میری کہانی ، میری زبانی (حصہ اول)

شکیل فاروقی  جمعـء 25 نومبر 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

جوکچھ بھی میرے پاس ہے مولیٰ کا کرم ہے

میں کچھ بھی نہیں ، کچھ بھی نہیں ، کچھ بھی نہیں ہوں

میرا آج کا کالم اب تک کہ تمام کالموں سے مختلف ہے کیونکہ آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے۔ جی چاہتا ہے کچھ رام کہانی یا آپ بیتی ہوجائے کیونکہ:

سیاست و ریاست تو چلتی رہے گی

چلو آج اپنی کہانی سنائیں

میری دلی خواہش ہے کہ میں اپنی حیاتِ بے ثبات کا قصہ بیان کروں جو کہ دلچسپ بھی ہے اور کسی حد تک مفید اور سبق آموز بھی! اِس وقت میں اپنی عمر کے آخری مراحل سے گزر رہا ہوں۔ نہیں معلوم کہ یہ سفر کسی لمحہ ختم ہوجائے اور سفرِ آخرت شروع ہوجائے تو اِس حوالہ سے دو اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

زیست کا اختتام ہونے کو ہے

اب یہ قصہ تمام ہونے کو ہے

ڈھل رہا ہے حیات کا سورج

زندگانی کی شام ہونے کو ہے

توشہ آخرت کے طور پر ایک مجموعہ حمد و نعت زیرِ طباعت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں اپنی سرگزشت کی اشاعت کا بندوبست کر سکوں، دوسرے یہ کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ یہ اور بات ہے کہ یہ الفاظ کسی صاحبِ دل کی نظروں سے گزر جائیں اور اس مسئلہ کا کوئی حل نکل آئے۔ فی لحال یہی کیا جاسکتا ہے کہ میں اپنی کہانی کو اپنے چند کالموں میں سمیٹنے کی کوشش کر سکوں۔

میں کوئی بڑا آدمی بھی نہیں ہوں۔ دورِ حاضر میں بڑا آدمی کہلانے کی جو کسوٹی ہے اُس پر میں پورا نہیں اُترتا کیونکہ میرے پاس نہ مال و دولت ہے نہ کوئی اعلیٰ منصب ہے اور نہ کوئی مددگار۔

میں نے اِس دنیائے فانی میں جب آنکھ کھولی تو دوسری عالمگیر جنگ چھِڑ چکی تھی اور اس جنگ کے مہیب سائے دنیا کے اوپر منڈلا رہے تھے۔

میرا جنم اپنے ننھیال میں ہوا جو نجیبُ الطرفین سادات خانوادہ تھا۔ میری والدہ ماجدہ پکی پکی سیدانی تھیں جو اپنے ایک بڑے بھائی سے چھوٹی اور دیگر بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں جس کی وجہ سے انھیں سب ’’آپا ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے سو میں نے بھی انھیں اماں یا امی کہنے کے بجائے آپا ہی کہا۔ میرے نانا سید ضمیر حسن قصبہ کے سب سے بڑے زمیندار ہونے کی وجہ سے نمبردار کہلاتے تھے اور اُن کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔

تاہم اُن کی سب سے بڑی اولاد جن کا نام سید مبشر حسن تھا کی اچانک وفات نے میرے نانا کو نڈھال کرکے بسترِ علالت پر لٹادیا تھا جس سے وہ تادمِ آخر اُٹھ نہیں سکے۔ بس یوں کہا جائے کہ میری ننھیال کی بہاریں ختم ہوچکی تھیں اور خزاں کا موسم شروع ہوچکا تھا۔

میری پیدائش جس قصبہ میں ہوئی اُس کا نام ہے بگھرہ۔ یہ چھوٹا سا قصبہ مغربی یوپی کے مشہور ضلع مظفر نگر میں واقع ہے اور مظفر نگر کی وجہ شہرت گُڑ کی منڈی کی وجہ سے ہے کیونکہ اِس علاقہ میں گَنے کی پیداوار بہت ہوتی ہے ، ویسے بھی یہ علاقہ بہت زرخیز ہے۔

قصبہ تھانہ بھون جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی وجہ سے پوری دنیائے اسلام میں مشہور و معروف ہے ہمارے قصبہ بگھرہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر واقع ہے۔ اب کا تو کچھ معلوم نہیں لیکن ہمارے زمانہ میں قصبہ کے لوگوں نے وہاں کوئی تھانہ بننے نہیں دیا کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو سب کا امن و سکون غارت ہوجائے گا۔ ہمارے قصبہ کی سب سے نمایاں اور قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ یہ ہندو مسلم اتحاد کا گہوارہ تھا۔

1947میں جب فرقہ وارانہ فساد بھڑکے ہوئے تھے اِس قصبہ کے لوگ بھائیوں کی طرح امن و آتشی سے رہتے تھے۔قصبہ میں امن و آشتی کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے ہندو اور مسلمان سر جوڑ کر بیٹھے اور طے پایا کہ دونوں مذاہب کے لوگوں پر مشتمل دو ٹولیاں بنائی جائیں گی جو رات کے وقت ہندو اور مسلمانوں کے گلی کوچوں میں گشت کریں گی۔

ایک ٹولی جب ہندوؤں کے علاقہ میں گشت کر رہی ہوگی تو ٹھیک اُسی وقت دوسری ٹولی مسلمانوں کے علاقہ میں گشت پر ہوگی تاکہ کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ دوسرے یہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی غیر آدمی کو خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان بغیر تصدیق اور شناخت قصبہ کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

یہ منصوبہ بندی 100 فیصد کارآمد ثابت ہوئی۔ معلوم نہیں کہ اب وہاں کیا حال ہے لیکن ہماری معلومات کی حد تک ماحول اب بھی جوں کا توں ہے۔

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے ماحول میں مسالک اور فقہوں کا میل جول کیسا رہا ہوگا۔خود ہماری پیدائش جن دایا کے ہاتھوں ہوئی اُن کا تعلق فقہِ جعفریہ سے تھا جنھیں جعفری کہا جاتا تھا۔ یہی وہ خاتون تھیں جنھوں نے ہمیں اپنے ہاتھوں سے گھُٹی پلائی تھی۔ غالباً یہی وجہ ہوگی کہ ہمارا حلقہ احباب دونوں فقہوں پر مشتمل ہے اور کسی قسم کی تفریق کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔

ہماری تعلیم کا آغاز جس مدرسہ سے ہوا وہ ایک گھیر تھا جہاں جانور رکھے جاتے ہیں اور جس کے ایک حصہ میں مہمان خانہ ہوتا تھا۔ گھیر کے دوسری طرف ہمارے نانا کا مکان تھا جس کے درمیان ایک بلند دیوار تھی جو گھیر اور ہمارے نانا کے گھر کے درمیان موجود تھی۔

مدرسہ کے سربراہ ایک بزرگ تھے جو ماسٹر بھی تھے اور ہیڈ ماسٹر بھی جنھیں مُنشی جی کہا جاتا تھا۔ اُس زمانہ میں لفظ مُنشی اُس شخص کو کہا جاتا تھا جو بہت پڑھا لکھا ہوتا تھا اور جس کا معاشرے میں بہت احترام ہوتا تھا۔ برصغیر کے نامور افسانہ نگار اِسی نسبت سے مُنشی پریم چند کہلاتے تھے جب کہ اُن کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔

ہمارے ایک ماموں جو اُس زمانہ کے میٹرک پاس تھے مُنشی ظریف حسن اِسی نسبت سے مُنشی جی کہلاتے تھے۔ اُس زمانہ کے میٹرک پاس کا معیارِ تعلیم شاید آج کل کے ایم اے پاس سے بھی زیادہ تھا۔ ہمارا مدرسہ امدادی تھا جو طلباء کی امداد اور سرکار کی اعانت سے چل رہا تھا۔ سرکاری امداد ماہانہ منی آرڈر کے ذریعہ آتی تھی جسے مُنشی جی تنخواہ کہا کرتے تھے۔

ہر طالبعلم جمعرات کو ہفتہ وار ایک آنہ ادا کرتا تھا جسے فیس کہا جاتا تھا۔ تمام طلباء اپنے اپنے گھروں سے بیٹھنے کے لیے پٹسن کی ایک بوری سر پر رکھ کر لاتے تھے جس پر وہ بیٹھتے تھے۔ بوری کے اوپر لکڑی کی ایک تختی ہوتی تھی جس پر کتابوں، کاپیوں اور قلم دوات پر مشتمل ایک بستہ ہوتا تھا۔

اِس بستہ میں ایک سلیٹ کا اضافہ بھی ہوگیا تھا۔ تختی کو ملتانی مٹی سے ہر روز پوتا جاتا تھا تاکہ نیزے کے قلم سے کی گئی لکھائی کو مٹایا جاسکے۔جمعرات کو طلباء مدرسہ سے فارغ ہوکر خوشی خوشی یہ گاتے ہوئے نکلتے تھے کہ:

تختی پہ تختی تختی پہ دانہ

کل کی چھٹی پرسوں آنا

کیونکہ گزشتہ روز جمعہ کی چھُٹی ہوتی تھی۔ (جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔