خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ... معاشرتی سوچ کی عکاسی!

’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

25 نومبر کو دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس دن سے 16 روزہ بین الاقوامی آگاہی مہم کا آغاز بھی ہوجاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں خواتین پر ہونے والے تشدد پر آواز اٹھانا، لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دینا اور تشدد کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنے پر زور دینا ہے۔

پاکستان میں نہ صرف یہ عالمی دن منایا جاتا ہے بلکہ 16 روزہ عالمی مہم کے تحت سرکاری و نجی سطح پر مختلف آگاہی پروگرامزبھی  منعقد کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں خواتین کی صورتحال ، ان پر ہونے والے تشدد اور اس کی روک تھام کیلئے حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم ‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رافعہ کمال

(چیئرپرسن پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن )

خواتین پرتشدد کے خاتمے کا قانون 2016ء میں بنا جس میں سول سوسائٹی، این جی اوز و دیگر کا اہم کردار ہے۔ اس کے بعد سے خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بتدریج بہتری آرہی ہے۔

میرے نزدیک یہ قانون بہت پہلے بننا چاہیے تھا، اگر ایسا ہو جاتا تو آج ملک میں خواتین زیادہ محفوظ ہوتی۔ خواتین کے حوالے سے جائزہ لیں تو گزشتہ 10 برسوں میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بہت زیادہ بات ہوئی، پارلیمان میں بحث ہوئی، پالیسی سازوں نے سوچا اور حکومتوں نے اس پرخاطر خواہ کام کیا ۔

اس میں سب نے اپنی جماعتوں سے بالاتر ہوکر، ملک و قوم کیلئے کام کیا۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے قانون میں اچھی گائیڈ لائنز دی گئی ہیں جن پر کام ہورہا ہے۔

سب سے پہلے ملتان میں وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹر بنایا گیا جہاں ایک ہی چھت تلے متاثرہ خاتون کو تمام سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے جن میں کیس کا اندراج، تفتیش، میڈیکولیگل و دیگر سہولیات شامل ہیں۔

قانون کے مطابق یہ سینٹرز پنجاب کے تمام اضلاع میں بننے تھے مگر بجٹ و دیگر مسائل اور پھر کرونا وباء کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔ اب پنجاب اسمبلی سے ان سینٹرز کے حوالے سے ترمیم منظور ہوچکی ہے جس کے بعد تمام اضلاع میں پہلے سے موجود دارالامان کو ہی ’وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز‘ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس سے کم وسائل میں زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

ان دارالامان کا انفراسٹرکچر دیکھتے ہوئے ایک ہی چھت تلے جتنا ممکن ہوا سہولیات دی جائیں گی، جہاں ممکن نہ ہوا وہاں کے تھانے اور قریبی ہسپتال میں خصوصی ہیلپ ڈیسک قائم کر دیے جائیں گے جہاں متاثرہ خاتون کو فوری سہولت دی جائے گی۔ دارالامان کے منیجرز کو ڈسٹرکٹ پروٹیکشن آفیسر مقرر کیا جائے گا۔

ان سینٹرز کے حوالے سے سٹاف کی تربیت کا آغاز ہوچکا ہے، جلد صوبے بھر میں کام مکمل ہوجائے گا۔ ملتان میں موجود سینٹرکی ہیلپ لائن موجود ہے، تمام اضلاع میں دارالامان بننے کے ساتھ ساتھ اس ہیلپ لائن کا بھی اجراء کیا جائے گا۔ خواتین پر تشدد کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے ہم ضلعی سطح پر ویمن پروٹیکشن کمیٹیاں بنانے جا رہے ہیں۔

جن کی سربراہی ڈی سی او کریں گے جبکہ متعلقہ سرکاری محکموں، سول سوسائٹی، سماجی کارکن و دیگر ماہرین کو اس میں شامل کیا جائے گا، یہ ان کرائسس سینٹرز کی کارکردگی کو مانیٹر بھی کریں گے۔

معاشرہ مرد اور عورت، دونوں مل کر بناتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنی سوچ اورطرز زندگی تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں سب برابر ہوں، سب کو حقوق ملیں، تحفظ حاصل ہو اور زندگی گزارنے کیلئے سازگار ماحول بھی۔ خواتین کے حقوق و تحفظ یقینی بنانے میں آگاہی بہت اہم ہے، اس کے ذریعے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ حکومت اپنا کام کررہی ہے، میڈیا، تعلیمی اداروں، این جی اوز سمیت سب کو آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا اور لوگوں کو آگاہی دینا ہوگی۔

بشریٰ خالق

(نمائندہ سول سوسائٹی )

25 نومبر سے 10 دسمبر تک دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے 16 روزہ آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔

اس مہم میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک سمیت دنیا بھر کی غیر سرکاری تنظیمیں، سماجی کارکن و دیگر اپنا کردار ادا کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو نہ صرف خواتین کے حقوق و تحفظ کے بارے میں آگاہی دی جائے بلکہ خواتین کو زندگی گزارنے کیلئے تشدد سے پاک سازگار ماحول اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔

جب بھی لفظ ’’تشدد‘‘ کا ذکر آتاہے تو اس کے معانی جسمانی پارپیٹ کے لیے جاتے ہیں۔ تعزیرات پاکستان میں بھی تشدد کے معانی یہی ہیں اور پھر زخم کی نوعیت، مقام، گہرائی و دیگر حوالے سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔

گزشتہ 3 دہائیوں میں نفسیات کے شعبے میں کافی کام ہوا ہے، سائکالوجی نے ترقی کی ہے اور تشدد کے حوالے سے بھی نئے معنی دیے ہیں۔ اب تشدد کا مطلب صرف جسمانی تشدد نہیں ہے بلکہ جنسی، جذباتی اورنفسیاتی تشدد بھی تشدد کہلاتا ہے۔ہمیں اس حوالے سے لوگوں کو بتانا ہے، انہیں آگاہی دینی ہے تاکہ تشدد کی تمام اقسام کو روکا جاسکے۔

پنجاب کے گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون میں تشدد کی مختلف اشکال کو تسلیم کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے، اس حوالے سے حکومت شاباش کی مستحق ہے، یقینا اس سے خواتین کی زندگیوں میں بہتری آئے گی۔ اس قانون کے حوالے سے ہمارا ایک شکوہ ہے کہ اس میں مجروم کیلئے سزائیں نہیں سنائی گئیں، اس پر کام ہونا چاہیے۔

گھر امن کا گہوارہ اور محفوظ مقام ہوتا ہے مگر بسااوقات گھر بھی خواتین کے لیے محفوظ نہیں رہتا، انہیں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ جنسی زیادتی کے کیسز بھی گھروں میں رونما ہوتے ہیں جو افسوسناک ہے۔

قانون سازی کی بات کریں تو گزشتہ 8 سے 10 برسوں میں ہمارے ہاں خواتین کے حوالے سے نہ صرف خاطر خواہ بات ہوئی بلکہ بہتر قانون سازی بھی کی گئی جس میں خواتین پر ہونے والے تشدد کو خصوصی اہمیت دی گئی۔

قانون سازی میں حکومت کو موٹیویٹ کرنے میں سول سوسائٹی نے بھی اہم کردار ادا کیا ، حکومت کو سفارشات دیں اور پھر قانون سازی ہوئی مگر المیہ یہ ہے کہ بہترین قوانین اور عملدرآمد کے باوجود خواتین پر تشدد کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے معاشرے کی مجموعی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے، اس پر سنجیدگی سے سوچنا اور کام کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہماری سوچ ہے۔

خواتین کو کمزور اور مرد کو طاقتور سمجھنے ، خواتین کو معاشی طور پر ایمپاور نہ ہونے دینے اور دباؤ میں رکھنے کی سوچ کی وجہ سے خواتین کو مسائل درپیش ہیں اور ان کی حالت میں تبدیلی نہیں آرہی۔ طاقت کی یہ سوچ گھر سے لے کر اداروں تک نظر آتی ہے۔

اس سوچ کو گہرائی سے دیکھنا ہوگا۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 2021ء میں ریپ کے 4 ہزار 329 جبکہ گینگ ریپ کے 269 کیسز رپورٹ ہوئے جو تشویشناک ہے۔ عورت کو جنسی خواہشات پوری کرنے کا سامان سمجھا جا رہا ہے جو باعث شرم ہے۔ خواتین تھانے میں رپورٹ کروانے نہیں جاتی، اعتماد کا فقدان ہے۔

وہاں انہیں سازگار ماحول نہیں ملتا، ایسے کیسز میں انصاف کی شرح صرف 0.2فیصد ہے جس سے صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

پنجاب میں خواتین پر تشدد کے 1 ہزار 415 کیسز سامنے آئے جن میں فیصل آباد سرفہرست ہے جبکہ لاہور میں بھی بڑے مسائل ہیں۔ ملتا ن میں وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹر موجود ہے، وہاں زیادہ کیسز گھریلو تشدد کے آتے ہیں، ادھر بھی مسائل سنگین ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے عالمی ادارے بھی جائزہ لے رہے ہوتے ہیں، ان کا اعداد و شمار اکٹھا کرنے کا اپنا میکنزم ہے جن کی روشنی میں وہ نہ صرف رپورٹ جاری کرتے ہیں بلکہ بہتری کے لیے تجاویز بھی دیتے ہیں۔ ورلڈر اکنامک فورم کی جینڈر پیرٹی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں چار چیزوں کے حوالے سے خواتین کی صورتحال کو دیکھا گیا اور ممالک کی درجہ بندی کی گئی۔

اس رپورٹ کے مطابق 146 ممالک میں سے پاکستان خواتین کی صحت اور تحفظ میں 143، معاشی شمولیت اور مواقع میں 145، تعلیم میں 135 اور سیاسی شمولیت میں 95 ویں نمبر پر ہے جبکہ جنوبی ایشیاء میں ہمارے بعد صرف افغانستان کا نمبر ہے ۔

ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم دنیا میں کتنے پیچھے ہیں اور ہمارے ہاں خواتین کی صورتحال کیا ہے۔ بڑے شہروں میں چند خواتین کی بہتر حالت دیکھ کر کروڑوں خواتین کی حالت کو بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا، ان کیلئے گراس روٹ لیول پر کام کرنا ہوگا۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انسانی حقوق یقینی بنانے کیلئے صدیاں درکار نہیں ہوتی، اس کے لیے وِل چاہیے لہٰذا حکومتوں کو سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ہمیں حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے کام کرنا ہے، خواتین کو مضبوط اور بااختیار بنانا ہے، ان پر تشدد کا خاتمہ کرکے سازگار اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے، اگر ہم نے یہ کر لیا تو دنیا میں خودبخود ہماری رینکنگ بہتر ہوجائے گی ۔

فاخرہ ارشاد

(ڈپٹی ایگزیکٹیو آفیسر پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی )

ہمارے ہاں قوانین بن جاتے ہیں مگر ان پر صحیح معنوں میں بروقت عملدرآمد نہیں ہوتا۔ قوانین کے حوالے سے کراس چیک بھی نہیں کیا جاتا کہ گراس روٹ لیول پر ان قوانین کے کیا اثرات ہورہے ہیںا ور یہ کتنے سود مند ہیں۔

کیا ان سے عام خاتون کی زندگی میں بہتری آرہی ہے؟ کیا ریلیف مل رہا ہے؟ کیا اس کے مسائل حل ہو رہے ہیں؟اگر باوجود قانون سازی کے، خواتین پر تشدد میںا ضافہ ہورہا ہے تو ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا قانون میں مسئلہ ہے یا عملدرآمد میں؟ کرونا وباء کے دوران خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ لوگ بے روزگار ہوگئے اور انہوں نے اپنا غصہ خواتین پر نکالا۔ حکومت کو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی معاشی حالت کا تعلق خواتین پر ہونے والے تشدد سے ہے۔

ہمارے ادارے میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔ ہمارا ماحول خواتین کیلئے محفوظ ہے یہاں 24گھنٹے کام ہوتا ہے۔ اگر تمام اداروں میں خواتین کے لیے ساز گار ماحول ہو اور ہراسمنٹ ایکٹ پر صحیح معنوں میں عملدآمد ہو تو خواتین آگے بڑھ سکتی ہیں۔

پنجاب وویمن پروٹیکشن ایپ کامیابی سے چل رہی ہے، اب تک 2 لاکھ سے زائد ڈاؤن لوڈز ہوچکی ہیں، لاکھوں کالز اور میسجز کا جواب دیا جا چکا ہے اور خواتین کو سہولت فراہم کی گئی ہے۔

پہلے ہمارے پاس صرف 15 کی سروس تھی مگر 2020ء میں اس ایپ کو اپ گریڈ کیا گیا، اس ایپ میں خواتین کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کیلئے پولیس، ایف آئی اے، پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن، دار الامان، خاتون محتسب سمیت دیگر محکموں کو لنک کیا گیا ہے، انہیں متعلقہ محکمے کو ریفر کردیا جاتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں اس ایپ کے حوالے سے آگاہی سیشنز منعقد کے جا رہے ہیں، خواتین کو ان کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے تربیت دی جاتی ہے، اس سے کافی بہتری آئی ہے۔ سال 21میں ء ڈومیسٹک وائلنس کے 1 لاکھ 62 ہزار 378کیسز بذریعہ ایپ رپورٹ ہوئے ہیں۔ سائبر کرائم کے زیادہ کیسز سامنے آرہے ہیں جنہیں ایف آئی اے کو ریفر کر دا جاتا ہے۔

ہم آنے والی کالز کو ریفر کرنے کے بعد ان خواتین سے فیڈ بیک بھی لیتے ہیں جس سے سروس کا معیار مزید بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اس ایپ میں لوکیشن ریویو کی آپشن بھی موجود ہے، خواتین کسی بھی لوکیشن کے بارے میں رائے دے سکتی ہیں۔

خواتین اپنی لوکیشن بھی شیئر کر سکتی ہیں،ا س میں ایمرجنسی نمبر میں اپنے خاندان یا دوست وغیرہ کا نمبر دے سکتی ہیں، کسی ایمرجنسی کی صورت میں اس ایپ پر رپورٹ کرنے سے پولیس و متعلقہ محکموں کے ساتھ ساتھ دیئے گئے ایمرجنسی نمبر پر بھی فوری میسج چلا جائے گا۔ اس ایپ پر خواتین کو قوانین کے بارے میں بھی آگاہی دی جاتی ہے، یہ ایک چھتری ہے جہاں ان کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے ہر ممکن رہنمائی موجود ہے۔

اگر خواتین کو اس ایپ سے فائدہ نہ ہو یا ان کی شکایت کو بروقت ڈیل نہ کیا جائے، پولیس کی جانب سے ان کی مدد نہ کی گئی ہو تو وہ 1787 پر شکایت درج کروا سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔