26نومبر: پولیس اور وزیر داخلہ کا امتحان

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 25 نومبر 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دُنیا بھر میں جب بھی کوئی لانگ مارچ پر عمل کرتا ہے یا اِس کا ذکر چھیڑتا ہے، چین کے ڈینگ ژیاؤ پنگ ، چو این لائی اور چیئرمین ماؤزے تنگ کا تاریخی اور تایخ ساز لانگ مارچ یاد آ جاتا ہے۔

آج کے جدید، ترقی یافتہ، سوشلسٹ اور انقلابی چین کی بنیادوں میں ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ کی جدوجہد اور ہزاروں انقلابی چینیوں کاخون شامل ہے۔

استحصالی، ظالم سرمایہ داروں اور جاگیر دار قوتوں کے خلاف ماؤزے تنگ کا سرخ لانگ مارچ 10ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہُوا ڈیڑھ برس جاری رہا تھا۔ اس لانگ مارچ میں70 ہزار چینیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

جب ہم چیئرمین عمران خان کے لانگ مارچ کا تقابل ڈینگ ژیاؤ پنگ اور ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ سے کرتے ہیں تو ہمیں شرم بھی آتی ہے اور سب یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ خان صاحب کا مبینہ لانگ مارچ دراصل لانگ مارچ کے نام پر محض مذاق ہے۔

اُن کے لانگ مارچ میں بھی نصف درجن کے قریب معصوم جانیں کام آئی ہیں مگر اِن انسانی جانوں کا اتلاف محض حادثاتی ہے۔ کسی ہدف، کمٹمنٹ اور مقصد کی خاطر نہیں ۔

33دن پہلے جب خان صاحب کا مبینہ لانگ مارچ لاہور کے لبرٹی چوک سے شروع ہُوا تھا، تب بھی اِس پر اضمحلال اور بے دلی کے بادل چھائے نظر آتے تھے۔ سفر سے قبل ہی اِس پر نقاہت طاری ہو چکی تھی ۔

رفتہ رفتہ خان صاحب کے خطابات پر بھی پژمردگی غالب آنے لگی۔ وزیر آباد کے نزدیک مبینہ قاتلانہ حملے کے بعد خان صاحب نے ویسے بھی خود کو تنہا کر لیا۔وہ جن چار بڑے مقاصد( شہباز حکومت کا خاتمہ، اپنا من پسند نیا آرمی چیف، نیا چیف الیکشن کمشنراور جلد انتخابات کی تاریخ ) کے حصول کی خاطر یہ مبینہ لانگ مارچ لے کر راولپنڈی کی جانب روانہ ہُوئے تھے، ان میں سے ایک بھی ٹارگٹ وہ حاصل نہیں کر سکے ۔

اب پی ٹی آئی کے اندر اور باہر ہر کوئی یہ استفسار کررہا ہے کہ خان صاحب کوآخر اِس لانگ مارچ سے ملا کیا ہے ؟ لاہور سے راولپنڈی تک اُن کے مبینہ لانگ مارچ کا قافلہ راستے میں اُسی طرح بھٹکتا نظر آیا جیسے ہزاروں برس قبل ایک قوم صحرائے تیہ میں لا حاصل بھٹکتی رہی۔

تھک ہار کر خان صاحب نے 19نومبر کو اعلان فرمایا کہ وہ 26نومبر کو راولپنڈی میں اپنے کارکنوں سے ملیں گے،لانگ مارچ میں شریک ہوں گے ، اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے اور سرپرائز بھی دیں گے۔

کیا یہ سرپرائز لمبے دھرنے کی شکل میں ہوگا؟ اب کل 26نومبر ہے ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کوئی ہیجان تو برپا نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ حفظِ ماتقدم کے تحت راولپنڈی اور اسلام آباد کنٹینروں کے حصار میں ایک بار پھر آ چکا ہے۔

ہمارے حکمرانوں نے اپنے مقاصد کی خاطر کنٹینروں کا استعمال کر کے ایک نئی اور ناقابلِ رشک تاریخ تو مرتب کر ڈالی ہے لیکن غریب عوام کا جینا بھی عذاب بنا دیا ہے۔ پرویز مشرف کے دَور میں کنٹینروں کا یہ استعمال شروع ہُوا تھا۔ معلوم نہیں یہ کنٹینر ازم کس کس کی جان لے جائے گا؟

مجروح خان صاحب کا لانگ مارچ پنجاب اور اسلام آباد کی پولیس کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ، رانا ثناء اللہ، کے لیے نئی آزمائشیں اور امتحانات لے کر طلوع ہُوا ہے۔ راولپنڈی میں تعینات پنجاب کے دوسروں شہروں سے بلائی اور تعینات کی گئی پولیس نے چند روز قبل جو احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔

اس سے بھی پوری طرح عیاں ہو گیا ہے کہ پولیس کے جوان اس لانگ مارچ اور انتظامیہ سے کس قدر نالاں اور عاجز آ چکے ہیں ۔ عمران خان کا مبینہ لانگ مارچ خان صاحب کے کہنے پر تو راولپنڈی میں یکجا ہوگا لیکن اِس کا دباؤ اسلام آباد پر ہے ۔

یوں یہ وزیر داخلہ کے اعصاب کا امتحان بھی ہے ۔ وزیر داخلہ صاحب اپنے مخصوص لہجے میں مقابلے کے جو اعلانات کررہے ہیں ، بعید نہیں کہ وہ اپنے عزائم پر پوری طرح عمل بھی کر گزریں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اتحادی اور شہباز حکومت میں رانا صاحب ہی تو ہیں جو پُر عزم دکھائی دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ مگر اُن کے لیے بھی اسلام آباد کا مکمل تحفظ ہے۔

راولپنڈی کا تحفظ چوہدری پرویز الٰہی کی ذمے داری ہے۔ پچھلی بار (25مئی کو) جب خان صاحب اپنے احتجاجی کارکنوں کی معیت میں اسلام آباد ’’تشریف‘‘ لائے تھے تو اچھی مثالیں قائم کرنے سے قاصر رہے تھے۔

اِس پس منظر میں اب دودھ کا جلا اگر چھاچھ بھی پھونکیں مار کر پیتا ہے تو اچنبھے کی بات کیا ہے؟ بڑا سوال مگر یہ ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد پولیس جڑواں شہروں کا بچاؤ کیسے کر سکے گی؟

اسلام آبادکی آبادی تقریباً2 ملین ہے۔ رقبہ تقریباً ایک ہزار مربع کلومیٹر۔ اسلام آباد پولیس   ساڑھے 12 ہزار نفوس پر مشتمل ہے ۔کیا یہ تعداد تحفظ کے لیے کافی ہوگی؟ اورپنجاب پولیس کا حال یہ ہے کہ اِس کا سربراہ چھُٹی پر جا چکا ہے۔

اِس کے اثرات بھی لانگ مارچ میں متعین پنجاب پولیس کے جوانوں پر پڑ رہے ہیں۔یہ اِنہی کا اثر ہے کہ لانگ مارچ کے دوران پنجاب پولیس نے صحافیوں پر تشدد بھی کیا ہے۔ پنجاب پولیس خان صاحب کے لانگ مارچ کے دوران FrustrateاورJittery ہو چکی ہے۔

یوں یہ نفسیاتی عوامل بھی پولیس پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے بھی اِنہی ایام میں اپنے بعض افسروں کے رویوں کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ایسے میں اسلام آباد پولیس خان صاحب کے لانگ مارچ کا کیا مقابلہ کر سکے گی جب ان کا اپنا مورال ہی ڈاؤن ہو چکا ہو۔

مورال اَپ کرنے کے لیے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اسلام آباد پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔اس کا کریڈٹ بھی شاید خان صاحب اور ان کے لانگ مارچ ہی کو جاتا ہے۔ اِسے Blessing in Disguiseبھی کہا جا سکتا ہے۔

عمران خان کہہ چکے ہیں کہ جب ہمارا لانگ مارچ راولپنڈی اور اسلام آباد پہنچے گا تو اسلام آبادی پولیس ( تصادم کے بجائے) ہمارے ساتھ مل جائے گی۔

خان صاحب نے یہ بیان دے کر دراصل’’ دانہ‘‘ پھینکا تھا لیکن یہ ’’دانہ‘‘ کسی نے چگنے سے انکار کر دیا ہے۔

دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ جب لانگ مارچ وفاقی دارالحکومت کی فصیلوں کے سائے تلے پڑاؤ ڈالے گا تو  اسلام آبادی پولیس کے کتنے لوگ خان صاحب کی توقعات پر پورا اُتریں گے؟ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو یہ ڈسپلن کی خلاف ورزی بھی ہوگی اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان کی مرتب کردہ اسٹرٹیجی کی تباہی بھی۔اِس کے امکانات مگر کم کم ہیں ۔

یہ دراصل اعصاب کی جنگ ہے۔ اور اب تک اس جنگ میں ، خان صاحب کے مقابل، شہباز شریف کی اتحادی حکومت پورے قد کے ساتھ کھڑی ہے۔ لانگ مارچ کے کارن سعودی ولی عہد، جناب محمد بن سلمان، نے جس طرح دَورئہ پاکستان منسوخ یا ملتوی کیا ہے۔

اِس کا بھی الزام اور دباؤ عمران خان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔خان صاحب نے اپنے مقاصد و مفادات کے لیے امریکی سائفر سے کھیلنے کی کوشش کی تھی اور اب وفاقی حکومت خان صاحب کے لانگ مارچ سے کھیل رہی ہے۔

عمران خان یہ بھی کہہ رہے ہیںکہ ’’آرمی چیف کی تقرری کی سمری پر مَیں اور صدرِ مملکت آئین و قانون کے مطابق کھیلیں گے۔‘‘خوب! مگر اس’’ کھیل‘‘ میں غریب عوام کا کچومر نکل رہا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔