زباں فہمی نمبر 165؛ ارشاد ۔۔۔ مکرر

سہیل احمد صدیقی  اتوار 27 نومبر 2022
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

 کراچی: ان دنوں ’شہاب نامہ‘ سے ماخوذ ایک سچا واقعہ بطور لطیفہ، فیس بک اور واٹس ایپ پر خوب خوب نقل ہورہا ہے۔’عہد ِ ایوبی‘(کوئی ساٹھ برس پہلے) کا قصہ ہے کہ ایک اعلیٰ عسکری شخصیت کو ایک انتظامی عہدہ نصیب ہوا (جیسا کہ اب رواجِ عام ہے، مگرتب نئی نئی بات تھی)تو بھولے بھالے لوگوں نے ایک مشاعرے میں اُنھیں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کرلیا۔ شاید انھوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ مشاعرہ دیکھا تھا۔ ہوا یوں کہ حاضرین شعر سنتے تو خوب داد دیتے، ”ارشاد، ارشاد! مکرر، مکرر!“۔ بڑے صاحب نے دیکھا،سنا تو بہت حیران پریشان ہوئے اور منتظمین سے پوچھا، ’یہ کیا شور مچا رہے ہیں؟‘۔بتایا کہ صاحب یہ شعر دوبارہ سنانے کو کہہ رہے ہیں۔ بڑے صاحب کو بہت غصہ آیا اور فرمان جاری کیا، ’پہلی دفعہ غور سے کیوں نہیں سنتے؟ کیا شاعر تمھارے باپ کے نوکر ہیں؟‘۔ ایسے مہان افسران آج بھی پائے جاتے ہیں،(جنھیں بزَعمِ خویش، سب کچھ معلوم ہوتاہے، مگر حقیقت برعکس ہے)، اس لیے لطیفہ تازہ ہی سمجھیں۔

فرسودہ لطیفہ ہمارے یہاں چالو عوامی بول چال یعنی Slangمیں یہ بھی رائج ہے کہ کسی نے کہا، ارشاد، تو جواب میں کہا، وہ تو فُلاں جگہ گیا ہے۔ہمارے ایک بہت محترم سفارت کار دوست کے بیٹے کا نام بھی ارشاد ہے توکسی مشاعرے کے موقع پر اُس کے نام کے ساتھ بھی، ہم ہی نے، ہلکا پھلکا مذاق کرنے کی کوشش کی تھی۔بات کی بات ہے کہ لفظ ارشاد کا استعمال ہمارے ادب میں متعدد مقامات پر بحسن وخوبی ہوا ہے۔اپنے داغؔ دہلوی کہہ گئے ہیں:

بات کا زخم ہے تلوار کے زخموں سے سوا
کیجئے قتل،مگر منھ سے کچھ ارشاد نہ ہو

جوش ؔ ملیح آبادی کی ایک غزل کامشہور زمانہ شعر ہے:
سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا

اور اسی غزل میں ان کا یہ شعر بھی توجہ چاہتاہے:
اے! میں سو جان سے اس طرز تکلم کے نثار
پھر تو فرمائیے کیا آپ نے ارشاد کیا

اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر شاعر نے فطرت سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار یوں کیا:

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا؟

ایسا فطرت پسند شاعر، کہاں نکل گیا اور کیا کیا کہہ گیا….ہائے ہائے! (فطرت پسندی پر خیال آیا کہ شاید جوش ؔ زندہ ہوتے تو ہائیکو کی منفرد صنف پسند فرماتے، جواُن کی وفات کے اگلے ہی برس، ہمارے یہاں مشاعروں کے ذریعے رائج ہوئی، ویسے تعارف 1922ء میں ہوچکاتھا)۔

کبھی کبھی ایسا بھی وقت آجاتا ہے کہ انسان اپنی تسکین کے لیے کوئی بات مکرر سننا چاہتا ہے اور ایسے میں ہر مرتبہ وہی حَظ اُٹھاتا ہے یا پہلے سے بڑھ کر مزہ پاتاہے، بقول میرزا غالبؔ:

بہرا ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

مکرر کا مطلب ہے، کوئی بات یا واقعہ دوبارہ ہونا، خواہ فوراً ہویا کچھ دیر بعد یا کچھ عرصے کے بعد، باربار ہونا۔اس لفظ کا استعمال ’نشرِ مکرر‘ اور ’قندِ مکرر‘ جیسی منفرد تراکیب میں بھی ہوتا ہے۔اول الذکر تو شعبہ نشریات (ریڈیو، ٹی وی) میں مستعمل ہے۔جب کوئی پروگرام دوبارہ نشر ہو یا جدید زبان میں دوبارہ On air/telecastہو تو اُسے نشر مکرر کہتے ہیں۔یہاں مکرر عرض کردوں کہ یہ کہنا درست نہیں کہ لفظ ’نشر‘ محض ریڈیو کے لیے ہے اور ٹی وی کے لیے ٹیلی کاسٹ ہی مخصوص ہے۔زبان کا درست علم ہوتو یہ بات سامنے کی ہے کہ ٹی وی پر چلنے والی کوئی بھی چیز، نشر ہی ہوتی ہے، بعینہ آن لائن کسی مواد کا پیش کیاجانا بھی اشاعت ہی ہے،اسی لیے Online publishingکہلاتاہے۔

قندمکرر سے مراد ہے کوئی اچھی بات دوبارہ کہنا گویا میٹھا دوبارہ پیش کرنا;لغات میں یوں بیان کیا گیا:دو مرتبہ صاف کیا ہوا قندیعنی میٹھا جو بہت عمدہ اور شفاف ہوتا ہے، دوبارہ صاف کیا ہوا قند۔2۔ (مجازاً) وہ عمدہ بات جو دوبارہ کہی یا سنی جائے، کلام کا اِعادہ۔
اس کا حسن استعمال ملاحظہ فرمائیں:

شربتِ قندِ مکرر کا مزہ پاتے تھے
دور سے دیکھ کے لب بند ہوئے جاتے تھے
(مونس)

ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قند سے مراد ہے:

1۔ شکر، کھانڈ، چینی، بورا، شکرتری
2۔ گاڑھا شیِرہ پکاکر جمائی ہوئی کھانڈ(White crystallized sugar=Sugar cubes)، جما ہوا برف سا شیرہ
3۔ وہ دانے دار مٹھائی جس میں قند اور کندا یعنی دودھ کا ماوا ڈال کر پکاتے ہیں اور کونڈے وغیرہ میں جماکر قاشیں تراش لیتے ہیں، یعنی آج کل کی زبان میں قلاقند۔
4۔ پکے سرخ رنگ کا سوتی کپڑا، اک رنگا، سالو، ٹول، شال باف، شال بانہ
5۔ ایک زردرنگ کی کھجور
(فرہنگ آصفیہ، نوراللغات۔http://www.urduencyclopedia.org)۔

علاوہ ازایں (اس کے علاوہ۔ فارسی)، بطور استعارہ یا صفت استعمال ہونے کی صورت میں قند کا مطلب ہے نہایت شیریں۔ فارسی لغات سے پتا چلتا ہے کہ یہ ”میٹھے ٹکڑے“(Sugar cubes) چائے یا قہوے/کافی میں مٹھاس کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت کرتا چلوں کہ اصل میں یہ لفظ فارسی کا ’کند‘ تھا جسے معرب کرکے (یعنی عربی شکل دے کر) قند کردیا گیا اور آج فارسی میں بھی یہی ہجے رائج ہیں، یہ اور بات کہ ایرانی فارسی میں اس کا تلفظ وہ نہیں جو ہم (اردو گو) کرتے ہیں۔ یوں بھی ایرانی فارسی میں ’ق‘ اکثر جگہ ’غ‘ بن چکا ہے، جیسے لفظ آقا تھا، اسے آغا کردیا گیا۔ اب اگر آقا لکھا بھی ہو تو آغا ہی بولا جائے گا۔ اَب یہ بھی جان لیجے کہ قندمکرر کا مفہوم کیا ہے۔ لفظی اعتبار سے تو یہ ہے، دو مرتبہ صاف کیا ہوا قند جو نہایت عمدہ اور شفاف ہوتا ہے، مگر مجازاً (خصوصاً ادب میں) اس سے مراد ہے عمدہ، بامقصد کلام یا مضمون کا اعادہ / دہرانا۔ قند مکرر سے مراد معشوق کے ہونٹ بھی ہیں۔
(سخن شناسی؛ قند، شکر قند، زقند اور سمرقند۔تحریر: سہیل احمد صدیقی، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، اتوار 23 جولائی 2017)

یہاں بات ڈگر سے ہٹ جائے گی، مگر غیر ضروری نہیں۔میرے محولہ بالا کالم میں شکرقند کے متعلق اظہار ِخیال شامل تھا۔کچھ عرصے پہلے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ،سرِ راہ یہی چیز فروخت کرنے والے ایک دیہی سندھی شخص کے ٹھیلے پر ’شکر گند‘ لکھا ہوا دیکھ کر بندہ دَنگ رہ گیا اور پھر غور کیا تو یوں محسوس ہوا کہ شاید صدیوں پہلے یہی ترکیب ہو، شکر بمعنی میٹھا اور گند بمعنی گندہ یا مٹی میں لتھڑا ہوااور بعد میں تبدیل ہوگیا ہو۔

قند مکررکے معنی فارسی کی معروف، مستند لغت، لغت نامہِ دہخدامیں یوں درج کیے گئے:
قند مکرر (ترکیب وصفی، اِ مرکب) کنایہ َاز لب ہای معشوق است (برہان): دیدہ چون آن دو لب شیرین دید+معنی قندمکرر فہمید۔شاعر:
طاہر غنی (از آنندراج)۔

اس تعریف کی رُوسے معشوق کے ہونٹ بھی ”قندمِکرر“ قرارپاتے ہیں۔شعر کا مفہوم ہے کہ جب وہ دوشیریں ہونٹ دیکھے تو قندمکررکا مطلب سمجھ میں آگیا۔اپنے میرزاغالبؔ نے اس شعر میں بہ یک وقت محبوب کے شیریں لب کی تعریف بھی کی اور رقیب کواس منفرد انداز میں ڈھیٹ بھی ٹھہرادیا کہ کم فہم ہوگا تو خوش ہی ہوجائے گا:

کتنے شیریں ہیں تِرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

اب ذرا کچھ اور اشعار میں مکررکا استعمال اور حسن استعمال دیکھتے ہیں:

میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی ، سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا
صفحہ دشت جنوں،یادِ سوادِ گیسو
اس پر آشفتہ سری، درس مکرر اپنا
(رعبؔ)

گر مکرر عرض کرتے ہیں تو کہتے ہیں وہ شوخ
ہم سے لیتے ہو میاں تکرار و حجت تا بکے
(نظیر)

یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
(غالب)

بہراہوں میں تو چاہیئے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
(غالب)

آل نبی کے غم میں مکرر،ہے رات دن
تبدیل کیوں نہ ہو دل اہل صفا کا رنگ
(نصیر دہلوی)

کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کوتر
فرزند فاطمہ پہ نہ تھا سایہ شجر
(انیس)

ویسے ماقبل خاکسارنے زباں فہمی میں ’تکرار اور حُسن تکرار‘ کو بھی موضوع بنایا تھا۔اسے دہرائے بغیر عرض کرتاہوں کہ کسی بھی لفظ، اصطلاح،ترکیب،فقرے، محاورے یا کہاوت کے محل استعمال سے اُس کے مثبت ہوتے ہوئے منفی اور منفی ہوتے ہوئے مثبت اثرات مرتب ہونے کا امکان ہمیشہ رہتاہے۔یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ الفاظ کے معانی ومفاہیم میں کثرت کے سبب، کوئی بھی بات مثبت یا منفی سمجھی جاسکتی ہے۔ایک چھوٹی سی مثال ہے۔عربی لفظ ’حضرت‘ ہمارے یہاں بزرگوں کے نام سے پہلے یعنی بطور سابقہ احتراماً لگایا جاتا ہے، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، دینی حوالے سے توہوتا ہی ہے، ادبی زبان میں بھی مستعمل ہے، مگر آپ کسی سے کہیں کہ ’آپ بھی بڑے حضرت ہیں‘ تو اِس کا ہرگز مُثبَت مطلب نہیں ہوتا۔البتہ مزاحاً یا طنزاً کہاجاسکتا ہے۔

تکرارکے مثبت ومنفی معانی ذہن میں رکھیں اور کسی کی چاہ میں اُس کانام دہرایا جانا،پھر یہ سوچیں کہ آیا اس مضمون کے پیش نظر بھی کوئی ایسی بات کہہ سکتا ہے جو ہمارے معاصر محترم باقی ؔاحمد پوری نے فرمائی:
تھک گئے ہونٹ ترا نام بھی لیتے لیتے
ایک ہی لفظ کی تکرار کہاں تک جاتی

اب ذرا ایک مختلف مثال ملاحظہ فرمائیے۔نعت کا بہت مشہور شعر ہے:
وہاں پہنچ کے یہ کہنا ، صبا سلام کے بعد
کہ تیرے نام کی رٹ ہے خدا کے نام کے بعد
(آسیؔ غازی پوری)

گویا تکرار کا مثبت استعمال دیکھنا ہو تو ایسی مثال بھی سامنے ہے۔

غالبؔ کے کلام کی تشریح، اس پر تضمین اور شگفتہ پیرائے میں تبصرہ متعدد اہل قلم کرچکے ہیں۔ؔاردو کے مشہور مزاح گو اور مزاح نگارپنڈت ہری چند اختر کے ایک مضمون سے اقتباس پیش خدمت ہے:
”مضمون غالب، اپنے کلام کے آئینے میں“

میرزا کی زندگی اگرچہ عسرت میں گزری تھی لیکن اس کے لیے اللہ میاں ذمہ دار نہ تھے، خود مرزا کو اقرار ہے کہ خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے۔ سنیے،
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ دونوں جہاں گئے کہاں؟ جواب میرزاکے اس شعر میں موجود ہے:
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
پس دونوں جہان بھی گھر کے ساتھ ہی لٹا دیے ہوں گے۔

اس ساری گفتگو میں یہ نکتہ بھی شامل کرلیجئے کہ بَسا اوقات یہ ہونے لگا ہے کہ ہم کوئی بات کہتے ہیں اور اپنے طور پر فرض کرلیتے ہیں کہ اس کا ابلاغ ہوگیا یعنی یہ بات لوگوں تک پہنچ گئی، ان کی سمجھ میں آگئی، مگر ایسا بوجوہ نہیں ہوپاتااور ہمیں اپنی بات دُہرانی پڑتی ہے، بلکہ بعض اوقات کئی کئی بار ایسا کرنا پڑتا ہے، خواہ تقریر ہو، تحریر یا تدریس۔کالم زباں فہمی جب ابتدائی شماروں تک مختصر ہواکرتا تھا تو ایسے کئی معاملا ت ہوئے کہ فُلاں لفظ، فقرہ، محاورہ یا کہاوت، فُلاں جگہ (خصوصاً ٹیلی وژن پر)غلط استعمال ہوئی۔ایسے نکات اپنے ہی کالم میں گاہے گاہے دہرانے بھی پڑے۔آج پھر ایسی کچھ مثالیں دُہرانی ضروری ہوگئی ہیں۔

ہمارے ذرائع ابلاغ میں اس وقت سب سے زیادہ نمایاں ٹیلی وژن ہے اور وہی معاشرے کی ’تربیت‘ کا بڑا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے، اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا۔نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہر موضوع کی طرح، اردو زبان وادب کی بھی شامت آئی ہوئی ہے۔بھانت بھانت کے لوگ، سیکھے بغیر سکھانے پر تُل گئے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ہر آدمی ہر بات قطعیت سے کہتاہے کہ گویا اُسی کاکہا ہوا، لکھا ہوا حرفِ آخر ہے۔نثر ہی کی بات نہیں، شعر پر بھی بڑا کڑا وقت آگیا ہے۔ایسے لوگ نمایاں ہورہے ہیں جو علم عروض کو چکھنے کی حد تک جانتے ہیں یا اس قدر بھی نہیں اور باقاعدہ تدریس شروع کرکے کچھ نہ کچھ کمارہے ہیں۔یہ بات دُہراتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ اہل قلم، خصوصاً اہل صحافت میں ایسے لوگ بہت اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں جو اکثر اردو قواعد کے منافی کوئی جملہ لکھ جاتے ہیں، کہہ جاتے ہیں اور اُنھیں یہ سمجھانا تقریباً ناممکن ہوتاہے کہ حضور! آپ نے بیس پچیس یا تیس سال تک مال یقینا بہت کمایا، شہرت بھی سمیٹی، مگر اس طرح کی غلطیوں سے لگتا ہے کہ آپ کو ابھی زبان سیکھنے کی اشد ضرور ت ہے، کسی اَناڑی کی طرح۔بدتمیزشخص تو یہ کہنے میں حق بجانب ہوگاکہ آپ نے اتنے عرصے گھاس کاٹی ہے۔

ان دنوں ہم جیسے دردمند افراد کی سعی مسلسل کے باوجود، عوام کو مؤنث بولے اور لکھے جانے کا چلن عام ہوتا جارہا ہے اور ایسے لوگ بھی منظر عام پرآگئے ہیں جو اس طرح کی صریح غلطی کو ”رَومیں رَوا ہے“ اور ”اب تو یہی درست ہے“ کہہ کر آگے بڑھاتے ہیں۔ایساکہنے والے بھی بڑھتے جارہے ہیں کہ صاحب! کوئی بات نہیں، زبان اسی طرح ترقی کرتی ہے، پہلے جو غلط ہوتا ہے، رواج میں بڑھ جائے تو وہی صحیح ہوجاتا ہے۔ انگریزی الفاظ کی عجیب وغریب اردو جمع بولی جارہی ہے، جیسےDateسے ڈیٹیں، Paymentسے پے مینٹیں، Amountسے اماؤنٹیں،CDسے سی ڈیاں (ہمیں تو سیڑھیاں کا گمان ہوتا ہے)، Billسے بلیں وغیرہ۔ اردو پر دیگر مقامی زبانوں اور بولیوں کے اثرات یوں بھی غالب آئے کہ لوگ اخبار کی جمع اخباریں اور بینک کی جمع بینکیں بولنے لگے ہیں۔ویسے ہماری چالو عوامی بولی [Slang]یا تحتی بولی میں نوجوان لڑکیاں ’امّیاں‘ (امّی کی جمع) اور دیگر لوگ اباؤں (ابا کی جمع) بولتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔بقول کسے ؎ آج کچھ درد مِرے دل میں سِوا ہوتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔