گلوکار اور راک اسٹار عاطف اسلم

یونس ہمدم  اتوار 27 نومبر 2022
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

ان دنوں نیوجرسی اور نیویارک میں سردی اپنے عروج پر ہے اورکسی دن تو ٹمپریچر مائنس ڈگری تک چلا جاتا ہے پھر بھی سردی کے اس سخت موسم میں نیویارک اور نیوجرسی دیگر ریاستوں میں موسیقی کی محفلیں میوزک کنسرٹ ماحول میں گرمی پیدا کیے ہوئے ہیں۔

پچھلے دنوں میں ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں تھا وہاں ہندوستان کے نامور گلوکار شریا گھوشال کا میوزک شو تھا جس میں ہندوستان اور پاکستانی کمیونٹی نے شرکت کی تھی ، میں نے بھی وہ شو دیکھا تھا بڑا پرہجوم شو تھا ، ہزاروں لوگ موجود تھے، شریا گھوشال نے میوزک شوک سارے گاما سے اپنی گائیکی کا آغازکیا تھا اور آج وہ نامورگلوکارہ ہے جب میں موسیقی کے جلوے شہر ڈیلس سے آنکھوں میں سجا کر واپس نیوجرسی آیا تو پتا چلا کہ مشہور پاپ سنگر عاطف اسلم امریکا آیا ہوا ہے اور وہ پہلے امریکا کی دو ریاستوں نیویارک اور نیوجرسی میں اپنے شو کرے گا۔

19 نومبر ہفتہ کو نیوجرسی میں اس کا میوزک کنسرٹ تھا ہم بھی وہ شو دیکھنے گئے تھے ابھی تک عاطف اسلم کو ٹیلی وژن اور کوک اسٹوڈیو میں گاتے ہوئے سنا تھا مگر اسے روبرو پہلی بار نیوجرسی کے ایک تھیٹر میں سنا ، ہمارے میوزک پروموٹر ایک دوست نے چند اعزازی ٹکٹ عنایت کردیے تھے جب ہم اس ہال پہنچے جہاں میوزک شو تھا تو یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ وہاں تو عاطف اسلم کے چاہنے والوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہے جب کہ سردی شباب پر تھی مگر لوگ تھے کہ جوق در جوق چلے آ رہے تھے جو عاطف اسلم سے ان کی بے تحاشا محبت کا ثبوت تھا۔

بہرحال ہمیں بغیر کسی قطار میں لگے پروموٹر دوست کی وجہ سے فوراً اندر جانے کی سہولت مل گئی تھی۔ اس وقت تک آدھا ہال بھر چکا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہال سامعین سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ ایک جگماتے لباس میں خاتون نے آ کر نیوجرسی کے شایقین کی تعریف کرنے کے بعد عاطف اسلم کی اسٹیج پر آمد کا جیسے ہی اعلان کیا سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ، کئی ہزار کی تعداد میں وہاں لوگ موجود تھے پھر چند لمحوں بعد عاطف اسلم نے اپنی انٹری دی تو ہال میں پھر سے تالیوں کا شور بڑھتا چلا گیا۔

عاطف اسلم نے دونوں ہاتھوں کو چوک کر اپنے چاہنے والوں کو پیار دیتے ہوئے خوش آمدید کہا اور پھر جیسے ہی اس کی آواز کا جادو بکھرا ایک سماں سا بندھ گیا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان میں جن گلوکاروں کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ، مہدی حسن کے بعد جگجیت سنگھ، استاد نصرت فتح علی، راحت فتح علی کے بعد عاطف اسلم وہ سنگر ہے جو اپنی منفرد گائیکی سے ہزاروں دلوں کو موہ لینے کا ہنر رکھتا ہے۔

عاطف اسلم نے یکے بعد دیگرے اپنے وہ تمام گیت گائے جو پہلے سے عوام میں مقبول ہیں اور اس وقت بڑا دلچسپ منظر ہوتا تھا جب ہال کے بیشتر افراد اس کے گیتوں کے بہت سے بول خود گانے لگتے تھے اس بات سے بخوبی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ عاطف اسلم کے گیت اس کے چاہنے والوں اور اس کو پسند کرنے والوں کے احساس میں پوری طرح رچے بسے ہیں اور کسی بھی گلوکار کی مقبولیت کی یہ ایک سند ہوتی ہے اس نے بڑے والہانہ انداز میں وہ سارے گیت پیش کیے جو ہاٹ کیک کی طرح تھے اور لوگ جن کی پرزور فرمائشیں کرتے تھے جیسے کہ یہ چند گیت:

٭اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں٭دل میری نہ سنے٭جینے لگا ہوں٭دیکھتے دیکھتے٭پہلی دفعہ٭تو جانے نہ٭دل دیاں گلاں٭پہلی نظر میں٭ٹوٹا جو کبھی تارا

اور بے شمار دلفریب گیت گا کر وہ ہزاروں دلوں کو چھوتا رہا، گاتا رہا۔ اسی دوران عاطف اسلم نے کچھ محمد رفیع اور کشور کمار کے گیت گا کر بڑی دھوم مچائی اور پھر اس نے ہندوستان کی لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر کا گیت گا کر اور بلبل صحرا ریشماں کا گیت گایا اور ساتھ ہی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شہنشاہ غزل مہدی حسن کی گائی ہوئی احمد فرازکی غزل بھی اپنے مخصوص انداز میں پیش کی:

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ جانے کے لیے آ

اس دوران اسکرین پر لتا منگیشکر، ریشماں اور مہدی حسن کی بڑی بڑی تصویریں بھی پیش کی گئیں، یہ آج کے گلوکار کا کل کے لیجنڈ فنکاروں کو عاطف اسلم کی طرف سے ایک خوبصورت خراج تحسین تھا۔ اب میں آتا ہوں عاطف اسلم کی ابتدائی زندگی اور اس کی شخصیت کے ساتھ اس کے گائیکی کی ابتدائی جدوجہد کی طرف۔ 12 مارچ 1983 میں پنجاب کے علاقے وزیر آباد میں محمد اسلم کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا ، جس کا نام عاطف اسلم رکھا گیا۔

ابھی یہ کمسن تھا والد کی خواہش تھی کہ اسے ڈاکٹر بنائیں گے جب کچھ بڑا ہوا تو اسے کرکٹ کا شوق پیدا ہو گیا وہ زمانہ عمران خان جیسے عظیم کرکٹر کا زمانہ تھا۔ اس نے ابتدائی تعلیم ڈویژنل پبلک اسکول لاہور پھر کچھ تعلیم سینٹ پال کیمبرج اسکول راولپنڈی سے حاصل کی۔

ڈاکٹری سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس نے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کی لیکن لاہور کالج کے زمانے میں یوم آزادی کے ایک میوزک فنکشن میں اس نے پہلی بار گانے کے مقابلے میں حصہ لیا تھا اور اس کی گائیکی کو سب نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اس فنکشن میں بہترین سنگر کا حق دار قرار دیا گیا اور عاطف اسلم نے موسیقی کا وہ مقابلہ جیت لیا تھا۔

بس وہی لمحات تھے جب اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنا کیریئر بطور ایک سنگر شروع کرے گا۔ پھر اس نے محمد رفیع، مہدی حسن اور کشور کمار کے گیت گانے شروع کیے اور ایک دن یہ گاتے گاتے مکمل سنگر ہو چکا تھا۔ اس کی آواز میں دم بھی تھا اور سروں کا گہرا رچاؤ بھی تھا۔

اس نے دوستوں کے ساتھ جال کے نام سے ایک میوزک بینڈ ترتیب دیا اور اس کی گائیکی کا سفر تیز تر ہوتا چلا گیا بائیس سال کی عمر میں اس نے اپنا پہلا میوزک البم ’’جل پری‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ لانچ کیا زیادہ تر گیت خود لکھے اور خود ہی ان کی موسیقی مرتب کی۔ اس میوزک البم کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔

پاکستانی فلم ’’بول‘‘ سے اس کی شہرت کو چار چاند لگے تھے اور پھر عاطف اسلم کچھ ہی عرصے میں بیسٹ پاپ سنگر، راک اسٹار بن کر موسیقی کی دنیا میں چھا گیا تھا پھر انڈین فلم انڈسٹری میں بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

انڈین فلم ’’زہر‘‘ میں اس کے گائے ہوئے گیت ’’وہ لمحے‘‘ کو بڑی شہرت ملی، پھر فلم ’’عادت‘‘ کے گیتوں نے دھوم مچائی، ’’عادت‘‘ کے گیت پر بہترین سنگر، کمپوزر اور گیت کار کا سہارا سنگیت کی طرف سے ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا۔ 2008 میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ پھر 2013 میں اس کو برانڈ پرسنالٹی انٹرنیشنل ایوارڈ دیا گیا۔

گلوکاری کے ساتھ اداکاری کا شوق بھی بڑھتا چلا گیا اور اب عاطف اسلم نہ صرف ایک راک اسٹار سنگر ہے بلکہ ایک باصلاحیت اداکار بھی ہے۔ عاطف اسلم کی آواز میں کئی ایسے صوفی سانگ ہیں جو عاطف اسلم کو دیگر گلوکاروں سے منفرد بناتے ہیں اس کی شخصیت میں فقیری بھی ہے اور ایک طرح کی درویشی بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔