زندگی اس مبارک سفر میں تمام ہو

عابد محمود عزام  اتوار 27 نومبر 2022

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے دیدار کا ارمان ہر مسلمان کے دل میں موجزن رہتا ہے۔ حرمین شریفین میں گزرا ہر ہر لمحہ اتنا پر لطف ، پر کیف اور پر نور ہوتا ہے کہ ان کیفیات کو صرف بیان کیا جاسکتا ہے، محسوس نہیں کیا جاسکتا۔

خانہ کعبہ کا طواف کرنے، غلاف کعبہ سے لپٹنے ، حجر اسود کو بوسہ دینے، مسجد حرام میں نمازیں ادا کرنے ، صفا و مروہ کی سعی کرنے ، مقام ابراہیم و حطیم میں نوافل ادا کرنے، گنبد خضریٰ کو تکتے رہنے ، روضہ رسول ﷺ پر حاضر ہوکر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے اور ریاض الجنۃ میں نماز ادا کرنے سے انسان کو روحانیت کی ایسی دولت میسر آتی ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی بدل ہی نہیں ہے۔

غار ثور، غار حرا ، مسجد عائشہ و مسجد جعرانہ ، جبل رحمت، میدان عرفات، مزدلفہ، مسجد نمرہ، منیٰ، جنت البقیع، مسجد قباء، مسجد قبلتین و مسجد جمعہ، مقام غزوہ احزاب، جبل احد سمیت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بہت سے مقامات کی زیارت کرنا ہر امتی کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ ان مقامات سے ہماری تاریخی عقیدت و محبت وابستہ ہے۔

ان کی زیارت سے دل جوش ایمانی سے لبریز ہوتا ہے اور عقیدت و محبت میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ آنکھوں سے بے اختیار اشک رواں ہو جاتے ہیں اور بار بار زیارت کی تڑپ بڑھتی جاتی ہے۔ رب تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ اس نے مجھے بھی عمرہ کی سعادت سے نوازا اور مجھے بھی ان مقدس و محترم مقامات کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔

خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ جوں جوں قدم مطاف کی طرف بڑھتے ہیں، تمام سوچیں ایک جگہ مرتکز ہوجاتی ہیں۔ انسان دنیا و مافیا سے بے خبر ہوجاتا ہے۔ پورا وجود آنکھ بن کر بیت اللہ کو تکنے میں مصروف ہوتا ہے۔ لبیک کی صدائیں جسم میں سنسناہٹ اور ہلچل پیدا کر دیتی ہیں۔ قدم لرزتے اور ڈگمگاتے محسوس ہوتے ہیں۔

اپنے گناہوں، غلطیوں اور پشیمانیوں سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ آنسو موتیوں کی طرح لڑی بن کر گرنے لگتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی دل میں یہ احساس لیے حرم شریف کی جانب رواں ہوتا ہے کہ ہم اس قادر مطلق کی بارگاہ میں حاضر ہو رہے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں ، جس کے آگے شہنشاہ و گدا سب سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس عظیم بارگاہ میں حاضری کی سعادت ملنے پر آنکھیں احساس تشکر سے بے اختیار اشک بار ہو جاتی ہیں۔

ہر کوئی اس ذات باری تعالیٰ کے دربار میں انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ بت بنا کھڑا ہوتا ہے۔ سب کے پاس فقط جھکا ہوا سر ، لڑکھڑاتی زبان ، دعا کے لیے بلند ہوتی آوازیں ، آنسو بہاتی ہوئی آنکھیں، خشیت الٰہی سے معمور دل اور پاکیزہ خیالات ہوتے ہیں۔

یہاں فرط انبساط کے ساتھ ساتھ شکر گزاری اور انکساری و عاجزی کے روح پرور لمحات گزرتے ہیں۔ خانہ خدا کو دیکھ کر دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان مرد و خواتین کعبہ کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں۔ حرم کعبہ میں دیوانہ وار ہر ملک اور ہر نسل کے لوگ طواف میں مصروف ہوتے ہیں۔ بادشاہ و فقیر سب ہی دو سفید چادریں زیب تن کیے بیت اللہ کا طواف کرنے میں مگن ہوتے ہیں اور والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

تمام تکلیفیں اور مصائب خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ یہاں گزرا ہر ہر لمحہ زندگی کا انمول بن جاتا ہے۔ انسان پر ایک بے خودی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ بہتے ہوئے اشک موتیوں میں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ہر ہر لمحہ ایمان تر و تازہ ہوتا رہتا ہے۔ ہر تکلیف، پریشانی اور تھکاوٹ میں سرور اور لطف آتا ہے۔ ہر کوئی یہی تمنا لیے ہاتھ بلند کرتا ہے کہ یا اللہ اس مقام سے دور نہ کرنا۔ دور ہوجائیں تو بار بار بلاتے رہنا۔ یہاں سے دور جانا بے انتہا تکلیف دہ ہوتا ہے۔

جب عاشقان نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں، ایک پرسکون اور پر مسرت احساس چہرے پر عیاں ہوجاتا ہے۔ دل مطمئن اور آنکھیں روشن ہونے لگتی ہیں۔ خود بخود زبان سے نعتیہ کلام اور درود و سلام کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ جوں جوں مدینہ منورہ قریب آتا ہے، دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ انسان خود کو روحانی فضائوں میں محسوس کرتا ہے۔

اپنی قسمت پر رشک آنے لگتا ہے کہ مجھ سا گناہ گار امتی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہونے جارہا ہے، لیکن اپنی حالت دیکھ کر شرمندگی بھی ہوتی ہے اور یہ خوف بھی دامن گیر ہوتا ہے کہ میرا کوئی عمل ہمارے پیارے نبی ﷺ کو ناگوار نہ گزرے۔ جب مسجد نبوی کے میناروں پر نگاہ پڑتی ہے تو فرط جذبات اور محبت و عقیدت کے آنسو چھلکنے لگتے ہیں۔

گنبد خضریٰ پر نظر جاتی ہے تو درود و سلام کا ورد مسلسل جاری ہو جاتا ہے۔ روضہ رسول ﷺ پر حاضری پر ہر عید سے بڑھ کر خوشی و مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے سامنے ہر خوشی کم ہے۔ دل روحانیت سے سرشار اور ایمان میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ روضہ رسول ﷺ کو اپنے سامنے پا کر دل کی کیفیت سرشار ہوجاتی ہے۔ ہر کوئی آپ ﷺ پر دْرود و سلام کے گلدستے نچھاور کر رہا ہوتا ہے۔ سر شْکر گزاری میں جھکا جا رہا ہوتا ہے۔

ریاض الجنۃ میں جگہ پانے پر دل غیر معمولی رفتار میں دھڑک رہا ہوتا ہے۔ ریاض الجنۃ میں نوافل پڑھنے کی سعادت بہت بڑی سعادت ہے۔ روضہ اطہر کی جالیوں سے لے کر منبر رسول تک ریاض الجنت کا حصہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی بھی مسجد میں ایک جگہ تحریر ہے کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ یہاں نوافل ادا کرنے کی خواہش ہر کسی کی ہوتی ہے اور اس سعادت کے لیے لوگ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔

یہاں آکر کبھی روضہ مبارک پر، کبھی مصلے اور کبھی منبر رسول پر نظریں جم جاتی ہیں۔ جذبات سینے کی حدود سے باہر آنے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ کھل کر رونے کو جی چاہتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے احسانات آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے ہیں۔ آنکھیں چشمہ بن کر پھوٹ پڑتی ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو، یہ جگہ ہی ایسی ہے۔ یہیں تشریف فرما ہو کر ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو درس دیا کرتے تھے۔

باب جبریل سے سامنے سڑک کی طرف جائیں تو سامنے جنت البقیع کا بڑا گیٹ ہے۔ خلیفہ سوئم سیدنا عثمان غنیؓ یہیں آرام فرما رہے ہیں۔ چند قدم آگے حضرت فاطمہ ؓ کا مرقد ہے۔ ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے علاوہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی یہیں آسودہ خاک ہیں۔ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ منورہ سے بھی واپسی کا سفر بہت ہی تکلیف دیتا ہے۔ یہاں سے جانے کا وقت قریب آتا ہے تو بے تحاشہ رونے کو دل چاہتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ اس جدائی کا درد برداشت نہیں ہوگا، مگر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نم آنسوؤں کے ساتھ یہاں سے لوٹنا پڑتا ہے۔ صاحب استطاعت لوگوں کو زندگی میں ایک بار مکہ مدینہ ضرور جانا چاہیے۔ اپنے لیے، عزیز و اقارب ، دوست احباب اور سب کے لیے ڈھیروں دعائیں کریں۔ ہر کوئی یہاں جا کر ایک ایسے روحانی تجربے سے روشناس ہوتا ہے کہ جس کی لذت لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایسے مقامات ہیں کہ جو ان کو ایک بار دیکھ لے، دل چاہتا ہے کہ ان سے کبھی بھی جدا نہ ہو اور ساری زندگی یہیں گزار دی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔