہ اپنی ذات سے بھی کٹ جاتا ہے ‘وہ ہزاروں لاکھوں کی بستی میں بھی اپنے آپ کو تنہا اور بے یار ومدد گار محسوس کرتا ہے۔

اس کو اپنے گرد و پیش کی ہر شے اجنبی اور غیر نظر آتی ہے اور وہ معاشرے کی تمام قدروں تمام سرگرمیوںکو بے معنی سمجھنے لگتا ہے‘ اس ذہنی بیماری کی دوسری علامت لاچاری اور بے بسی کا شدید احساس ہے ‘انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ مجھ کو اپنی زندگی پر کو ئی اختیار حاصل نہیں ہے ‘نہ میں اپنے حالات کی اصلاح کر سکتا ہوںنہ میرے عمل سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔

بے مقصدیت کا یہ احساس اس کو سماجی قدروں سے اور بے بسی کا احساس اس کو اپنے کردار وعمل سے بیگانہ بنا دیتا ہے ‘پاکستان کے عوام کی اپنے مسائل سے لاتعلقی شاید اسی بیگانگی کا نتیجہ ہے ‘یہاں انسان جدوجہد کے بجائے خود کش حملے کو اپنے اور معاشرے کے مسائل کا حل سمجھتا ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان تیسری دنیا کے ممالک میں سرمایے کے ارتکاز کے عمل کی بدترین لیبارٹری بنا ہوا ہے ‘ہمارے حکمران اس بات پر فخر کرتے ہو ئے نہیں تھکتے کہ ہمارے ملک کی سب سے بڑی دولت ’’سستی لیبر‘‘ ہے۔

یہ حکمران سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان آکر ان محنت کشوں کا استحصال کرنے کی کھلی دعوت دیتے ہیں‘اس مقصد اور منافع کے لالچ میں حکمران ان بیرونی کمپنیوں کو ہر قسم کی ناجائز مراعات دینے پر تیار ہوتی ہے ‘مراعات تو دیتی ہے لیکن ان کمپنیوں کے احتساب کا کوئی طریقہ مو جو د نہیں‘نہ ان کے منافع پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے ‘نہ مزدور طبقے کے حقوق کا تعین ہوتا ہے اور نہ ملک کے مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں پاکستان جیسے غریب ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی کو سہولیات فراہم کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے ‘آبادی میں اضافے کی شرح حکومت کے وسائل سے زیادہ تیز رفتار ہوتی ہے۔

ملک کے وسائل زیادہ تر سامراجی ممالک اور ملک کے بالائی طبقے لے جاتے ہیں اور اس طرح عوام کو دینے کے لیے حکومت کے پاس کچھ نہیں بچتا‘ضرورت اس امر کی ہے کہ آبادی میں اضافے کو روکا جائے ‘ایک طبقہ جو ترقی کے نام پر ملک کے وسائل پر قابض ہے وہ آبادی میں کمی کے لیے غلط دلائل دے رہے ہیں لیکن وہ دانشوراور سیاسی کارکن جو واقعی ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔

ان کو چاہیے کہ مالتھس کے اس نظریے کی مخالفت کریں کہ آبادی میں اضافہ ایک دن اس کرہ ارض کو تباہ کردے گا ’ان کو چاہیے کہ وہ وسائل کی غلط تقسیم اور اس وجہ سے آبادی کے بڑے حصے کی محرومی اور ایک محدود اقلیت کی دولتمندی کی حقیقت سے پردہ اٹھائیں‘ ان کو غربت کے اصلی وجوہات سے آگاہ کیا جائے ۔

عالمی تجارت میں خسارہ ہمیشہ غریب ممالک اور منافع ترقی یافتہ ممالک کی قسمت میں کیوں لکھا گیا ہے ‘غریب ملکوں کو امیر ملکوں کی طرف سے دیے گئے قرضے ان ملکوں کی غربت میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ کا سبب کیوں بن رہے ہیں۔

امیر ممالک جن نرخوں پر غریب ممالک کا خام مال خریدتے ہیںاور جس نرخ پر تیار مصنوعات ان ممالک کوبیچا جاتا ہے‘ یہ دونوں نرخ امیر ممالک ہی کیوں مقررّ کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کی صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور یہ ملک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تیا رشدہ مصنوعات کی منڈیاں بن گئی ہیں؟سامراجی ملکوں کے اسلحہ کے کارخانوں کا تیار شدہ مال سب سے زیادہ غریب ممالک ہی کیوں خریدتے ہیں‘ان ممالک کے درمیان تنازعات کو ہوا کون دے رہا ہے ‘ سب عالمی فورموں میں غریب ملکوں کے بجائے بڑے سامراجی ممالک کی پالیسیاں ہی کیوں چلتی ہیں۔

عالمی بینک ‘IMF اور دیگر عالمی اقتصادیات کنٹرول کرنے والے اداروں کے سربراہان کا انتخاب امریکی حکومت کیوں کرتی ہے‘ آج پورا لاطینی امریکا ’’سامراج مردہ باد‘‘ کے نعروں سے کیوں گونج رہا ہے۔ مشرق وسطی کے ممالک تیل کی دولت سے مالامال ہیں‘ان ملکوں میں امن کیوں نہیں ہے ‘سینٹرل ایشیاء اور بحیرہ کیسپین کے معدنی ذخائر کی وجہ سے یہ پورا خطہ سامراجی ممالک کی آماجگاہ بن گئے ہیں۔

ان سوالات کا جواب بھی ملک کے باشعور سیاسی دانشوروں کو عوام کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔ اگر غربت سے نجات حاصل کرنی ہے تو اس نظام سے بغاوت کرنی ہوگی ورنہ یہی ہمارا مقدر ہے۔بقول قتیل شفائی  ؎

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔