- پشاور ماڈل کالج میں توہین مذہب کا مبینہ واقعہ، طلبا کی ہنگامہ آرائی
- کرپشن اور ٹیکس چوری کیخلاف کارروائی کیلیے بے نامی ایکٹ فعال
- 2031 تک بجلی پیداوار مقامی ذرائع پر منتقل کرنے کا منصوبہ جاری
- بنگلادیش نے سعودی عرب سے پٹرول ادھار مانگ لیا
- عمران ریاض کے خلاف مقدمہ خارج، رِہا کرنے کا حکم
- ایم ایس سی اسپورٹس سائنسز کرنے والے قومی کرکٹر کون؟
- عمران خان نے جھوٹ، گالی اور گولی کو قومی کلچر بنادیا، مریم نواز
- شیخ رشید کے خلاف کراچی میں بھی مقدمہ درج
- پشاور؛ پولیس لائنز مسجد میں خودکش دھماکے کے بعد نماز جمعہ ادا
- روس نے ہمیں دیگر ممالک سے زیادہ سستا تیل دینے کا کہا ہے، وزیر پیٹرولیم
- پشاور پولیس لائنز دھماکے کی تحقیقات میں بڑی پیشرفت،خاتون شامل تفتیش
- کے الیکٹرک کو 20 روپے رعایت کے ساتھ بجلی دے رہے ہیں، خرم دستگیر
- موٹر وے پر کار سواروں کا پولیس آفیسر پر تشدد
- لاڑکانہ میں یو ایس ایڈ کا چاول دکانوں پر فروخت، ویڈیو وائرل
- شان مسعود کو میچز کھلانے کیلئے ہیڈکوچ، کپتان کو کالز کی گئیں، سابق چیئرمین
- سندھ ہائیکورٹ؛ افغان کیمپوں میں سہولیات فراہمی کی درخواست مسترد
- قرضوں کا بوجھ اور مشکل فیصلے
- آئی ایم ایف بہت ٹف ٹائم دے رہا ہے، شرائط ناقابل تصور ہیں، وزیراعظم
- پاسپورٹ کی طلب میں شدید اضافے سے پاسپورٹ پرنٹنگ دباؤ کا شکار
- والد کو موبائل دینا مہنگا پڑ گیا، 6 سالہ بیٹے نے ڈھائی لاکھ کا کھانا آرڈر کردیا
ساتھی سے لڑائی، پی سی بی کے ڈائریکٹر کو’’علامتی‘‘ سزا

دانستہ حملے کا الزام سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے باوجود بھی مسترد فوٹو فائل
کراچی: ساتھی پر مبینہ حملے اور نازیبا زبان استعمال کرنے کے الزام پر پی سی بی نے ڈائریکٹر میڈیا کو ’’علامتی‘‘ سزا دے کر چھوڑ دیا،وہ ایک ہفتے تک بغیر تنخواہ معطل رہیں گے۔
گزشتہ ماہ پی سی بی کے ڈائریکٹر میڈیا اینڈ کمیونی کیشن سمیع الحسن برنی پر کمرشل ڈائریکٹر عثمان وحید نے جسمانی حملے اور نازیبا زبان کے استعمال کاالزام عائد کیا تھا، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود تھی۔
پی سی بی نے ایک لا فرم کے وکلا کا کیس کی سماعت کیلیے تقرر کیا۔ انھوں نے اپنا کام مکمل کر کے رپورٹ چیئرمین بورڈ رمیز راجہ کے سپرد کر دی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سمیع الحسن برنی پر نازیبازبان کے استعمال کا الزام ثابت ہو گیا، البتہ دانستہ حملے کا الزام سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے باوجود بھی مسترد کر دیا گیا، انھیں علامتی سزا دے کر چھوڑ دیا گیا، وہ ایک ہفتے تک بغیر تنخواہ معطل رہیں گے۔ اس کیس میں اپنے دفاع کیلیے انھوں نے ایک مشہور وکیل کی خدمات حاصل کی تھیں۔
انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی واقعہ معمولی ہے،دفتر میں کام کے اوقات میں غیراخلاقی زبان استعمال کرنے سے ماحول میں منفی اثرات پڑتے ہیں۔
کمیٹی کے خیال میں یہ اس قسم کا صرف ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ متواتر جارحانہ رویے کا ایک حصہ تھا، شکایت کنندہ سے کوئی براہ راست تعلق نہ رکھنے والے 3 ایسے گواہان جو ان سے پہلے پی سی بی میں ملازمت کرتے تھے انھوں نے بھی اس حوالے سے بتایا۔اس وجہ سے کمیٹی سمیع الحسن برنی کو ملازمت سے 7 کاروباری دنوں کیلیے بغیر تنخواہ معطل کرنے کی سفارش کرتی ہے، 52 ہفتوں تک یہ سزا لاگو رہے گی۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس دوران ان کے رویے پر نظر رکھی جائے گی،کسی اور خلاف ورزی کی صورت میں مزید سخت ایکشن لیا جا سکے گا۔
دوسرے واقعے کے حوالے سے کمیٹی کی رپورٹ میں درج ہے کہ دفتر میں بورڈ روم کے باہر حملے کے الزام میں دونوں ہی فریقین اپنے دعوے کی صداقت کیلیے کوئی گواہ پیش نہ کر سکے۔
واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا بار بار جائزہ لیا گیا، متاثرہ آفیشل کا دعویٰ تھا کہ 20اکتوبر کو جو دھمکی دی گئی اس پر 24 تاریخ کو عمل ہوا،یہ ارادی اور طے شدہ حملہ تھا،انھیں دھکا دے کر نیچے گرایا گیا جس سے متعدد چوٹیں لگیں۔
دوسری جانب سمیع کا کہنا تھا کہ وہ اپنے سابقہ رویے پر معذرت کیلیے عثمان کے پاس گئے تھے۔ کمیٹی بھی سمجھتی ہے کہ اگر یہ جان بوجھ کر کیا گیا حملہ ہوتا تو عام کواریڈور میں کئی ساتھیوں کی موجودگی میں نہیں کیا جاتا،انھوں نے تو شکایت کنندہ کو زمین سے اٹھانے کی بھی کوشش کی،اس لیے حملے کا الزام ثابت نہیں ہوتا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی سی بی کے ایک اعلیٰ افسر (رمیز راجہ نہیں) سمیع برنی کے دفاع میں خاصے سرگرم رہے،گورننگ بورڈ کے ایک بااثر رکن نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔
واضح رہے کہ سمیع الحسن برنی ماضی میں آئی سی سی کیلیے بھی میڈیا ڈپارٹمنٹ میں کام کرچکے، پی سی بی کے موجودہ سی ای او فیصل حسنین بھی اس وقت اسی ادارے میں ملازم تھے۔
کیس کے حوالے سے مزید تفصیلات جاننے کیلیے جب نمائندہ ’’ایکسپریس‘‘ نے پی سی بی کے ڈائریکٹر میڈیا سے رابطہ کیا تو انھوں نے 24 گھنٹے سے زائد وقت گذرنے کے باوجود کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔