پاکستان کو درپیش چیلنجز

سلمان عابد  منگل 29 نومبر 2022
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تقرری آئین و قانون کے مطابق ہوچکی ہے۔ البتہ ان کی تقرری کو جس طرح سیاست کا موضوع بنایا گیا، جو تجزیے، تبصروں اور افواہوں کا کھیل سجایا گیا، وہ کسی بھی طور پر ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں تھا۔

کچھ لوگ تو اس کھیل میں نئی مہم جوئی کی تلاش میں تھے مگر ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ دونوں کی تقرری میں سنیارٹی کے اصول کو بھی مدنظر رکھا گیا جو اچھی روایت ہے۔

یہ تقرریاں ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہیں جب ملک کا سیاسی بحران کافی سنگین ہے۔ تجزیہ نگار موجود بحران کو محض سیاسی نہیں بلکہ معاشی بحران کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کو داخلی، خارجی، علاقائی اور معاشی محاذ پر کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

ملک میں محاذ آرائی میں بھی کمی نہیں آرہی ہے۔ یہ محاذ آرائی معیشت کے لیے زہر قاتل بن رہی ہے جو ریاست کے مفاد میں نہیں ہو سکتی ۔

نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد دونوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور اصول پسندی مسلمہ ہے اور سب اسے تسلیم کرتے ہیں۔ان تقرریوں کے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامہ پر چھائی دھند ختم ہوجائے گی اور حکومت کو معیشت کے مسائل بھی کم کرنے کا موقع مل سکے گا ۔

کیونکہ سیاسی استحکام کی کنجی ہی ہمیں معاشی استحکام کی طرف لے کر جاسکتی ہے۔ اسی کنجی کی بنیاد پر ہماری ریاست اور نئی عسکری قیادت علاقائی اور عالمی سطح کے چیلنجز سے بھی بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے ۔

اس وقت پاکستان کو چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا مسئلہ سیاسی محاذ آرائی اور معاشی مشکلات ہیں۔ تحریک انصاف اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ ہے ، اسے ختم ہونا چاہیے تاکہ جذباتی نوجوان نسل کو خیالی دنیا سے عملی دنیا تک لانے کا عمل شروع ہو۔یہ تاثر کہ ہمارے سیاسی معاملات میں اوپر سے لے کر نیچے تک اسٹیبلیشمنٹ کا کردار بہت زیادہ حد تک بڑھ گیا ہے، اس تاثر یا رائے کو درست سمت میں لے جانا ہوگا۔

دوئم، اسٹیبلیشمنٹ نے ادارہ جاتی سطح پر یہ طے کرلیا ہے کہ مستقبل میں وہ کوئی سیاسی کردار ادا نہیں کرے گی۔ اعلان اور عملی اقدامات میں فرق ہوتا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ اسٹیبلیشمنٹ اس پالیسی پر کس حد تک عمل جاری رکھتی ہے۔سوئم، اگلا برس ملک میں نئے انتخابات کا ہے۔ہمارے ہاں عمومی طور پر انتخابات کی شفافیت اور اس میں سیاسی مداخلت پر ایک لمبی کہانی موجود ہے۔

اصل اور بڑا امتحان 2023 کے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔یہ عام انتخابات کا معرکہ ثابت کرے گا کہ اسٹیبلیشمنٹ کس حد تک اے پولیٹیکل ہے۔ چہارم، ملک میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنا، بلوچستان کے لوگوں کو قومی دھارے میں لانا، فاٹا اور وزیرستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

ایک بات طے ہے کہ کوئی بھی سیاسی فریق یا ادارہ سیاسی تنہائی میں ملک کے مسائل کو حل نہیں کرسکتا۔ یہ عمل مختلف فریقین کی مشترکہ کوششوں سے ہی جڑا ہوا ہے۔

سیاسی قیادت کو اپنے بیانات کو ایشوز تک محدود رکھنا چاہیے ، روزانہ کی بنیاد پر بیانات ، ٹوئٹس اور ٹی وی انٹرویوز مسائل اور تنازعات کو پیدا کرتے ہیں، انھیں حل نہیں کرتے ۔اسی طرح اینکرز، تجزیہ کار، کالم نگار اور رپورٹر ز جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں،یہ لوگ بلاوجہ اداروں کو اپنی گفتگو کا حصہ بناتے ہیں۔

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی درکار ہے کیونکہ جو تضاد اور تقسیم معاشرے میں موجود ہے اس سے نمٹے بغیر آگے کا راستہ مشکل ہوگا۔اس لیے مسئلہ محض ردعمل کی حکمت عملی سے جڑا نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر اور مسائل کی زیادہ گہرائی سے تجزیہ کے بعد اتفاق رائے پر مبنی ایجنڈا درکار ہے اور اگر ایسا کیا جاسکے تو تو یہ ہی ملکی مفاد میں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔