خود فریبی

خالد محمود رسول  ہفتہ 26 نومبر 2022

ہماری سیاست اور میڈیا میں آئے روزکوئی نہ کوئی موضوع یوں جم کر بیٹھ جاتا ہے کہ ٹلنے کا نام نہیں لیتا، گزشتہ کئی ہفتے کچھ اسی انداز میں گزرے۔

صبح شام ہر طرف ایک ہی موضوع تھا ؛ نیا آرمی چیف کون بنے گا؟ جتنے کان تھے اتنی ہی زبانیں دیواروں کے پیچھے ہونے والی سرگوشیوں اور پردوں کے پیچھے اشاروں کی کتھائیں سنانے کے لیے بے تاب تھیں۔ صد شکر کہ یہ مرحلہ بخیر طے ہو گیا۔

مبارک سلامت اور کریڈٹ لینے دینے کا دور ایک آدھ دن میں پورا ہو جائے گا تو ایک بار پھر وہی مشکل مراحل سامنے ہوں گے۔

یہی کہ اب کیا ہوگا؟ پاکستان ڈیفالٹ تو نہیں کرے گا؟ یار لوگوں نے چند روز قبل فارن بانڈز کے ڈیفالٹ کی ممکنہ شرح کے ایک حسابی فارمولے کو بنیاد بنا کر پاکستان کو تقریباً ڈیفالٹ قرار دے دیا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے تئیں وضاحت کی کہ پیرس کلب سے ری شیڈول کرائیں گے اور نہ ہی بانڈز کی ادائیگی میں کوئی دقت ہو گی۔ ان کے بقول سب بندوبست موجود ہے، گھبرائیں ناں۔

وزیر خزانہ کی بات سر آنکھوں پر مگر کیا کیجیے کہ ان کا بندوبست ان کے سوا دوسروں کو سجھائی دے رہا ہے اورنہ دکھائی دے رہا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کے مذاکرات اور معاملات پر رضامندی بدستور معطل ہیں۔اس دوران دوست ممالک کی جانب سے امداد کے بہاؤ میں بھی یہی رکاوٹ حائل ہے۔ دسمبر سر پر ہے، ادائیگیوں کے کئی گٹھڑ بانٹنے ہیں مگر ترسیلات کے وعدے کا پائپ ابھی تک خالی ہوا دے رہا ہے۔

گزشتہ چار ماہ کے دوران برآمدات میں کمی کا رجحان قائم ہے، درآمدات کے لیے ایل سیز( Lcs) کے راستوں پر رکاوٹوں کا پہرہ لگا ہوا ہے۔ اس مارا ماری کے بعد کہیں جا کر تجارتی خسارے میں گزشتہ سال کی نسبت کمی ہوئی مگر اس کمی کا کیا کیجیے کہ معیشت پھر بھی بے حال ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی ٹھیک ٹھاک کمی ہوئی ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق محصولات میں آٹھ سو ارب روپے کی مزید وصولی کے بغیر پروگرام  کا دامن رفو نہیں ہو سکتا۔ روپے کی اڑان بظاہر رکی ہوئی ہے لیکن اس اڑان کو روکنے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔ مگر کب تک؟

سیاسی بیان بازی اور بیانیوں سے قطع نظر حقیقت کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوںمیں گزشتہ سات سالوں کے دوران تقریباٌ دو گنا اضافہ ہوا ہے؛ 65ارب ڈالرز سے بڑھ کر120 ارب ڈالرز تک۔ اس دوران مسلم لیگ ن کی بھی حکومت رہی اور پی ٹی آئی کی بھی۔ دونوں سیاسی جماعتیں دعوے دار ہیں کہ ان سے بہتر اکونومی کو کون سمجھ سکتا ہے۔

پی ٹی آئی نے اپنے سارے دور اقتدار میں دودھ اور شہد کی نہریں نہ بہا سکنے کی وجہ اپنے پیش رو ن لیگ کی حکومتی پالیسیوں کو قرار دے کر خود کو معصوم ثابت کیا۔

عدم اعتماد کی تحریک کے بعد اتحادی حکومت آئی تو اس کا بیانیہ ہی یہی تھا کہ پی ٹی آئی کے ہاتھوں ملک دیوالیہ ہونے کو تھا، وہ اگر اور انتظار کرتے تو نہ جانے گُلستاں کا کیا حال ہوتا۔ روپے کی قدر کم کرنے، مہنگائی کی آندھی چلانے ، بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے سب اقدامات کو دیوالیہ بچاؤ مہم کے کھاتے میں ڈال کر داد طلب ہیں کہ کیا کریں مجبوری ہے۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ان کی محنت اور پالیسیوں کے سبب ملک کو مدت بعد تقریباٌ چھ فی صد سالانہ جی ڈی پی شرح نمو میسر ہوئی۔ عدم اعتماد والا ٹنٹا درمیان میں نہ آتا تو سوچیں اب تک کیا سے کیا ہو چکا ہوتا۔ جواب الجواب وہی آتاہے جو اوپر بیان کیا۔

ایک لمحے کو مان لیا جائے کہ ن لیگ سے بہتر اکونومی کو کوئی نہیں سمجھتا، اور یہ کہ حکومت سنبھالنے سے قبل ہی اسے اندازہ تھا کہ چھ فی صد گروتھ کے سائے میں دیوالیہ چھپا بیٹھا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس ایسا کون سا پلان تھا جس کی بناء پر انھوں نے چلتے بیلنے میں اپنا ہاتھ دے دیا۔

ڈار اکنامکس کا جادو پچھلے دور حکومت میں بھی اپنے پیچھے تاریخ کا بلند ترین تجارتی خسارہ اور بیرونی قرضوں کا ریکارڈ لیول چھوڑ گیا۔

جی ڈی پی گروتھ کے سائے تلے امپورٹس سے جڑی تصرف یعنی Consumptionکا خوشنما جال پھیلا ہوا تھا۔اعتراضات کا سکہ بند جواب تھا کہ سی پیک کی مشینری کی وجہ سے امپورٹس بڑھ رہی ہیں۔

جونہی یہ سرمایہ کاری پروڈکشن میں آئی، سب دلدر دور ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو مالیاتی حالات ایک بار پھر شدید دگرگو ں تھے، ہمارے پاس ہر ایک مشکل کے حل کے لیے دو دو ماہرین موجود ہیں کے دعوے کی تکمیل کا وقت آیا تو لے دے کر وہی رئیل اسٹیٹ اور رعایتوں کے لگ بندھے سلسلے۔ کورونا کے جھٹکے اور چین امریکی ٹریڈ وار کے سبب غیر متوقع طور پر عالمی منڈی میں ڈیمانڈ بڑھی تو ایکسپورٹس بڑھیں۔ مگر بنیادی طور پر معیشت کا ڈھانچہ وہی فرسودہ کا فرسودہ رہا۔دونوں ادوار میںلے دیکر تجارتی اور کرنٹ اکاونٹ خسارے کے لیے آسان راستہ مزید ادھار کا ہی اپنایا گیا ۔

نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد سیاست ایک بار پھر اپنی اسی ڈگر پر آ جائے گی۔ آنے والا وقت طے کرے گا کہ الیکشن کی تاریخ باہمی رضامندی سے چند ماہ قبل از وقت طے ہونے کی صورت بنتی ہے یا اسی طرح سیاسی دھکم پیل میں الیکشن کا وقت آن پہنچتا ہے، پی ٹی آئی جیتتی ہے یا ن لیگ اور اس کے اتحادی۔

ایک بات دونوں کے حالیہ دورِ حکومت میں سامنے آ گئی کہ دونوں جماعتوں کی زنبیل میں کوئی منفرد اور پائیدار نسخہ معاشی نظام اور اداروں کی کایا پلٹ کا نہیں ہے۔ لے دے کر وہی گھسے پٹے پالیسی نسخے ہیں جو کل کارگر ثابت ہوئے اور نہ آنے والے وقت میں کارآمد ہونے کی سکت رکھتے ہیں۔

دنیا بہت تیزی سے بدلی ہے، معاشی نظام ویلیو ایڈیشن ، ہائی ٹیک اور گلوبل مقابلے پر استوار ہیں جب کہ ہم باہمی دشنام طرازی اور کھوکھلے پالیسی نعروں کے فریب سے نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ باقی صدیقی یاد آئے؛

خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔