- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
- جواہرات کے شعبے کو ترقی دیکر زرمبادلہ کما سکتے ہیں، صدر
- پاکستان کی سیکنڈری ایمرجنگ مارکیٹ حیثیت 6ماہ کے لیے برقرار
- اعمال حسنہ رمضان الکریم
- قُرب الہی کا حصول
- رمضان الکریم ماہِ نزول قرآن حکیم
- پولر آئس کا پگھلاؤ زمین کی گردش، وقت کی رفتار سست کرنے کا باعث بن رہا ہے، تحقیق
- سندھ میں کتوں کے کاٹنے کی شکایت کیلئے ہیلپ لائن 1093 بحال
دباؤ کے حربے
پی ٹی آئی نے پنجاب میں اپنی حکومت ہوتے ہوئے عمران خان پر حملے کی اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج نہ ہونے کے خلاف سپریم کورٹ اسلام آباد اور اس کی چاروں صوبوں کی رجسٹریوں میں درخواستیں جمع کرائیں اور اپنے تمام ارکان پارلیمنٹ کو ہر جگہ موجود کرا کر ایک ہی مقصد کے لیے درخواستیں جمع کرائیں جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ہر کوئی حیران ہے کہ پنجاب میں اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے یہ نوبت کیوں آئی کہ عمران خان کو دباؤ ڈالنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا پڑا کیونکہ ان کی اپنی حکومت میں ایک پولیس افسر اتنا طاقتور ثابت ہوا کہ سابق وزیر اعظم اپنی مرضی کی ایف آئی آر داخل نہ کرا سکا۔
پولیس نے جو ایف آئی آر اپنی مدعیت میں 24 گھنٹے کے اندر درج کی اس کے اندراج کا حکم سپریم کورٹ نے دیا تھا اور اندراج کی رپورٹ بھی طلب کی تھی جس کی وجہ سے پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔
ایسے معاملات میں پولیس پہلے مدعی سے میڈیکل رپورٹ اسپتال سے لانے کے لیے لیٹر جاری کرتی ہے مگر عمران خان طریقہ کار کے برعکس پہلے تھانے گئے نہ انھوں نے متعلقہ تھانے سے لیٹر بنوایا اور ایک طویل سفر کرکے اپنے ذاتی اسپتال لاہور پہنچ گئے جہاں ان کے اپنے ڈاکٹر تھے اور وہاں انھوں نے مرضی کی میڈیکل رپورٹ بنوائی ہوگی جس کو دیکھ کر ہی پولیس مقدمہ درج کرتی ہے اور قانونی طور پر ہی دفعات لگائی جاتی ہیں اور ملک بھر میں یہی طریقہ رائج ہے۔
فائرنگ سے عمران خان کو لگے زخم اگر تشویش ناک اور جان لیوا ہوتے تو پہلے انھیں قریبی اسپتال لے جایا جاتا۔ عمران خان کے اس اقدام سے ان پر فائرنگ سے لگنے والی گولیاں مشکوک ہوگئیں جو پہلے چار پھر تین بتائی گئیں مگر وفاقی وزیر داخلہ کا دعویٰ ہے کہ وہ گولیاں نہیں چھرے تھے یا دو گولیاں لگی ہوں گی جس کی تصدیق غیر جانبدار میڈیکل بورڈ کرسکتا ہے مگر عمران خان اس پر تیار نہیں اور ان کا زور اپنی مرضی کی ایف آئی آر کے اندراج پر ہے ۔
پولیس اونچی سفارش اور بھاری رشوت پر ہر قسم کی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے مشہور ہے مگر یہاں پنجاب حکومت کا دباؤ چلا نہ ہی رشوت لی جاسکتی تھی ،اس لیے معاملہ پیچیدہ بنا دیا گیا اور ایک ایف آئی آر کا سیدھا سا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا دیا گیا جب کہ سپریم کورٹ کسی کی درخواست نہ ہونے کے باوجود پولیس کو حکم دے چکی تھی اور یہ حکم نہیں تھا کہ ایف آئی آر کسی کی مرضی یا درخواست پر درج کی جائے۔ عمران خان کسی ثبوت کے بغیر ملک کی تین اہم شخصیات کو نامزد کرانا چاہتے ہیں مگر ان کی اپنی حکومت ہوتے ہوئے عمران خان کا دباؤ پولیس نے قبول نہیں کیا جس کی وجہ سے عمران خان کامیاب نہ ہو سکے۔
فائرنگ کے ملزم کے موقع پر پکڑے جانے کے باوجود عمران خان اہم شخصیات پر دباؤ کے لیے ان کے نام بغیر ثبوت لے رہے تھے اور ان کی لمبی پلاننگ تھی مگر پولیس دباؤ میں نہیں آئی کیونکہ نواب محمد احمد خان قتل کی ایف آئی آر اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو کے نام کے باعث جو کام دکھا چکی تھی اور سابق وزیر اعظم کو اپنی برطرفی کے بعد پھانسی چڑھنا پڑ گیا تھا جس کی وجہ سے پولیس اب محتاط ہے اور کوئی دباؤ قبول نہیں کر رہی اور اسے یہ بھی خوف نہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور آیندہ بھی عمران خان وزیر اعظم بن سکتے ہیں یہ کیس قتل کا نہیں اقدام قتل کا ہے پھر بھی پولیس نے دباؤ قبول نہیں کیا۔
سیاست میں دباؤ کے لیے ہر سیاستدان اور حکومت ہی نہیں بلکہ اہم ادارے بھی دباؤ کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ آصف زرداری نے سندھ میں اپنے اقتدار میں اس وقت کے آئی جی پولیس رانا مقبول احمد کے خلاف اپنی زبان کٹوانے کی رپورٹ درج کرائی تھی کہ (ن) لیگ کی حکومت میں ایسا ہوا تھا اور آصف زرداری شریفوں کو دباؤ میں لانے کے لیے ایسا کر رہے تھے مگر ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود کچھ نہیں ہو سکا تھا کیونکہ پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت تھی اور آصف زرداری کی خواہش پوری نہیں ہوسکی تھی۔
عمران خان کو پتا ہے کہ ان پر حملہ ایک شخص کا انفرادی فعل ہے جو جرم تسلیم بھی کر چکا ہے مگر عمران خان دباؤ کے لیے مرضی کی ایف آئی آر چاہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ حکومت اپنے مخالفین پر دباؤ کے لیے ان کے بعض معاملات کا ریکارڈ رکھتی ہے تاکہ ضرورت پر کام میں لایا جاسکے اور اس سے اپنی مرضی کا کام لیا جاسکے۔
بعض معاملات میں ایف آئی آر درج کرکے سیل کر دی جاتی ہے تاکہ بعد میں اسے اوپن کر کے کام میں لایا جاسکے۔ عمران خان پر الزام ہے کہ اپنے دور میں انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین پر نیب سے ایسے مقدمات بنوائے تھے جو محض انتقام کے لیے تھے اور عدالتوں میں ثابت نہ ہونے پر تمام ملزمان ضمانت پر بری ہوگئے تھے۔ بعض پر اب بھی مقدمات زیر سماعت ہیں اور وہ عدالتوں میں اب بھی حاضریاں بھگت کر پریشان ہو رہے ہیں۔
حکومتیں اپنے مخالفین، سیاسی جماعتیں دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں کو اپنی پارٹی میں شامل کرانے، بڑے افسر چھوٹے افسروں کو دباؤ میں لانے کے لیے، بااثر ادارے بااثر افراد کو اپنی پسندیدہ پارٹی میں شامل کرانے اور وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے اور عام لوگ بھی بعض لوگوں کو دباؤ میں لانے کے لیے اور اپنی مرضی کے کام کرانے کے لیے انھیں مختلف ہتھکنڈوں اور حربوں کے استعمال سے مجبور کردیتے ہیں کہ وہ ان کے کہنے کے مطابق ناجائز کام کردیں۔
جہاں رشوت سے کام نہ چلے وہاں دباؤ کے لیے حربے استعمال ہوتے ہیں خواہ وہ غیر قانونی و غیر اخلاقی ہی کیوں نہ ہوں بس ان کا مطلب اپنا کام نکلوانا ہوتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔