سات ’’بہنیں‘‘

حارث بٹ  اتوار 27 نومبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

میں ہمیشہ ہی شہرِاقتدار کو صرف چھو کر گزرا ہوں مگر اس شہر نے ہمیشہ مجھے خوشیوں کا سامان میسر کیا ہے۔ شمال یا خیبر پختونخواہ میں کہیں بھی آپ کو سیاحت کے لیے جانا ہو، آپ کو اسی شہر سے گزارنا پڑے گا۔

یوں سادے الفاظ میں آپ سمجھ لیں کہ ہر ایک کی حقیقی خوشیاں کا آغاز اسی شہر سے ہوتا ہے. ایسے میں، میں سوچتا ہوں کہ اس شہر کا حق ہے کہ کبھی ایک پورا دن اس ایک شہر کو دیا جائے۔

اس شہر کی گلیوں میں بے مقصد گھوما جائے اور اس شہر کی گلیوں سے مزید خوشیوں کو کشید کیا جائے۔ تو آج سے، ابھی سے ہم نیت کرتے ہیں کہ اب کی بار اگر کسی شہر کو نکلا جاوے گا تو وہ شہرِ اقتدار ہی ہوگا، مگر یہ تو آنے والے وقت کی باتیں تھیں۔

ہم تو آج بھی شہرِ اقتدار میں ہی تھے مگر کچھ کچھ نہیں بلکہ پورے کے پورے خودغرض تھے۔ ہم آج بھی اس شہر کو فقط چھو کر ہی گزر رہے تھے۔ ہم آج بھی فقط اپنی خوشیوں کی تلاش میں اس شہر کو استعمال کر کے، اس سے ایک وعدہ کر کے اسے چھوڑے جا رہے تھے کہ سات بہنیں ہماری منتظر تھیں۔

بہنیں تو وہ کُل گیارہ تھیں مگر چار دور اور بہت دور بیاہ دی گئی تھیں، اس لیے ان چاروں میں ہمیں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ ہم تو بس ان سات بہنوں میں دل چسپی رکھتے تھے جو کنواری تھیں اور اٹک اور جھلار کے درمیان ساتھ ساتھ رہتی تھیں۔

کوئی بہن چھوٹی سی تھی تو کوئی بہت لمبی تھی۔ کوئی بہن تیر کی طرح بالکل سیدھی تھی اور صوم و صلوات کی پابندی کے ساتھ ساتھ صراطِ مستقیم پر چلتی تھی جب کہ کچھ کے اندر کج روی تھی۔

چوں کہ ان سات بہنوں کو ابھی زیادہ تر سیاحوں نے نہیں دیکھا اس لیے ہم انھیں کنوارہ ہی لکھیں گے اور پکاریں گے تاکہ سند رہے اور لوگ جوق درجوق ان کے حُسن کو دیکھنے کے واسطے اٹک کی فضاؤں کا رخ کریں۔

میں کچھ دیر پہلے ہی ساری رات کا سفر کر کے سیالکوٹ سے راولپنڈی پہنچا تھا۔ اب معلوم نہیں کہ فیض آباد کا ٹرمینل راولپنڈی میں آتا ہے یا اسلام آباد میں۔ یہی جڑواں شہروں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو مجھ جیسے پردیسوں کے لیے مسئلہ فیثاغورث سے کم نہیں کہ کونسا علاقہ اسلام آباد میں ہے اور کون سا علاقہ راولپنڈی میں۔ میں نے فیض آباد سے ٹیکسی پکڑی اور سیدھا ریلوے اسٹیشن چلا گیا جہاں ساہیوال سے آیا ہوا میرا ایک رفیق میرا منتظر تھا۔

اس رفیق کی بہت سی اچھی باتیں بھی تھیں اور کچھ بُری بھی مگر بُری باتیں بھی اس اتنی ہی بری تھیں کہ انھیں برداشت کرلیا جائے۔ سب سے اچھی بات میرے رفیق کی یہ تھی کہ یہ میری طرح کچھ کچھ حساس تھا۔

احساس کرنے والا تھا۔ میرا یہ رفیق چوںکہ ساہیوال سے لاہور اور لاہور سے راولپنڈی ریل پر ہی آیا تھا، اس لیے اُس نے صبح پانچ بجے پنڈی اترنے پر فوراً تھل ایکسپریس کی دو ٹکٹس لے لیے جس پر سوار ہو کر ہمیں جھلار تک جانا تھا۔ ہم دونوں تقریباً ایک ساتھ ہی شہرِاقتدار میں اترے تھے۔ ایک موذن لوگوں کو کام یابی کی جانب بلا رہا تھا۔

اگرچہ کہ میرا کوئی خاص دل نہیں تھا کہ موذن کو لبیک کہا جائے مگر مجھے رفیق کے پیچھے پیچھے لبیک کہنا ہی پڑا۔ میدے کے عجیب و غریب پراٹھے کھانے کے بعد ہم فوراً ریلوے اسٹیشن کی جانب کوچ کرگئے۔ البتہ آملیٹ مزے کا تھا۔ شہرِاقتدار کی صبح ہی نرالی تھی۔

کچھ کچھ خنک زدہ مگر ویران۔ میں پلیٹ فارم نمبر 3 پر داخل ہوا تو ایک ریل لاہور جانے کے لیے بالکل تیار کھڑی تھی۔ اسٹیشن ماسٹر سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ ہماری لاڈو رانی یعنی کہ تھل ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر 2 پر کھڑی ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے پلیٹ فارم نمبر 2 کے بارے میں کسی سے نہیں پوچھا کہ وہ کہاں تھا۔

ظاہر سی بات ہے پلیٹ فارم نمبر 3 کے ساتھ پلیٹ فارم نمبر 2 ہی ہونا تھا۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر پلیٹ فارم نمبر 2 پر جانے لگا کہ دور پلیٹ فارم نمبر 2 کی تختی لگی نظر آئی جو دوسری جانب نہیں تھی بلکہ پلیٹ فارم نمبر 3 کے پیچھے ہی کچھ فاصلے پر پلیٹ فارم نمبر 2 تھا۔

راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کا یہ پلیٹ فارم بالکل ہیری پوٹر کے پلیٹ فارم کی طرح تھا جہاں ہوگورٹس ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر پونے دس پر کھڑی ہوتی تھی۔ بالکل ایسے ہی یہاں بھی ہماری تھل ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر پونے دو پر کھڑی تھی کیوںکہ پلیٹ فارم 2 کوئی الگ پلیٹ فارم نہیں تھا، پلیٹ فارم 3 کے ہی پیچھے تھا۔

وہیں ہماری تھل ایکسپریس کھڑی تھی۔ ریل چلنے کا وقت تو صبح سات بجے کا تھا مگر معلوم نہیں کن وجوہات کی بنا پر یہ 7:20 پر چلی اور پھر ایسا چلی کہ چلتی ہی چلی گئی۔ تھل ایکسپریس ایک پیسنجر ریل تھی، اسے ہر اسٹیشن پر رکنا تھا مگر پھر بھی اس کی رفتار اچھی تھی اور ہر اسٹیشن پر فقط دو منٹ کے لیے ہی رک رہی تھی۔

اگرچہ میں راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر تھا، میرے ساتھ میرا ایک رفیق بھی تھا، گہماگہمی بھی تھی مگر پھر بھی میں تنہا تھا کہ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ میرے ساتھ کون ہے، میرے آس پاس کون ہے۔ میں تو بس اپنے آپ میں مگن تھا۔

ہمارے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ ہم اپنے اپنے شہر سے براہ راست اٹک جا سکتے تھے مگر ہم نے پھر بھی شہرِاقتدار کی تھل ایکسپریس کو چنا۔ ہم نے پوری کوشش کی تھی کہ خیبر میل کو چنا جائے۔ خیبر میل کو کراچی سے پشاور جانا تھا۔

ارادہ یہی تھا کہ میرا رفیق ساہیوال سے خیبر میل میں سوار ہوجائے گا اور میں وزیر آباد سے۔ خیبر میل نہیں جانتی تھی کہ ہم اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ شاید یہ اس سے اپنا چال چلن درست کر لیتی۔ ہم پاکستان ریلوے کی بنائی گئی اپلیکیشن سے مسلسل خیبر میل پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ وہ مسلسل چار سے پانچ گھنٹے تاخیر کا شکار ہو رہی تھی۔

ایسے میں خیبرمیل کا انتخاب کرنا سراسر بے وقوفی تھی۔ اس لیے ہم نے بہتر یہی جانا کہ اپنے اپنے شہر سے راولپنڈی کی جانب سفر کیا جائے اور پھر راولپنڈی سے بذریعہ تھل ایکسپریس جھلار جایا جائے۔ جو مزہ ریل کی سیٹی میں ہے، انجن کی کوک میں ہے، وہ مزہ بس یا ویگن میں نہیں اور ویسے بھی ریل تو میرا پہلا عشق ٹھہرا اس لیے ریل کو بیچ میں لانا ضروری تھا۔

راولپنڈی کی خنک زدہ صبح میں نارنجی سورج بھلے سے ہی مکمل طلوع ہوچکا تھا مگر ایک ٹھنڈک کا احساس تو تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی ہم نے ریلوے اسٹیشن سے باہر ایک پٹھان کے ہوٹل سے چائے پی تھی مگر جتنی خنکی تھی، اس حساب سے چائے کم تھی۔

ہمارے ٹکٹ پر بوگی نمبر 3 لکھا تھا، اس لیے ہم شریف لونڈوں کی طرح بوگی نمبر 3 میں سوار ہوگئے۔ بوگی کے ایک کونے میں مَیں تھا اور دوسرے کونے پر میں نے اپنے رفیق کو بیٹھا دیا یعنی ہم دونوں ہی کھڑکی والی سیٹ پر تھے۔ ٹھیک وقت پر ہمارے امام نے سیٹی بجائی اور گاڑی گولڑہ شریف کی جانب روانہ ہو گئی۔

آپ کے نزدیک کسی کو خراجِ تحسین پیش کرنا کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی کسی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے؟ کسی کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنے کی تعریف کیا ہو سکتی ہے، یہ مجھے نہیں معلوم مگر میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آپ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، دنیا کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، آپ کو لوگوں کو خراجِ تحسین دینا چاہیے۔

شاید خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک تعریف یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر وہ شخصیت اس دنیا سے گزر چکی ہے تو اس کے آخری آرام گاہ کی جانب سفر کیا جائے، اس کو اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے خواہ اس شخصیت سے آپ کا مذہبی اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کسی نے ایک شعبے میں پوری دنیا میں آپ کے ملک کا نام روشن کیا ہو تو آپ پر لازم ہے کہ آپ اس کو خراجِ تحسین پیش کریں۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2018 میں مَیں نے ایک سفر فقط ایک شخص کو خراجِ تحسین دینے کے واسطے کیا تھا کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ آپ کا ایک شعر فقط ایک شعر ہی دنیا جہاں کے نعتیہ کلام پر بھاری ہے۔ کیا یہ شعر تخیل کی معراج نہیں

کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء

گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں

یہ شعر کسی عام بندے پر نہیں اتر سکتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ پیر مہر علی شاہ نے اور کتنے اشعار کہے، ان میں سے نعتیہ کلام کتنا تھا۔ ان کا فقط ایک شعر ہی انھیں دنیا جہاں کے شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ یہاں میرا فرض بنتا تھا کہ میں مسلکی طور پر جو بھی ہوں، پیر مہر علی شاہ صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے گولڑہ شریف ان کے دربار پر جاؤں اور میں گیا۔

صرف اور صرف اس شخص کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کہ آپ کا ایک شعر کیسے ہمارے جسموں پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔ میری نہ تو کوئی منت تھی اور نہ مجھے وہاں کسی سے کوئی دعا کروانی تھی مگر پھر بھی 2018 میں جون کے آخری گرم دنوں میں مَیں گولڑہ شریف میں تھا۔ پیر مہر علی شاہ کے سرہانے کھڑا تھا اور تب بھی میرے ذہن میں بس ایک ہی بات چل رہی تھی:

کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء

گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں

خدا پیر مہر علی شاہ کی قبر پر ہزاروں رحمتیں نازل کرے، آمین۔

معلوم نہیں کب مگر آنے والے دنوں میں مَیں یقینی طور پر کسی دن چناب نگر میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کے سرہانے کھڑا ہوں گا انھیں صرف یہ بتانے کے لیے کہ سر جی، تسی گریٹ ہو۔

تھل ایکسپریس اپنی رفتار سے تھوڑا کم ہوئی تو جسم پر ایک دم سے کپکپی طاری ہوئی کہ اس شخص کا گھر آ رہا تھا جس کا دل آقاؐ کی محبت سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ ریل رکی تو یوں لگا کہ جیسا میرا دل بھی یہی کہیں رک گیا ہو۔

آپ سب کو زندگی میں کم از کم ایک بار اس ہستی کو خراجِ تحسین پیش کرنے گولڑہ شریف جانا چاہیے جس کے سینے پر یہ شعر اترا تھا کہ ایسے شعر کہے نہیں جاتے، ایسے شعر تو کہلوائے جاتے ہیں۔

گولڑہ شریف جنکشن جسے محکمہ ریلوے کی جانب سے ریلوے میوزیم قرار دے کر یہاں ریل کے مختلف ماڈلز کے ساتھ ساتھ ماضی بعید میں چلنے والی پشاور تا لنڈی کوتل سفاری ٹرین کی بوگیاں بھی کھڑی ہیں۔

یہاں ایک حادثہ بھی رونما ہونے لگا تھا جس میں ایک خاتون مشکل سے بچیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ہماری ٹرین تھل ایکسپریس کے پیچھے خیبر میل تھی جس نے پشاور جانا تھا. ایک پورا پٹھان خاندان گولڑہ سے پشاور جا رہا تھا۔

چوںکہ یہاں گاڑی فقط دو منٹ ہی رکتی ہے تو دو عورتیں کھڑکی والی سیٹ کے لالچ میں تھل ایکسپریس پر جلدی سے چڑھ کر بیٹھ گئیں جب کہ باقی خاندان بینچ پر بیٹھا رہا۔ جتنی دیر میں ان بے چاروں کو خبر ہوئی کہ وہ غلط ٹرین پر سوار ہیں، ریل چل پڑی تھی۔

ایک کے پاس چھوٹی بچی بھی تھی۔ عورت نے باہر ایک آدمی کو بچی پکڑائی (جو اسی کے خاندان سے تھا اور ٹرین کے ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا) اور خود عورت نے چھلانگ لگا دی۔

خوش قسمتی سے عورت کو چوٹ نہیں لگی۔ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری عورت نے چھلانگ نہیں لگائی۔ صورت حال دیکھ کر اسٹیشن ماسٹر نے وسل بجائی اور ٹرین رکی گئی۔ دوسری عورت کو اتارنے کے بعد تھل ایکسپریس پھر سے اپنی منزل کی جانب چل پڑی۔

پتہ ہی نہیں چلا کب واہ کینٹ، ٹیکسلا، حسن ابدال گزرا اور اٹک آ گیا۔ اٹک ریلوے اسٹیشن پر ہمارے ایک محسن ہمارے منتظر تھے جن کے ساتھ ہمیں آ گے کا سفر کرنا تھا۔

اٹک سے جھلار کے درمیان سات سرنگیں آتی ہیں جنھیں Seven Sister’s tunnel کہا جاتا ہے۔ ان سرنگوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ ان ساتویں میں سے ریل بِنا رکے گزرتی ہے کیوںکہ اٹک اور جھلار کے درمیان کوئی ریلوے اسٹیشن نہیں۔ یہ سات بہنیں بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔

دو تو اتنی قریب ہیں کہ ریل کا انجن دوسری سرنگ میں داخل ہو چکا ہوتا ہے جب کہ پچھلی بوگیاں ابھی پہلے والی سرنگ میں ہی ہوتی ہیں۔1891 میں انگریزوں نے میانوالی تا اٹک ٹریک بنانا شروع کیا تھا جس میں کل گیارہ سرنگیں آتی ہیں۔

میانوالی کی جانب سے آئیں تو آپ کو پہلی سرنگ پر 1 لکھا ملے گا جب کہ اٹک کی جانب سے آئیں تو پہلی سرنگ پر آپ کو 11 لکھا ملے گا۔ یہ ساری سرنگیں 1896-97 میں ہی مکمل ہوئیں۔ اس لیے کسی سرنگ پر آپ کو 1896 لکھا ملے گا اور کسی پر 1897 ۔

ساتویں سرنگ کے فوراً بعد جھلار ریلوے اسٹیشن ہے۔ پتا نہیں انگریز اتنے پیارے، کیوٹ اور عقل مند کیوں تھے کہ انھوں نے انتہائی بنیادی اور چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھرپور توجہ دی۔ تقسیم سے پہلے جب کہ دونوں اطراف انگریز ہی حکم راں تھا اور آج کے مقابلے میں آبادی بہت کم تھی، تو چھوٹے چھوٹے ریلوے اسٹیشن بنائے گئے تھے تاکہ کوئی بھی تنہا نہ رہے اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑا رہے۔

باوجود اس کے کہ آج آبادی ماضی کے مقابلے بہت زیادہ ہوچکی ہے، ہمیں آئے دن بہت سے ریلوے جنکشن اس لیے بند کرنے پڑ رہے ہیں کہ یہاں سواری نہیں اور انہی قصبوں یا دیہات کی اگر سڑکوں پر آپ چلے جائیں تو سڑکوں پر مسافر خوار ہورہے ہوتے ہیں کہ مسافر بہت ہیں مگر گاڑی نہیں۔ کہتے ہیں کہ تحریکِ آزادی اور قیام پاکستان میں دو چیزوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ایک ریل اور دوسرا کاغذ یعنی اخبار۔ اگر ریل نہ ہوتی تو قائداعظم اور مسلم لیگ کے کارکنان گھر گھر قائد کا پیغام نہ پہنچا سکتے تھے۔

جب انگریز میانوالی تا اٹک ریلوے لائن بچھا رہا تھا تب ایک نہایت ہی چھوٹا اور پیارا سا ریلوے اسٹیشن وجود میں آیا جس کے آس پاس نہ تو کوئی آبادی تھی، نہ کوئی پکی سڑک۔ بجلی کو تو بھول ہی جائیں پانی تک کی سہولت میسر نہ تھی۔  پھر بھی اس ریلوے اسٹیشن کو بنایا گیا اور ساتھ ہی افسران کے لیے ایک بنگلا بھی بنایا۔ یہ جھلار ریلوے اسٹیشن تھا بلکہ آج بھی ہے۔

آج بھی جھلار ریلوے اسٹیشن پر بجلی نہیں، کوئی پکی سڑک بھی نہیں، آس پاس کوئی آبادی بھی نہیں۔ یہاں تک کہ پینے کے پانی کے لیے بورنگ بھی کچھ عرصہ پہلے کی گئی ہے مگر قدرتی حُسن اور سکون اتنا ہے کہ ناقابلِ بیان ہے۔

بنگلا تو عدم توجہی کے باعث اب گرنے کے قریب بے مگر اسٹیشن قائم ہے۔ اس ریلوے اسٹیشن کے پُر سکون ہونے کے ثبوت میں بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ یہاں کوئی مشینی صورت نہیں ماسوائے ریل کے۔ اٹک سے سات سرنگوں کو پار کرنے کے فوری بعد جھلار ریلوے اسٹیشن آ جاتا ہے یوں کہہ لیں کہ سرنگ کے بالکل ساتھ ہی جھلار ریلوے اسٹیشن ہے۔

جھلار ریلوے اسٹیشن آپ سے تقاضا کرتا ہے کہ یہاں ایک پورا دن گزرا جائے۔ یہاں کیمپ کیا جائے، کھانا بنایا اور کھایا جائے اور شہروں کے شور سے دور اور بہت دور ایک پُرسکون سے سناٹے میں ایک رات بسر کی جائے۔

کیا ہی بہترین دن ہو کہ انسان صبح سویرے تھل ایکسپریس کے ذریعے راولپنڈی / اٹک سے جھلار ریلوے اسٹیشن پر اترے۔ پورا دن جھلار ریلوے اسٹیشن پر گزارے اور پھر سہ پہر ”جنڈ” سے آنے والی پیسنجر ٹرین پر واپس اٹک چلا جائے۔ جھلار ریلوے اسٹیشن پر انگریز کے ہی لگائے گئے بڑے بڑے ٹیلی فون ہیں جو آج بھی کام کر رہے ہیں۔ ویسے انگریزوں کی بنائی ہوئی ہر وہ چیز آج بھی ٹھیک کام کر رہی ہے جو وہ تقسیم سے پہلے بناکر گئے تھے۔ پتا نہیں انگریزوں کو یہاں سے جانے کی اتنی جلدی کیوں تھی۔ تین چار سو سال بھلا مزید یہاں قیام و طعام کرلیتے۔ ہمیں تو انگریزوں کی پھرتیاں ہی مار گئیں۔

آپ جھلار سے واپس اٹک تک بذریعہ ریل بھی آ سکتے ہیں، مگر اصل مزہ یہ ہے کہ ان سرنگوں میں سے واپسی پر پیدل گزرا جائے۔ سرنگ میں سے پیدل گزرنے کا بھی اپنا ایک لطف ہے مگر یہاں ایک احتیاط لازم ہے۔ آپ کو جھلار یا اٹک ریلوے اسٹیشن سے معلومات لینی پڑیں گی کہ اس ٹریک سے ٹرین کب کب گزرتی ہے۔

اگر آپ یہ معلومات نہیں لیتے تو حادثہ ممکن ہے۔ ہمارے ایک محسن نے ہمیں بتایا کہ نے ”جنڈ پیسنجر ٹرین” ٹھیک گیارہ بجے اٹک سے چلتی ہے اور بیس منٹ تک جھلار پہنچ جاتی ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ گیارہ بجے کے بعد آپ کو کسی بھی سرنگ میں نہیں ہونا چاہیے۔ صبح 10:50 منٹ پر ہم تین سرنگیں پار کر چکے تھے۔ گیارہ بجنے والے تھے، اس لیے ہم کالا چٹا پہاڑ کی اس سرنگ پر چڑھ کر بیٹھ گئے کہ ابھی ریل ہمارے نیچے سے گزرے گی۔

تقریباً 11:10 پر ریل اٹک کی جانب سے آئی اور ان سرنگوں میں سے ہوتی ہوئی جنڈ کی جانب چلی گئی۔ یہ سارا علاقہ کالا چٹا پہاڑ کا ہے۔ اسی ٹریک کے دوران ہم ڈیری لگال ڈیم پر سے بھی گزرے۔ ساتوں سرنگوں کو پیدل پار کرنے کے بعد ایک چھوٹا سا گاؤں آیا جہاں ہمارے محسن نے اپنی بائیک کھڑی کی ہوئی تھی۔ محسن نے اپنی بائیک لی اور ہمیں اپنی رفاقت میں اٹک شہر کی جانب لے گیا۔

ہم اٹک سے اٹک خورد کی جانب جا رہے تھے کہ جی ٹی روڈ پر بائیں جانب مقبرہ اٹک دکھائی دیا۔ مقبرہ اٹک سولہویں صدی کے مغلیہ دور کی ایک عمارت ہے۔ نہ تو اس مقبرے میں ایسی کوئی تحریر ہے اور نہ ہی کوئی تاریخی حوالہ ہے جس کی بنیاد پر کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکے کہ یہ کس شخصیت کا مقبرہ ہے۔

ایک غیرمصدقہ مقامی روایت ہے کہ یہ کسی طوائف کا مقبرہ ہے۔ اس لیے اسے کنجری کا مقبرہ بھی کہا جاتا ہے۔ چوںکہ اس مقبرے میں مدفون شخصیت کے بارے کچھ علم نہیں اس لیے اس مقبرے کو اس کے جائے مقام کی بنیاد پر مقبرہ اٹک کا نام دیا گیا ہے۔ اس مقبرے کا فن اور موادِتعمیر اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہ مغل حکم راں جلال الدین محمد اکبر کے عہد میں تعمیر ہوا۔ مقبرے کے اوپر ایک دہرا گنبد ہے۔

مقبرے کی چھت پر جانے کے لیے مقبرے کی دیواروں میں ہی سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ اندرونی طور پر مقبرے کو پھول پتیوں اور سرو کے پودوں کی شان دار نقاشی سے مزین کیا گیا تھا جس کی معدوم ہوتی ہوئی باقیات ابھی مقبرے کی دیواروں اور گنبد کی اندرونی سطح پر موجود ہیں۔

مقبرہ اٹک کے تھوڑا ہی آگے بہرام کی بارہ دری ہے۔ بہرام کی بارہ دری کے نام سے موسوم اس شان دار عمارت کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر بہرام خان نامی ایک پٹھان سردار نے کروائی تھی جو پشتو زبان کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک کے چھوٹے بیٹے تھے۔ بہرام خان کا سن پیدائش 1643 عیسوی ہے اور اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بارہ دری کی تعمیر سترہویں صدی کے آخری ربع میں عمل میں آئی ہو گی۔ تاہم تاریخ میں مغل بادشاہ اکبر کے مشہور اتالیق اور جرنیل بہرام خان کا حوالہ بھی ملتا ہے جو 1561 عیسوی میں فوت ہوا۔

یہ بارہ دری اینٹ اور پتھروں سے تعمیر کردہ چاردیواری کے اندر تعمیر کی گئی ہے۔ چاردیواری پر چونے کا پلستر کیا گیا ہے۔ مغربی دیوار کی باہری سطع کو چونے کے پلستر میں ہی بنائے گئے کنگروں کی قطار سے سجایا گیا ہے۔

بارہ دری کی مرکزی عمارت تین کمروں پر مشتمل ہے جو صحن کی جنوبی سمت میں ایک متوازن انداز میں تعمیر کی گئی ہے۔ درمیانی کمرے کے ستون سنگِ بری سے تراشیدہ ہیں جب کہ پہلوئی کمروں کے باہری دروں کی چوکھٹیں سنگِ امور سے بنائی گئی ہیں۔ مرکزی عمارت کے نیچے تہہ خانے موجود ہیں۔ شمال مشرق میں واقع عمارت ایک چھوٹی مسجد ہے۔ بارہ دری کے احاطے کو نہروں سے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس کے مرکز مربع چبوترہ ہے جس کے درمیان ایک چھوٹا حوض اور دروازہ ہے۔

تھوڑا آگے جا کر ایک فوجی چوکی میں سے اپنا شناختی کارڈ دکھا کر گزرے تو اٹک قلعے کے آثار شروع ہو گئے۔

بات ذرا پرانی ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کے دور جتنی پرانی جسے اکبرِاعظم بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اکبر جس کی حکم رانی دہلی سے کابل تک تھی۔ بات اُس زمانے کی ہے کہ جب جس کا جی چاہتا دہلی سے کابل پر چڑھائی کے لیے نکل پڑتا اور جب کسی کا جی چاہا تو وہ کابل سے دہلی فتح کرنے نکل پڑا کہ اس زمانے میں دہلی اور کابل دونوں کو ہم پلہ سمجھا جاتا تھا۔

بات اس زمانے کی ہے کہ جب برصغیر پاک و ہند اور افغانستان میں کوئی سرحد نہیں تھی۔ لوگ آپس میں ملے جلے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ہند کہاں ختم ہو رہا ہے اور نہ یہ سمجھ آتا تھا کہ افغانستان کہاں سے شروع ہو رہا ہے کہ اٹک کو پار کر کے دریائے سندھ کے بعد سے شروع ہونے والا تمام علاقہ افغانستان جیسا ہی تھا۔

لوگوں کی نہ صرف زبان ایک تھی بلکہ قبائل بھی ایک تھے، تہذیب و تمدن کے علاوہ ثقافت بھی ایک تھی۔ بات اس زمانے کی ہے جب اکبر بادشاہ نہ صرف دہلی کا حکمران تھا بلکہ کابل پر بھی اسی کی حکم رانی تھی۔ مغل بادشاہ اکبر نے جب کابل فتح کیا تو اپنے سوتیلے بھائی کامران مرزا کو کابل کا گورنر بنایا اور خود واپس دہلی لوٹ آیا۔

کامران مرزا کو ایک دن معلوم نہیں کیا شرارت سوجھی کہ اس نے کابل میں اکبر کے خلاف نہ صرف بغاوت کردی بلکہ مرکز یعنی دہلی سے علیحدگی کا اعلان بھی کر دیا۔

اکبر میری طرح شریف آدمی تو تھا نہیں جو کامران مرزا کی اس حرکت کو نظر انداز کر دیتا۔ اکبر نے کامران مرزا کو، جو اس کا سوتیلا بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا دودھ شریک بھائی بھی تھا، سبق سکھانے کا ارادہ کیا اور اپنی افواج کو لے کر دہلی سے کابل کی جانب چل پڑھا۔ اٹک تک تو سارے معاملات درست رہے مگر جب دریائے سندھ آیا تو پانی کافی چڑھا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اکبر کو دریا کنارے ایک عرصہ انتظار کرنا پڑا۔ پانی اترنے پر اکبر نے دریائے سندھ کو پار کیا اور کابل کی جانب چل پڑا۔ کامران مرزا کی بغاوت کو کچلا اور واپس دہلی چل پڑا۔ دریائے سندھ کو اٹک کے مقام پر پار کیا اور اس مقام کی اہمیت کو جانتے ہوئے ایک مضبوط فوجی قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا جسے آج ہم اٹک قلعہ کے نام سے جانتے ہیں۔

قلعہ اٹک کے بنیادی طور پر چار دروازے ہیں۔ موری دروازہ، کابلی دروازہ، لاہوری دروازہ اور دہلی دروازہ. موری دروازہ داخلی دروازہ ہے۔ پرانی جرنیلی سڑک موری دروازے سے اٹک قلعے میں داخل ہوتی اور لاہوری دروازے سے باہر نکلتی تھی۔ موری دروازے میں داخل ہوں تو ساتھ ہی بائیں جانب راستہ اوپر کو جاتا ہے، جسے گھوڑے اور پیادہ دونوں استعمال کرتے تھے۔

موری دروازے کی جانب راستہ گولائی میں ہے اور ڈھلوان والا بھی۔ گولائی ہاتھیوں کی وجہ سے رکھی گئی ہے تاکہ جب ہاتھی اوپر سے نیچے یعنی قلعے سے باہر کی جانب آئیں تو وہ دروازے سے نہ ٹکرائیں۔ ہر قلعے کی فصیل کی طرح، قلعہ اٹک کی فصیل پر بھی تیراندازی کے لیے خانے بنے ہیں جن سے دشمن پر تیر پھینکے جاتے تھے جب کہ گرم تیل پھینکنے کے لیے پرنالے بھی بنے ہوئے تھے۔

فصیل کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 52 فٹ جب کہ چوڑائی 5 فٹ ہے۔ اٹک قلعے کی فصیل تین منزلہ ہے۔ یہ علاقہ چوںکہ پہاڑی ہے اس لیے دشمن پر نظر رکھنے کے لیے فصیل کو سیدھا نہیں رکھا گیا۔ قلعے دریا سے کافی اونچا ہونا تھا، اس لیے قلعے میں پانی کا مسئلہ درپیش آ سکتا تھا۔ بادشاہ اکبر نے یہ تجویز دی کہ قلعے کا پہلا برج پانی یعنی دریائے سندھ میں رکھا جائے جو کہ تقریباً ناممکن تھا۔ مگر بادشاہ کے حکم پر متعدد بار پانی میں برج تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام نہیں۔

اس سے آگے کی کہانی بھی ایک ”کہانی” ہے مگر کتابوں میں درج ہے کہ جب سب تدبیریں ناکام رہیں تو بادشاہ اکبر کے حکم پر آس پاس کے علاقے سے کسی ولی اللہ کو تلاش کیا گیا۔

ایسے میں شاہ عیسیٰ کو بلایا گیا۔ انھوں نے اپنا عصا دریائے سندھ میں گاڑ دیا۔ دریائے سندھ چلتا رہا مگر جہاں قلعے کا برج تعمیر ہونا تھا وہاں سے پانی پیچھے ہٹ گیا۔ اس طرح قلعے کا پہلا برج دریائے سندھ میں ہی تعمیر کر کے پانی کے مسئلے کو حل کیا گیا۔

قلعے میں ایک پھانسی گھاٹ بھی ہے جہاں پھانسی کے بعد لاشوں کو دریا بدر کردیا جاتا تھا۔ اٹک قلعہ کوئی رہائشی قلعہ نہیں تھا، فقط فوجی نوعیت کا قلعہ تھا (یہی روایت آج بھی برقرار ہے)۔ بادشاہ کی بیگمات کے رہنے کے لیے قلعے میں ہی ایک جانب ”بیگم سرائے” ہے جہاں کنیزیں اور بیگمات رہا کرتی تھیں۔

جب بادشاہ قلعے کے دورے پر آتا تو بیگمات اور کنیزیں یہی قیام کیا کرتی تھیں۔ اٹک قلعہ ایس ایس جی کا ہیڈ کوارٹر ہے، اس لیے کسی بھی عام شہری کو قلعہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ نوازشریف شاید وہ واحد سویلین ہیں جنھوں نے اٹک قلعے کی اندر سے بھی سیر کی ہے  1999۔ میں مارشل لا کے بعد جنرل مشرف نے نواز شریف کو اٹک قلعے میں ہی قید کر کے رکھا تھا۔

پاکستان میں جب بھی سیاسی حالات خراب ہوتے ہیں تو دو جگہیں بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہیں جن میں سے ایک اسلام آباد کا فیض آباد ٹرمینل ہے جبکہ دوسرا اٹک پل ہے جو خیبرپختونخواہ کو پنجاب سے جوڑتا ہے۔

ماضی کی جرنیلی سڑک اکبر بادشاہ کے بنائے ہوئے اٹک قلعے کے ساتھ ساتھ گزرتی ہوئی دریائے سندھ کو پار کر کے اسی وقت کے سرحدی صوبہ میں داخل ہوتی تھی۔ بعد میں 1883 میں دونوں اطراف کی اسی جرنیلی سڑک کو انگیز نے دریا پر پُل بنا کر جوڑ دیا جس کے اوپر سے ریل گزرتی تھی جبکہ اس پل کے نیچے جرنیلی سڑک تھی۔

1979 تک یہی پل پنجاب اور خیبر پختونخوا کو ملاتا تھا مگر بعد میں دوسری جانب تھوڑا ہٹ کر ایک دوسری سڑک اور دوسرا پل تعمیر کیا گیا، جو پنجاب کے سرحدی شہر اٹک کو خیبرپختونخوا کے سرحدی شہر خیرآباد سے ملاتا ہے۔

اگر یہ پل بند کردیا جائے تو پنجاب کا خیبرپختونخوا سے رابطہ کٹ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جب بھی اسلام آباد میں سیاسی لحاظ سے گرماگرمی ہوئی تو سب سے پہلے اٹک پل کو بند کیا گیا تاکہ خیبرپختونخوا سے کوئی قافلہ پنجاب میں داخل نہ ہو سکے۔ یہاں ایک دلچسپ بات قابلِ ذکر ہے کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے پرانے اٹک پل کو شام کے وقت بند کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح ریل ہو یا سڑک، دونوں کے ذریعے ہی پنجاب کا خیبرپختونخوا سے رابطہ کٹ جاتا تھا.

ریلوے پل پر اس مقصد کے لیے آہنی دروازے بھی بنائے گئے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔ شام کو دونوں اطراف ٹریفک رک جاتی۔ لوگ سڑک کنارے یا پھر مختلف سراؤں میں قیام کرتے اور صبح دروازے کھلنے پر اپنا سفر شروع کرتے۔

مزید دل چسپ بات یہ ہے کہ ایوب خان کے دورِحکومت میں بھی پل کے دونوں جانب دروازے بند کرنے کی روایت برقرار رہی مگر جب جنرل ایوب خان کے کسی عزیز کی میت کو اٹک پل کے پار لے جانے کا معاملہ ہوا تو ایمبولینس کے اٹک پل تک پہنچتے پہنچتے رات ہوچکی تھی۔ ایوان صدر سے خاص احکامات ملنے کے بعد رات گئے ایمبولینس کے لیے اٹک پل کے دروازے کھول دئیے گئے اور پھر کبھی بند نہیں کیے گئے۔

اٹک قلعے کے ساتھ ہی ایک شمشان گھاٹ بھی ہے۔ نہ صرف اکبر کے دورِحکومت بلکہ ہر حکومت میں ہندو بھی بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ اس جگہ چوںکہ دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہے، لہٰذا یہی وہ مقام ہے جہاں سے دریا پار کر کے دوسری طرف جایا تھا۔

دریا کے اِس جانب جس طرف قلعہ ہے پنجاب ہے، جب کہ دریا کو پار کرتے ہی خیبرپختونخوا شروع ہوجاتا ہے۔ خیبرپختونخوا کا پہلا قصبہ ” خیرآباد” ہے۔ اس قصبے کو بھی اکبر بادشاہ کے دور میں ہی آباد کیا گیا تھا۔

روایت ہے کہ جب اپنے سوتیلے بھائی کامران مرزا کی بغاوت کو کچلنے کے لیے (دریا میں طغیانی کے باعث) اکبر کو کافی وقت اٹک میں ہی قیام کرنا پڑا تو دریا پار ہوتے ہی اکبر کے منہ سے ”خیر آباد” نکلا یعنی کہ ہم خیریت سے یہاں پہنچ گئے۔ وہی کسی درباری نے تجویز پیش کردی ہوگی کہ اس جگہ ایک بستی بنائی جائے جسے خیرآباد کا نام دیا جائے۔ بادشاہ کو یہ تجویز یقیناً پسند آئی ہوگی اور اس طرح اس بستی کا نام خیرآباد رکھ دیا گیا۔

ویسے اٹک بھی کوئی نیا نام نہیں ہے۔ یہ نام بھی اکبر بادشاہ سے پہلے کا چلا آرہا ہے۔ احباب جانتے ہیں کہ چوںکہ نیم پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس جگہ پہنچ کر دریائے سندھ کافی اٹکتا تھا، اس لیے اس علاقے کو اٹک کہا جانے لگا۔ یہیں پر کابل سے آنے والا دریائے کابل اور دریائے سندھ ایک ہوجاتے ہیں۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ جب رنجیت سنگھ کی حکومت بنی تو وہ اسی شمشان گھاٹ میں بیساکھی کا میلہ بھی منعقد کروایا کرتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر (شہزادہ سلیم) نے اسی قلعے سے اپنی شراب نوشی کا آغاز کیا۔ شاید افغانستان سے اس وقت کوئی اچھی کھیپ آئی ہوگی اور اٹک تھا بھی دہلی سے کافی دور، اس لیے اکبر بادشاہ شیخو پر نظر نہیں رکھ سکے ہوں گے۔

جہانگیر کی موت بھی کثرتِ شراب نوشی کے باعث ہوئی تھی کہ ایک بار جب جہانگیر اپنی سالانہ تعطیلات کے باعث کشمیر کی وادی باغسر میں تھے تو واپسی پر طبعیت ایسی بگڑی کہ اس جہانِ فانی سے ہی کوچ کرگئے۔

باغسر لاہور سے دور تھا اور باغسر سے نعش لاہور لاتے لاتے یقیناً اس نے خراب ہی ہونا تھا۔ ایسے میں حکماء نے جہانگیر کے پیٹ کو چیر کر سارے اعضاء باہر نکالے، انھیں باغسر قلعے کے ساتھ دفن کیا اور بقیہ نعش کو لاہور روانہ کردیا گیا۔ اس لیے مغل بادشاہ جہانگیر کی دو قبریں ہیں۔ ایک وہ جو مقبرہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہے اور لاہور میں ہے جب کہ دوسری قلعہ باغسر کے باہر ہے جہاں شہزادہ سلیم کے فقط اندرونی اعضاء دفن ہیں۔

اکبربادشاہ صرف نام کا اکبر نہیں تھا بلکہ اپنے کاموں کا بھی وہ اکبر ہی تھا۔ مغل بادشاہ اکبر نے جب قلعہ اٹک بنوایا تو بنارس سے ملاحوں کا ایک ٹولا (گروہ) بھی اپنے ساتھ لایا اور جن کا کام بادشاہ سمیت سب کو وقت پڑنے پر دریا کو پار کروانا تھا۔

اس مقصد کے لیے ملاحوں نے کشتیوں کا ایک پل بھی بنایا۔ دریا پار کر کے ایک چھوٹا سا سرائے بھی بنایا گیا تھا جہاں صرف بادشاہ یا بڑے لوگوں کی بیگمات اور ان کی کنیزیں تفریح کے لیے جاتی تھیں۔ ان بیگمات اور ان کی کنیزوں کو دریا پار کروا کے سرائے تک پہنچانا اور پھر حفاظت سے واپس لانا ان ملاحوں کی ہی ذمے داری تھی۔

ملاحوں کی اس بَستی کو ”ملاح ٹولہ” نام دیا گیا جو بگڑتے بگڑتے آج ” ملائی ٹولہ” بن چکا ہے۔ اس بستی میں کُل آٹھ مساجد تھیں جن میں سے زیادہ تک منہدم ہو چکی یا وقت کے ساتھ ساتھ بے آباد ہوتی چلی گئیں کیوںکہ آبادی دوسری اطراف میں منتقل ہو گئی۔ اس بستی کہ فقط ایک مسجد ایسی ہے جو آج بھی اپنی اصل حالت میں ہے۔ اسے ” ملائی ٹولہ مسجد” کہا جاتا ہے۔

مجھ سمیت ایسے بہت سے بے وقوف ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دوسریِ جنگ عظیم نہ ہوتی تو برصغیر پاک و ہند پر آج بھی شاید برطانیہ ہی قابض ہوتا۔ نہ جانے کس کی چال تھی کہ دنیا پہلی جنگِ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھنے کے باوجود دوسری جنگِ عظیم میں کود گئی جس میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو فتح صرف اور صرف ایٹم بم کی وجہ سے ملی، ورنہ جاپان اور اس کے اتحادیوں نے برطانیہ کا جو حلیہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران بگاڑا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ فتح بے شک برطانیہ کا مقدر بنی مگر وہ سورج جو تاجِ برطانیہ پر کبھی ڈوبا نہ تھا، اسی تاج پر اب شام کے سائے پڑنے لگے تھے اور بالاخر اگست 1947 میں تاجِ برطانیہ کے برصغیر پر مکمل طور پر شام اتر گئی۔

انگریزوں نے اس مہارت سے مشکل پروجیکٹ اور خاص کر ریل کے پروجیکٹ مکمل کئے تھے، اگر انھیں ذرا بھی احساس ہوتا کہ انھیں عنقریب یہ ملک چھوڑنا پڑے گا تو شاید وہ یہ مشکل امور سرانجام نہ دیتے۔ انگریزوں کے کانوں میں اگر کوئی کہہ دیتا کہ اے لنڈی کوتل تک ریل پہنچا دینے والو، اے بولان کی مشکل پہاڑیوں کو کاٹ کر ریل کو کوئٹہ تک پہنچا دینے والو! تمھیں عنقریب یہ دیش چھوڑنا پڑے گا، تو یقیناً وہ یہ کام نہ کرتے مگر انگیز تو اپنی ہی دھن میں سوار تھا اور وہ دھن تھی افغانستان فتح کرنے کی۔ وہ دھن تھی کہ برصغیر اور یورپ کو افغانستان کے ذریعے ریل سے منسلک کرنے کی۔ اس مشن کو پورا کرنے کے لیے انگریزوں نے افغانستان سے جنگیں بھی لڑیں مگر اسے وہ کام یابی نہ مل سکی جس کی اسے توقع تھی۔

جرنیلی سڑک تو شیرشاہ سوری کے وقت ہی کابل سے کلکتہ تک بن چکی تھی مگر جہاں دریا آ جاتا، وہاں یہ جرنیلی سڑک بھی رک جاتی۔ جرنیلی سڑک کشتیوں کے ذریعے دریا پار کرتی اور پھر سے رواں ہوجاتی۔ مضبوط پل بنانے کی طرف مغلوں سمیت کسی نے توجہ نہیں دی یا پھر یہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ بات جو بھی ہو مگر سچ یہی ہے کہ جرنیلی سڑک بس زمین تک محدود رہی، جہاں دریا آیا، وہاں جرنیلی سڑک میں بھی بگاڑ آیا۔ جب انگیز نے جرنیلی سڑک کو گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) بنایا تو دریا کے اِس پار کو دریا کے اُس پار سے بھی جوڑا۔

انگریز کے آنے سے پہلے تک تو دریا کو چھوٹی کشتیوں سے ہی پار کیا جاتا تھا مگر جب انگریز آیا تو دریاؤں میں فیری سروس بھی چلنے لگی۔ اٹک شہر کی دفاعی اہمیت کے باعث پہلے پہل دریا کے اِس پار کو سرنگ کے ذریعے دوسری طرف جوڑنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر کچھ کام بھی ہوا مگر سرنگ پر کام درمیان میں ہی پانی رسنے کے باعث روکنا پڑا۔ باوجود اس کے سرنگ دریا سے کم و بیش 180 فٹ نیچے تھی، اس میں پانی بھرنا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے سرنگ کا پروجیکٹ ختم کردیا گیا۔

1879 میں دوسری افغان اینگلو وار کی وجہ سے دریا کے دونوں اطراف کو جوڑنے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی اور بالاخر برطانیہ سے نہ صرف دریائے سندھ پر اٹک کے مقام پر ایک پل کو تعمیر کرنے کا حکم نامہ جاری ہوا بلکہ پل کے معائنے اور تعمیر کے لیے تعمیراتی ٹیم بھی برطانیہ سے آئی، اور یوں طویل معائنے کے بعد 1880 میں اس پل کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ راولپنڈی سے اٹک اور اٹک سے پشاور تک ریل پہلے ہی چل رہی تھی، لہٰذا اس پل سے دہرا فائدہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔

دریائے سندھ کے دونوں اطراف کی جرنیلی سڑک کو دریا پر پل تعمیر کر کے اسے جوڑ دیا گیا۔ اسی پل کے اوپر ریلوے ٹریک بچھا کر دریا کے بالکل ساتھ ہی ایک نیا ریلوے اسٹیشن بھی بنایا گیا جسے اٹک خورد کا نام دیا گیا۔ اس طرح وہ ریل جو صرف پنڈی سے اٹک اور پشاور سے اٹک تک محدود تھی، اب پنڈی سے پشاور تک ایک ہی ریل چلنے لگی تھی۔

5 مئی 1883 کو تجرباتی طور پر پہلا لوکو موٹو انجن اس پل پر سے گزارا گیا اور 24 مئی 1883 کو پہلی ریل مسافروں کو راولپنڈی سے لے کر پشاور تک اسی اٹک خورد کے پل کے اوپر سے گزری۔

اٹک خورد ریلوے اسٹیشن پاکستان کے چند خوب صورت ترین ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے جس پر شام اترنے کے مناظر بھی خوب ہیں۔ اسٹیشن کے پیچھے سے ریل بَل کھاتی ہوئی پلیٹ فارم میں داخل ہوتی ہے اور پلیٹ فارم سے باہر نکلنے پر پھر سے ایک ذرا کج روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریائے سندھ کو پار کرتی ہے۔ دریائے سندھ کو پار کرتے ہی یہ اٹک کی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پنجاب سے خیبر پختونخوا میں داخل ہوجاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔