سرمایہ کار دوست پالیسی کی ضرورت

ایڈیٹوریل  پير 28 نومبر 2022
اگر پاکستان روس سے سستا تیل خریدنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے (فوٹو : ٹویٹر)

اگر پاکستان روس سے سستا تیل خریدنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے (فوٹو : ٹویٹر)

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے دورہ ترکیہ کے دوسرے روز استنبول میں پاکستان ترکیہ بزنس کونسل کے اجلاس سے اہم خطاب کیا۔

اپنے خطاب کے دوران انھوں نے ترکیہ کے سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کو پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے دستیاب پرکشش مواقعے سے بھرپور استفادہ کی دعوت دی۔انھوں نے ترک سرمایہ کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان توانائی، دفاعی پیداوار، شمسی توانائی سمیت متنوع شعبہ جات میں ترک سرمایہ کاروں کا خیرمقدم کرے گا اور اس ضمن میں حکومت پاکستان بھرپور تعاون کرے گی۔

وزیراعظم پاکستان نے یقین دہانی کرائی کہ تجارت اور سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے موثر اقدامات کر رہے ہیں اور ہم ترکیہ کے ساتھ تین برسوں میں باہمی تجارتی حجم کو5 ارب ڈالر تک بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔وزیراعظم میاں شہباز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تجارت، دفاعی پیداوار سمیت مختلف شعبوں میں تعاون مضبوط کرنے پر پیش رفت ہوئی ہے۔

وزیراعظم نے ترک سرمایہ کاروں کو کھلے دل سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ حکومت غیرملکی سرمایہ داری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی اور اس سلسلے میں کام بھی ہو رہا ہے۔

معاشیات کا یہ اصول ہے کہ سرمایہ پرامن علاقوں کی طرف پرواز کرتا ہے‘ جن ممالک میں بدامنی ہو گی‘ جرائم کی شرح زیادہ ہو گی ‘ دہشت گردی ہوگی اور ایسے قوانین ہوں گے جن کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری ڈوبنے کا خدشہ ہو گا تو ایسے ممالک میں غیر ملکی سرمایہ کاری تو دور کی بات مقامی سرمایہ دار بھی وہاں سرمایہ کاری کرنے سے گھبراتا ہے اور پرامن ملکوں کی طرف چلا جاتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ دہشت گردی ‘انتہا پسندی ‘جرائم نے ملک کو شدید طور پر متاثر کیا ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومتوں نے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو کوئی صنعت لگانے اور کاروبار کرنے کے لیے مختلف دفتروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور سرکاری اہلکارضابطہ کی کارروائیوں میں الجھا کر انھیں اس قدر پریشان کر دیتے ہیں کہ وہ سرمایہ لگانے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔

پاکستان جب تک سرمایہ کار دوست پالیسی تیار نہیں کرتا ملک میں غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی۔ یہی نہیں پاکستان میں چھوٹے کاروباری طبقے کو بھی مختلف سرکاری اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ٹیکسوں اور دیگر معاملات نے پریشان کر رکھا ہے اور اس کے لیے اپنا کاروبار چلانا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔حکومت کو اس حوالے سے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاک ترکیہ بزنس کونسل کے اجلاس سے خطاب کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں، ماضی میں ترکیہ کی بعض کمپنیوں کے لیے پاکستان میں مشکلات رہیں، ترکیہ کے سرمایہ کاروں کے مسائل کا ازالہ کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

انھوں نے گزشتہ دنوں ترکیہ میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ پاکستان کی طرح دہشت گردی کا نشانہ بنتا رہا ہے، ہم نے دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے ترکیہ کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ترک تاجروں کے حقیقی مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور اقدامات اور کوششیں کی جائیں گی۔ تجارتی حجم میں اضافہ کرنے کے لیے ترکیہ کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے، ترکیہ کے ساتھ تین سالوں میں تجارتی حجم 5ارب ڈالر تک بڑھائیں گے۔

انھوں نے کہا روس، یوکرین تنازع سے خوردنی اشیا اور ایندھن کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا، اس صورتحال سے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت مہنگی پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کو کم کرنا چاہتی ہے، پاکستان نے گزشتہ سال27 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کیں، ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے۔ ترک سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، دونوں برادر ممالک کے درمیان لامحدود صلاحیتوں کو دو طرفہ تجارت اور کاروبار میں بھی نظر آنا چاہیے۔

حکومت ترک بھائیوں سمیت غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمایہ کاری کی راہ میں کسی قسم کی مزید رکاوٹ برداشت نہیں کرے گی۔ ترک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں بہترین اور سازگار ماحول فراہم کریں گے۔

یہ افسوسناک ہے کہ ماضی کے دور حکومت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی ترک کمپنیوں کو ان کی واجب الادا ادائیگیاں نہیں کی گئیں، اس قسم کی رکاوٹوں کو برداشت نہیں کریں گے جس سے ہمارے تعلقات کو نقصان پہنچے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعہ کو استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لیے چار میلجم کارویٹ جہازوں میں سے تیسرے جہاز پی این ایس خیبر کی لانچنگ تقریب سے خطاب کے دوران بھی کہا تھا کہ روس اور یوکرین سے گندم کی درآمد کے معاملے میں صدر اردوان کا کردارقابل ستائش ہے کیونکہ انھی کوششوں کی وجہ سے یوکرین سے گندم کی درآمد ہوئی اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بڑے بحران سے بچ گئے۔

انھوں نے واضح کیا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کا ہمارا درآمدی بل گزشتہ برس کے دوران 25 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ جو ناقابل برداشت ہے‘ بلاشبہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں‘ پاکستان اس حوالے سے روس سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

روس یوکرین جنگ کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ سعودی عرب نے بھی اس حوالے سے امریکی موقف اور پالیسی کا ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ‘ کئی ممالک اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روس سے سستا تیل خرید رہے ہیں۔

ان ملکوں میں ترکی اور بھارت بھی شامل ہیں۔بھارت بھاری مقدار میں روس سے سستا تیل خرید رہاہے ‘اس کے علاوہ بھارت ایران سے بھی تیل خرید رہا ہے ‘روس اور ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے یہ ملک کم قیمت پر تیل فروخت کر رہے ہیں۔

کورونا وباء کے دوران بھارت نے ایران سے سستا تیل خرید کر اپنی معیشت کو سہارا دیے رکھا اور اب وہ روس سے بھاری مقدار میں سستا تیل خرید رہا ہے جس کی وجہ سے بھارت کی معیشت کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے جن کا سامنا سری لنکا اور پاکستان کو ہے۔

پاکستان کے لیے سستا تیل انتہائی ضروری ہے‘ اگر پاکستان روس سے سستا تیل خریدنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے‘اس وقت پاکستان کے لیے عالمی حالات خاصے ساز گار ہیں ‘عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو چکی ہے ‘ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں آ گیا ہے۔

پاکستان کو عالمی ادائیگیوں میں توازن پیدا کرنے کا یہ اچھا موقع ہے اور اگر پاکستان یہ توازن پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ روس سے تیل کی خریداری پر مذاکرات کر کے صورت حال کو اپنے حق میں کر سکتا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کی قیادت میں وفد تیل کے معاہدے پر بات چیت کے لیے ایک دو روز میں روس روانہ ہورہا ہے۔اس کا انکشاف وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ امید ہے یہ دورہ کامیاب ہو گا اور حکومت بہتر شرائط پر معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گی، انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان ہرگز ڈیفالٹ کے قریب نہیں، اپنے ذمے تمام ادائیگیاں مقررہ وقت پر ادا کر دے گا۔یہ درست جانب قدم اٹھایا گیا ہے ‘روس اس وقت یوکرین میں پھنسا ہوا ہے اور اسے زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان اگر اس موقعے پر روس کے ساتھ قابل قبول شرائط طے کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ حکومت کی بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ روس سے سستا تیل درآمد کرنے کی وجہ سے حکومت اس قابل ہو جائے گی کہ وہ ملک کے اندر تیل کے نرخوں میں کمی لائے جب کہ بجلی کمپنیوں کی ضرورت کو بھی پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو حکومت کو بجلی کے نرخوں میں بھی شاید اضافہ نہ کرنا پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔