اسمبلیاں توڑنے کا کھیل

مزمل سہروردی  منگل 29 نومبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عوامی احتجاج کی ناکامی کے بعد پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا ہے۔

اس ضمن میں انھوں نے مشاورت شروع کر دی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جمعرات تک کوئی حتمی اعلان کر دیا جائے گا۔

ویسے تو عمومی رائے یہی ہے کہ اسمبلیاں ٹوٹنے تک نوبت نہیں جائے گی، لیکن بہرحال اسمبلیاں توڑنے کی طاقت عمران خان کے پاس ہے۔کے پی میں تو ان کے اپنے وزیر اعلیٰ ہیں اور پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی نے اعلان کیا ہے کہ عمران خان کہیں گے تو اسی وقت اسمبلی تحلیل کر دوں گا۔ حالانکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ چوہدری پریز الٰہی کا اعلان بتا رہا ہے کہ ٹوٹنی نہیں ہیں۔ بس اعلان ہی ہے۔

پی ڈی ایم کی کوشش ہو گی کہ کم از کم پنجاب اسمبلی بچائی جائے۔ کے پی اگر ٹوٹتی بھی ہے تو کوئی بات نہیں۔ لیکن پنجاب نہیں ٹوٹنی چاہیے۔ اگر پنجاب اسمبلی بچا لی جائے گی تو کے پی خود بخود بچ جائے گی۔

اس لیے محاذ جنگ پنجاب میں ہی ہوگا۔ پی ڈی ایم کی جانب سے پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن پنجاب کی عددی اکثریت کو دیکھیں تو جب تک ق لیگ ادھر آنے کا فیصلہ نہ کرے تب تک پنجاب میں کوئی گیم نہیں بن سکتی۔

سپریم کورٹ میں چوہدری شجاعت کی نظر ثانی کی درخواست ابھی تک سنی نہیں گئی۔ اس لیے وہ کارڈ بھی نہیں چل سکتا۔ جہاں تک عدم اعتماد کی بات ہے اس میں پی ڈی ایم نے ووٹ پورے کرنے ہیں۔ جو مشکل ہے۔ صرف کچھ وقت ہی مل سکتا ہے۔ وہ بھی شاید ممکن نہیں ہوگا۔ اگر چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے رہیں گے تو عدم اعتمادکا کوئی آپشن نہیں ہے۔ منحرف رکن کا ووٹ گنا ہی نہیں جا سکتا۔ اس لیے عدم اعتماد کا کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔

لوگ گورنر راج کی بھی بہت بات کر رہے ہیں۔ لیکن اس میں بھی صدر کی منظوری درکار ہوگی۔ صدر گورنر کی سمری روک لیں گے اور اس دوران اسمبلی ٹوٹ جائے گی۔

تو پھر کیا کیا جائے گا۔ اس لیے جب تک صدر مملکت ساتھ نہ ہوں پنجاب میںگورنر راج ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ صدر مملکت اور عمران خان کے درمیان کوئی اچھے تعلقات کی خبریں نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی کیا وہ تحریک انصاف کی حکومت پر گورنر راج کی سمری پر دستخط کر دیں گے۔ مجھے نہیں لگتا وہ لٹکائیں گے۔ اور اس دوران پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی۔اس لیے گورنر راج بھی کوئی ممکن آپشن نہیں ہے۔

ایسے میں صرف ایک آپشن باقی رہ جاتا ہے کہ گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں۔ اور اس مقصد کے لیے پنجاب اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلائیں۔ اس صورت میں تحریک انصاف کو اپنے ارکان پورے کرنا ہونگے۔ اگر چار پانچ ارکان ادھر ادھر ہو جاتے ہیں اور پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے تو پھر پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے نئے انتخاب کا معاملہ شروع ہو جائے گا۔

اس طرح پنجاب میں ایک بحران تو بن جائے گا لیکن پنجاب اسمبلی ٹوٹنے سے بچ جائے گی۔ تاہم اب اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر تحریک انصاف کے ہیں ان کو بھی سائیڈ پر کرنے کا کوئی فارمولہ کرنا ہوگا۔ بعدازاں نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں کیا کوئی ایسے ارکان ہونگے جو اپنی قربانی دینے کے لیے تیار ہونگے۔ یہ مشکل سوال ہیں۔ کیونکہ پہلے والوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوا۔ لیکن اسمبلی بچانے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کافی عرصہ سے اس آپشن پر سوچ بچار کر رہی تھی۔ جنوبی پنجاب سے کچھ لوگ رابطے میں بھی ہیں۔ لیکن کسی اشارے کا انتظار تھا۔ کیا اب وہ موقع آگیا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ باجوہ صاحب رکاوٹ تھے۔ اب وہ رکاوٹ ختم ہو گئی ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ جنوبی پنجاب سے جس فاروڈ بلاک کی بازگشت بہت عرصہ سے سنی جا رہی تھی اس کی نقاب کشائی کا وقت آگیا ہے۔ اس لیے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کے کھیلنے کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔ اب ان کی اننگ شروع ہو گی۔

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ اگر پی ڈی ایم اور بالخصوص ن لیگ پنجاب کو بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر تحریک انصاف از خود کے پی کی اسمبلی نہیں توڑے گی۔ اس لیے محاذ جنگ پنجاب ہے۔ اگر پنجاب بچ گیا تو کے پی توڑناایک گناہ بے لذت ہوگا۔ صرف کے پی توڑنے کا سیاسی نقصان ہوگا۔

ویسے بھی مولانا فضل الرحمٰن چاہیں گے کہ کے پی میں انتخابات ہو جائیں۔اے این پی بھی یہی چاہے گی۔ تا ہم کے پی میں فاروڈ بلاک کی بھی بازگشت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ لوگ عدم اعتماد میں ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ اس لیے وہاں بھی اعتماد کا ووٹ ہی واحد آپشن ہوگا۔ لیکن وہاں نمبر گیم پنجاب سے مشکل ہے۔ اس لیے وہاں کے پی کے اندر سے نئے وزیر اعلیٰ کا لانا ہی ایک آپشن ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ بھی ابھی ممکن نظر نہیں آرہا۔

کیا اس کھیل میں پنجاب اور کے پی کو نئے وزیر اعلیٰ مل جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں اگر ملک کو نئے انتخابات کی طرف ابھی نہیں جانا ہے۔ اگر ریاستی اداروں کا یہ خیال ہے کہ ملک ابھی فوری طور پر نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا تو پھر دونوں صوبوں میں نئے وزیر اعلیٰ آجائیں گے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ عمران خان کو اندازہ تھا کہ لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد ان کی صوبائی حکومتوں پر حملہ ہوگا۔ اس لیے اس حملے کو روکنے یا اس سے پہلے اسمبلیوں کو توڑنے کا اعلان اس حملے کو ناکام بنانے کی ایک حکمت عملی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی بری حکمت عملی نہیں ہے۔ پنجاب میں تبدیلی کی افواہیں تو بہت گرم تھیں۔ اسی لیے بجٹ سے ابھی تک پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی ختم نہیں کیا گیا۔ اقتدار بچانے کے لیے قوم کے اربوں لگا دیے گئے ہیں۔ اپوزیشن ارکان کو معطل کیا جا رہا ہے۔ سارا کھیل پنجاب بچانے کے لیے ہی ہے۔

کیا عمران خان دیر نہیں کر رہے۔ وہ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کی طرف سے تاخیر ان کے مخالفین کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع دے گی۔ انھیں چاہیے تو یہ تھا کہ راولپنڈی میں دونوں وزیر اعلیٰ ساتھ بٹھاتے اور دونوں اسمبلیاں توڑنے کی سمری لہراتے کہ ہم نے پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دی ہیں۔

کیا مشاورت کے لیے دن کم تھے۔ اتنے دن تھے۔ وہ چاہتے مشاورت توکر سکتے تھے۔ انتظار کس کا ہے۔ کیا رکاوٹ ہے۔ ابھی جمعرات تک انتظار کا کہا جا ریاہے۔ سوال یہ ہے کہ جمعرات تک انتظار کیوں؟

عمران خان کے اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ کو تحریک انصاف کے اندر کوئی خاص حمایت حاصل نہیں۔ ان کے جیتنے والے گھوڑے سمجھتے ہیں کہ جیتنے کے لیے کہیں نہ کہیں اسٹبلشمنٹ کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ ان کے ماضی کے تجربات انھیں یہی سکھاتے ہیں۔ آپ بے شک کہہ دیں کہ وہ اب نیوٹرل ہیں الیکشن لڑنے اور جیتنے والے گھوڑے یہ نہیں مانتے۔ اس لیے عمران خان کا اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ بھی ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ لیکن کون یہ جرات کرے گا۔

ایک شنید یہ ہے کہ کافی لوگ جرات کریں گے۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ اسی لیے عمران خان کو بھی جلدی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ اگر انتخابات میں دیر ہو گئی تو کھیل ان کے ہاتھ سے بھی نکل جائے گا۔ جلد انتخابات میں ہی ان کی بچت ہے، لیکن یہ کھیل اب آخری مرحلہ میں ہے۔ عمران خان نے آخری پتے کھیل دیے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔