ایسا نہیں تھا میرا کراچی

حامد ولی  بدھ 30 نومبر 2022
اس تہذیبی شہر کی پہچان ’’گٹکا، ماوا‘‘ بنادی گئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس تہذیبی شہر کی پہچان ’’گٹکا، ماوا‘‘ بنادی گئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

کراچی کی بھی جناب پہلے کیا شناخت ہوتی تھی۔ لوگ اس کو کبھی غریبوں کی ماں کہتے تو کسی کےلیے یہ مواقعوں کی سرزمین تھی۔ کیا تہذیب تھی اس شہر کی۔ آپ، جناب، قبلہ اور حضور کہہ کر لوگوں کو پکارا جاتا تھا۔ یہاں کی لڑائیاں بھی خوب ہوتی تھیں۔ ایسے نفیس لوگ تھے کہ ’’تم اور تو‘‘ کہنے کو بھی گالی سمجھتے تھے۔ لیکن یہ سب گزرے زمانے کی باتیں ہیں۔ وہ زمانہ جب محبت کا چلن عام اور نفرتوں کا بیوپار مفقود تھا۔ جیب میں پیسے نہیں تھے لیکن دل محبتوں سے بھرے ہوئے تھے۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ کراچی کے مزاج میں بگاڑ آنا کہاں سے شروع ہوا۔ مختلف لوگوں کی اس بارے میں اپنی اپنی آرا ہیں۔ کسی کو لگتا ہے کہ جنرل ضیا الحق کا مارشل لا کراچی کو کھا گیا تو کسی کے خیال میں ایم کیو ایم کی سیاست شہر قائد کے زوال کی وجہ ہے۔ ہاں یہ سب مانتے ہیں کہ کلاشنکوف کلچر اور لسانی و فرقہ وارانہ آگ ضیا الحق کے دور میں ہی پروان چڑھی اور اس سے سب سے زیادہ متاثر کراچی ہوا۔

کراچی کے لوگوں میں اصل تبدیلی 80 کی دہائی کے بعد آنا شروع ہوئی۔ ان کے اندر ایک ایسی سوچ پنپنا شروع ہوگئی جس میں ان کا خیال تھا کہ وہ زیادتیوں کا شکار ہیں اور ان کو حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ایک پوری نسل اس کی لپیٹ میں آگئی اور یہ سوچ کراچی کو اس کے ’’اصل‘‘ سے جدا کرگئی۔ ذرا سوچیے وہ لوگ جو قمیض کے بٹن کو کھلا چھوڑنا بھی بدتہذیبی سمجھتے تھے وہ کھلے گریبانوں کے ساتھ بازاروں میں نظرآنے لگے۔ آپ، جناب کی جگہ ’تو‘ اور ’تیرا‘ جیسے الفاظ نے لے لی۔ وہ شہر جو اردو کا مرکز ہوتا تھا وہاں اس قومی زبان کا وہ حال ہوگیا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج اگر اردو زندہ ہے تو اس کی اصل وجہ اہل پنجاب ہیں۔ اس زبان کی سب سے زیادہ ٹانگ کراچی میں توڑی گئی۔

جب زبان بدلی تو لہجے بھی بدل گئے اور پھر طرز زندگی بھی بدل گیا۔ ان عوامل کا سب سے زیادہ اثر کراچی کے نوجوانوں پر پڑا۔ وہ شہر جو تعلیم میں سب سے آگے ہوتا تھا اس شہرکے نوجوانوں میں نقل کلچر اس طرح پروان چڑھا کہ وہ وقت بھی آگیا کہ امتحانات میں جن سینٹرز میں تھوڑی سختی ہوتی تھی تو 60 فیصد سے زائد طلبا اپنی امتحانی کاپیاں خالی ہی چھوڑ کر واپس آجاتے تھے۔ آپ 1990 کے بعد سے دیکھ لیجیے، یہاں کے ماسٹرز اور گریجویٹ کیے ہوئے نوجوانوں کا لب و لہجہ اور طرز زندگی دیکھ لییجیے، کہیں سے بھی محسوس نہیں ہوتا ہے کہ تعلیم ان کو چھو کر گزری ہے۔ میں یہاں ان نوجوانوں کی بات نہیں کررہا جو اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھے اور انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنے تعلیمی مدارج مکمل کیے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔

تعلیم کے اس فقدان کا شکار کراچی کی نوجوان نسل جو ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائم کے سائے تلے جوان ہوئی، اس میں نفسیاتی بگاڑ جنم لینے لگا اور ان کو فرار کےلیے کوئی راستہ چاہیے تھا۔ کہتے ہیں کہ پان کھانا ہندوستان کی ایک تہذیب ہے لیکن اس کا جس بری طرح سے بیڑا غرق کراچی میں کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ چلیے پان تک تو بات ٹھیک تھی لیکن یہ کیسا ظلم ہے کہ اب اس تہذیبی شہر کی پہچان ’’گٹکا، ماوا‘‘ بنادی گئی ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے آپ کو کراچی کے نوجوانوں کے منہ ہمیشہ چلتے ہوئے نظر آئین گے۔ ایسے ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ مثلاً آپ کسی بس میں سفر کررہے ہیں اور وہاں کوئی صاحب جیب سے ماوے کا پیکٹ نکالیں گے اور ابھی اس کو کھانے کی تیاری کررہے ہوں گے تو برابر والے صاحب بلا کسی تکلف کہیں گے کہ ’’دو دانے مجھے بھی دینا‘‘ ایسا لگتا ہے کہ پیٹی بھائیوں کی طرح اب پورا شہر ’’گٹکا، ماوا بھائی‘‘ بن گیا ہے۔ کسی کو کوئی فکر نہیں کہ اس کے صحت پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بس کراچی والوں کو اپنے اسٹریس سے نجات کےلیے کوئی فرار چاہیے اور وہ اب چاہے گٹکے ماوے کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔

یہاں مجھے پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال یاد آرہے ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے جو یادگار پریس کانفرنس کی تھی اس میں اپنے سابق قائد کےلیے ان کا ایک جملہ بہت زیادہ مشہور ہوا تھا، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ شخص ہمیں کہاں سے کہاں لے آیا؟‘‘۔ میں مصطفیٰ کمال کے جملے میں تھوڑی ترمیم کرتے ہوئے بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ’’تعلیم کا فقدان ہمیں کہاں سے کہاں لے آیا ہے‘‘۔

ہمیں کراچی کے نوجوانوں سے اردو کے ایسے ایسے الفاظ سننے کو مل رہے ہیں کہ ہم نے تمام لغات چھان لیں لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ ہمیں تہذیب کے ایسے نمونے دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ عقل حیران ہے کہ ’’یا الٰہی یا کیا ماجرا ہے‘‘۔ مثلاً گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو کو ہی دیکھ لیجیے کہ کس طرح ایک نوجوان سڑک سے اپنی کوئی چیز اٹھانے کی کوشش کررہا تھا کہ اچانک ایک دوسرا نوجوان اپنی موٹرسائیکل پر آتا ہے اور وہ چیز اٹھا کر آگے لے جاتا ہے اور پھر تھوڑی دور سے واپس آکر اس کے حوالے کردیتا ہے۔ وہ نوجوان اظہارتشکر کے طور پر اپنی جیب سے ماوا نکال کر اپنے ’’محسن‘‘ کو پیش کردیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ وڈیو وائرل ہے اور کراچی والے اس فخریہ جملے کے ساتھ اس کو شیئر کررہے ہیں کہ ’’ایسے ہیں کراچی والے‘‘ جبکہ بخدا کراچی والے ایسے نہیں تھے۔

تو جناب! اب تو بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ جیسے جیسے وقت بدل رہا ہے کراچی بھی اسی رفتار سے بدل رہا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ بدلنا کوئی اچھے رنگ میں نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کون کرے گا۔ ان کو تعلیم کے حقیقی مفہوم سے کون روشناس کرائے گا؟ نہ ہمارے علمائے دین کے پاس اس کام کےلیے وقت ہے اور نہ ہی ہمارے سیاستدان اس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ رہ گئے والدین جو گھروں میں ان کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں، وہ خود موبائل اور انٹرنیٹ کی دنیا میں اتنا مگن ہوگئے ہیں کہ ان کو لگتا ہے ان کے بچوں کی تربیت بھی اب ’’گوگل‘‘ ہی کردے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حامد ولی

حامد ولی

بلاگر گزشتہ آٹھ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور کراچی پریس کلب کی رکنیت رکھتے ہیں۔ آج کل این این آئی کےلیے بطور اسٹاف رپورٹر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔