- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
پولیس والے اغوا کار کی طرح آئے تو جان بچانے کیلیے فائرنگ کی، مفرور ملزم خرم نثار
کراچی: ڈیفنس فیز 5 میں فائرنگ کرکے شاہین فورس کے اہلکار کو قتل کرکے بیرون ملک فرار ہونے والے ملزم نے وضاحتی ویڈیو بیان میں انکشاف کیا ہے کہ پولیس اہلکار پولیس وردی میں نہیں تھے، انہیں اغواکار سمجھ کر فائرنگ کی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ڈیفنس فیز5 میں پانچ روز قبل فائرنگ کرکے شاہین فورس کے اہلکار عبدالرحمان کو قتل کرکے بیرون ملک فرار ہونے والے ملزم خرم نثار کا وضاحتی ویڈیو بیان سامنے آگیا، ویڈیو بیان میں مفرور ملزم کا کہنا ہے کہ میرا سالہ واقعے کے حوالے سے لاعمل تھا سالے کو علم نہیں تھا کہ بات اتنی بڑھ گئی ہے میں نے اپنے سالے کی مدد سے سفری دستاویزات گھر سے منگوائے تھے جو کہ ایک عام سی بات تھی، سالے کو میں کہا تھا کہ میری لڑائی ہوئی ہے اور کوئی بڑی بات نہیں ہے، میں جلد جا رہا ہوں ویسے مجھے جانا ہی تھا۔
خرم نثار نے کہا کہ عبداللہ شاہ غازی مزار کے قریب جو کچھ میرے ساتھ ہوا مجھ پر الزام لگائے گئے، ایک الزام یہ ہے کہ میری گاڑی میں اسلحہ موجود تھا، کیا پولیس اہلکاروں کو میری گن نظر آرہی تھی؟ دوسرا الزام مجھ پر اغوا کا لگایا گیا کہ بوٹ بیسن سے میں نے کسی لڑکی کواغوا کیا، پہلی بات ہے کہ میں بوٹ بیسن گیا ہی نہیں، راستے میں 100 سے 200 کیمرے لگے ہوں گے کمیروں میں میری ایک بھی تصویر دیکھا دی جائے.
مفرور ملزم خرم نثار کا کہنا ہے کہ مجھے روکنے کا کام شاہین پولیس کے اہلکار کا نہیں تھا, پولیس اہلکار یونیفارم میں بھی موجود نہیں تھا, مجھے روکا گیا تو پولیس اہلکار کے ہاتھ میں گن تھی اور وہ کہہ رہا تھا کہ گاڑی کا گیٹ کھولو, پولیس اہلکار نے زور لگا کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور میں نے گاڑی کے شیشے نیچھے کر کے پوچھا کون ہو تو جواب ملا پولیس والے ہیں، میں نے اہلکار سے کہا اگر آپ پولیس والے ہو تو اپنا آئی ڈی کارڈ دکھاؤ، میں نے کہا اگر آپ اپنا کارڈ شو نہیں کراؤ گے تو میں آپ کو پولیس اہلکار نہیں سمجھوں گا، پولیس اہلکار نے اسی وقت مجھ پر فائرنگ کرنے کی کوشش کی جس پر میں نے گاڑی تھوڑی سی آگے بڑھا دی اور کچھ فاصلے پر جا کر گاڑی روک دی میری گاڑی میں لائسنس یافتہ گن موجود تھی جو میں پکڑ کر گاڑی کے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔
مفرور ملزم کا ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ گاڑی کے باہر پولیس اہلکار میری اور میں ان کی ویڈیو بناتا رہا میری ویڈیو صحیح بن نہیں پائی لیکن پولیس اہلکار کی ویڈیو بن گئی جس پر میں نے پولیس اہلکار کو کہا کہ موبائل بلوالو کس تھانے جانا ہے میں چلتا ہوں، لیکن پولیس اہلکار مجھے تھانے لے جانا نہیں چاہ رہے تھے، پولیس اہلکار جب تھانے جانے پر راضی ہوگئے تو راستے میں ایک پولیس اہلکار کہنے لگا تھانے کے بجائے کہیں اور جانا ہے، تو میں نے کہا تھانے جا کر مجھے یقین ہو جائے گا کہ تم پولیس اہلکار ہو لیکن اس نے میری بات نہیں مانی اور زبردستی دوسرے راستے لے گیا راستے میں نے جسے ہی یو ٹرن سے گاڑی موڑنا چاہی تو پولیس اہلکار نے گاڑی کا اسٹیرنگ پکڑ لیا اور گاڑی نیوٹرل کردی۔
ملزم نے کہا کہ جیسے ہی گاڑی نیوٹرل ہوئی میں گاڑی سے اترگیا تو پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ہم تجھے وہاں ضرور لیکر جائیں گے اور تیرے ساتھ بہت برا کریں گے میں ڈر گیا میں نے کہا میں نہیں جاؤ گا میری تھانے جانے کی بات ہوئی ہے، پولیس اہلکار نے گاڑی کے اندر داخل ہو کرمجھ پر فائر کردیا لیکن پولیس اہلکار کی گولی نہیں چل سکی گاڑی سے باہر نکل کر مجھے باتوں میں لگا کر پولیس اہلکار اپنے انگوٹھے سے پستول کا چیمبر صحیح کرنے لگا تاکہ دوبارہ مجھ پر فائرنگ کرسکے، میں ڈر گیا تھا مجھے اپنے بیوی بچوں کی یاد آگئی میں نے اپنے دفاع میں پولیس اہلکار پر فائرنگ کردی۔
مفرور ملزم کا کہنا ہے کہ میرا مقصد پولیس اہلکار کو مارنا نہیں بلکہ اپنی جان بچانی تھی میں نے کیا اپنی جان بچا کر گناہ کیا؟ میں اور کیا کرسکتا تھا؟ مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ اصلی پولیس اہلکار ہے بھی یا نہیں! مجھے مجوراً گولی چلانا پڑی، مجھے پولیس اہلکار کو مارنا ہوتا تو میں شروع میں ہی مار دیتا جب شروع میں پولیس اہلکاروں نے زور سے گاڑی کا دروازہ کھولا تو میں سمجھا تھا کہ اغوا کار ہیں، میں اپنے بوڑھے والدین سے ملنے آیا تھا اور اکثر آتا جاتا رہتا ہوں، میری گن لائسنس یافتہ ہے اور گزشتہ 18 سال سے میرے پاس ہے لیکن میں نے 18 سال میں کبھی بھی گن کا غلط استعمال نہیں کیا ورنہ میرا ریکارڈ نکل آتا، میں نے اپنی گن کا اپنی جان کی دفاع کے لیے استعمال کی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔