- پی ایس ایل8؛ نمائشی میچ کی تیاریاں مکمل، سیکیورٹی کے سخت انتظامات
- طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کیخلاف احتجاج پر پروفیسر کو گرفتار کرلیا
- جامعہ کراچی کے اساتذہ کا پیر سے کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان
- ڈالر کی لمبی چھلانگ، انٹربینک میں 276 اور اوپن مارکیٹ میں 283 روپے کی تاریخی سطح پر
- پشاور ماڈل کالج میں توہین مذہب کا مبینہ واقعہ، طلبا کی ہنگامہ آرائی
- کرپشن اور ٹیکس چوری کیخلاف کارروائی کیلیے بے نامی ایکٹ فعال
- 2031 تک بجلی پیداوار مقامی ذرائع پر منتقل کرنے کا منصوبہ جاری
- بنگلادیش نے سعودی عرب سے پٹرول ادھار مانگ لیا
- عمران ریاض کے خلاف مقدمہ خارج، رِہا کرنے کا حکم
- ایم ایس سی اسپورٹس سائنسز کرنے والے قومی کرکٹر کون؟
- عمران خان نے جھوٹ، گالی اور گولی کو قومی کلچر بنادیا، مریم نواز
- شیخ رشید کے خلاف کراچی میں بھی مقدمہ درج
- پشاور؛ پولیس لائنز مسجد میں خودکش دھماکے کے بعد نماز جمعہ ادا
- روس نے ہمیں دیگر ممالک سے زیادہ سستا تیل دینے کا کہا ہے، وزیر پیٹرولیم
- پشاور پولیس لائنز دھماکے کی تحقیقات میں بڑی پیشرفت،خاتون شامل تفتیش
- کے الیکٹرک کو 20 روپے رعایت کے ساتھ بجلی دے رہے ہیں، خرم دستگیر
- موٹر وے پر کار سواروں کا پولیس آفیسر پر تشدد
- لاڑکانہ میں یو ایس ایڈ کا چاول دکانوں پر فروخت، ویڈیو وائرل
- شان مسعود کو میچز کھلانے کیلئے ہیڈکوچ، کپتان کو کالز کی گئیں، سابق چیئرمین
- سندھ ہائیکورٹ؛ افغان کیمپوں میں سہولیات فراہمی کی درخواست مسترد
کیڑوں سے علاج کے قدیم طریقے کی عہدِ جدید میں واپسی

بایوموندے نامی کمپنی کا ایک کارکن لاروا تھراپی میں استعمال ہونے والے کیڑے دکھارہا ہے۔ فوٹو: دی ویک
لندن: برطانیہ میں باضابطہ طور پر زخم بھرنے کے لیے بھورے اور سفید کیڑوں (میگٹ اور لاروا) سے مدد لی جارہی ہے۔ برطانوی طبی انجمن ،این ایچ ایس نے باضابطہ طور پر اس کی مںظوری دیدی ہے۔
اسے لاروا تھراپی کہتے ہیں جس کا ذکر ہزاروں سال قدیم لٹریچر میں بھی ملتا ہے اور دوسری عالمی جنگ میں بھی گہرے زخم بھرنے کے لیے لاروا تھراپی استعمال کی گئی تھی۔ اب یہ حال ہے کہ برطانیہ میں اس کا استعمال 50 فیصد تک بڑھ چکا ہے کیونکہ یہ اینٹی بایوٹک ادویہ کو ناکام بننے سے روکتی ہے جس میں ٹی بیگ سےبھرے کیڑے زخم پر لگائے جارہے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں ناسور اور گہرے زخم اینٹی بایوٹکس ادویہ کو ناکام بنارہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر اس عجیب و غریب علاج کو اپنارہے ہیں۔ سال 2004 میں نیشنل ہیلتھ سروس برطانیہ نے اس کی منظوری دی تھی کیونکہ یہ کم خرچ اور مؤثر علاج بھی ہے۔ اس ضمن میں بایوموندے نامی ایک کمپنی ہر سال کیڑوں سے بھرے 9000 بیگ مختلف ہسپتالوں کوفراہم کرتی ہے جنہیں بایو بیگ (حیاتیاتی تھیلے) کا نام دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات کیڑوں کو آخری علاج کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ زخم ٹھیک نہیں ہوتا اور اینٹی بایوٹک ادویہ کو بے اثر کرتا رہتا ہے۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ کراہیت بھرا علاج ہے لیکن اپنے زخم سے پریشان مریض لاروا تھراپی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر اور نرس بھی اس کے حق میں نمایاں ہیں۔ بہت سے ماہرین نے کیڑوں سے علاج کو بہت مفید قرار دیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔