مختار مسعود صاحب کی مسحورکن تحریریں (دوسری قسط)

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 30 نومبر 2022
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے گروہوں کے بارے میں لکھتے ہیں،’’ مندر اور کلیسا کے بعد کچھ مخالفت ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں سے بھی ہوئی تھی۔ ان مسجدوں میں قوم پرست اذان تو دیتے تھے مگر وہاں جماعت اور نماز کا کوئی انتظام نہ تھا۔

ایک قوم پرست مسلمان لیڈر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو جتنا ایمان گاندھی پر تھا، اگر اسی قدر اﷲ پر ہوتا تو ولی ہوتے۔ ایک اور صوبے میں وہاں کے مسلمان وزیراعظم کے بارے میں یہی بات انگریزوں کے حوالے سے کہی جاتی تھی۔ علماء کا ایک قافلہ بھی راہ میں بھٹک گیا۔

شورِناقوس میں وہ بانگِ درا سے ناآشنا رہے‘‘۔ آزادی سے چار ماہ قبل لاہور میں کُل ہند مسلم مجلس نے اینٹی پاکستان کانفرنس منعقد کی۔ پاکستان کے قیام سے تین ماہ پہلے جمعیۃالعلماء ہند کے صدر نے قائداعظم کو لکھاکہ تمام مسلمان جماعتوں کا ایک جلسہ ہونا چاہیے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ مسلمانوںکا مطالبہ کیا ہے۔ قائداعظم نے کہا،’’آپ لیگ میں شامل ہوجائیں، مطالبہ خود بخود آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔‘‘

’’ایک دن وائسرائے نے بھی اس پر گرہ لگائی کہ ہندوستان ایک جغرافیائی وحدت ہے۔ ایک مزاح نگار نے جواب میں لکھا،’’خدا نے ساری دنیا کو بھی ایک ہی بنایا تھا،اب اگر انسانوں نے اس دنیا میں ملک بنالیے تو گویا جغرافیہ انسانوں نے بنایا۔ کیوں صاحب! پرانے انسانوں کو جغرافیہ بنانے کا کیوں حق تھا اور ہمیں وہ حق کیوں حاصل نہیں۔ تحریک کے کارکنان نے جغرافیے کا یہ سبق سنا اور تاریخ بنانے میں مصروف ہوگئے۔‘‘

1946میں وزارتی مشن نے پاکستان کو نامناسب قرار دیا، پھر منظر پر نئے اور آخری وائسرائے تشریف لائے اور اپنے سیکریٹری سے کہنے لگے، مسٹر جناح مجھ سے گفتگو کر سکتے ہیں مگر فیصلہ میرا ہی رہے گا۔

یہ ساری باتیں بڑے تحمل سے قائداعظم نے سنیں اور کہا ،’’دولتِ برطانیہ ہندوستان پرحکومت کرنا چاہتی ہے مگر گاندھی جی مسلم ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم دونوں کو اپنے پر حکومت نہ کرنے دیں گے، خواہ دونوں متحد ہوکر یا تنہا کوشش کریں۔‘‘

’’رشتۂ تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانوں میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جس کے خطیب بے مثل تھے اور قاری خوش الحان۔ لوگ رات بھر انھیں سنتے اور سر دھنتے، صبح ہوتی تو رات گئی رات کی بات گئی۔ کسی نے شکایت کی کہ یہ لوگ تقریریں تو ہماری سنتے ہیں مگر بات مسلم لیگ کی مانتے ہیں۔ جواب ملا، آپ صرف آتش بیان ہیں اور لوگ کسی آتش بجاں کی تلاش میں ہیں۔

خواجہ ناظم الدین صاحب نے اپنے لڑکے کو جو علی گڑھ میں پڑھتا تھا لکھا کہ تم کو چاہیے کہ تحریک پاکستان میں کوئی غفلت نہ ہو، تم تو اگلے سال بھی امتحان میں بیٹھ سکتے ہو، مگر قوم کا ایسا امتحان ہر سال نہیں آیا کرتا۔‘‘

مختار مسعود صاحب عظیم اور بڑے انسانوںکے بارے میں لکھتے ہیں،’’یہ بھلا ضروری ہے کہ بڑا آدمی تمام عمر بڑا ہی رہے۔ بعض لوگوں کی زندگی میں بڑائی کا صرف ایک دن آتا ہے اور اس دن کے ڈھلنے کے بعد ممکن ہے کہ ان کی باقی زندگی اس بڑائی کی نفی میں بسر ہو جائے۔

بدی اور نیکی کے درمیا ن صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے۔ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو ننگِ کائنات اور ایک قدم بڑھالیں تو اشرف المخلوقات۔ درمیان میں ٹھہر جائیں تو محض ہجومِ آبادی۔ 14 اگست 1947کو بعض لوگوں نے یہ قدم پیچھے کی جانب اٹھایا تھا۔

تاریخ آگے بڑھ رہی تھی اور تاریخ ساز پیچھے ہٹ رہے تھے۔‘‘ آزادی کے فوراً بعد کس طرح لوگوں کے ایمان ڈگمگائے اور ضمیر لڑکھڑاگئے، اس کے بارے میں لکھتے ہیں ’’جن کے سامنے غنیمت نہ ٹھہر سکا وہ خود مالِ غنیمت کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ یہ مالِ غنیمت ہی تو تھا جس کی وجہ سے غزوۂ بدر کے بعد خدا کی طرف سے تہدید نازل ہوئی تھی۔ خود ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مالِ غنیمت کے مقابلے میں کتنے ہی ستارے ڈوبے، سورج گہنائے، بت گرے اور مینار بیٹھ گئے۔‘‘

آوازِ دوست، کے دوسرے مضمون کا عنوان ہے قحط الرجال۔ اہلِ ذوق اس کا پہلا پیراگراف بار بار پڑھتے ہیں اور سر دُھنتے ہیں۔

’’قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجّال۔ ایک عالم موت کی نا حق زحمت کا، دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک اسمال حشر کا دوسرا محض حشرات الارض کا۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرّجال کا غم کھاتے ہیں۔‘‘

’’قحط الرّجال میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار، مردم شناسی ہو تو نایاب۔مجھے یاد آیا ایک بادشاہ چھپ کر اپنی پرانی آستین سر آنکھوں سے لگاتا تھا۔ ہر شخص کے پاس اس کی پوستین ہوتی ہے مگر اکثر اس سے منکر ہوجاتے ہیں کیونکہ اسے قبول کرنے کے لیے جس جرأت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی کمیابی قحط الرّجال کی پہلی نشانی ہے۔‘‘ مصنف نے بچپن سے ایک آٹوگراف البم سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔

جس پر کچھ بڑے آدمیوں کے دستخط لیے گئے ہیں، دستخط لیتے وقت مصنف کے والد محترم کی ہدایت بھی شامل ہے کہ ’’آٹوگراف البم ہو یا زندگی کا ورقِ سادہ، انھیں یونہی نہیں بھرنا چاہیے۔ جاؤ نگاہِ انتخاب کو کام میں لاؤ، بڑے آدمی زندگی میں کم اور کتابوں میں زیادہ ملیں گے۔‘‘

مختار مسعود، انسانی عظمت کے نظریے کو ایک ولندیزی بچے کی کہانی سے تشکیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ایک ولندیزی بچہ سرما کی ایک شام کو سمندری پشتے پر جا رہا تھا کہ اس کی نظر ایک چھوٹے سے سوراخ پر پڑی، اس نے سوچا کہ اگر وہ گاؤں جا کر اس کی خبر کرے گا تو اتنی دیر میں پانی کے زور سے پشتے میں شگاف ہوجائے گا اور پھر وہ ساری بستیاںاور وہ سارے کھیت جو سطح سمندر کے نیچے ہیں غرق ہو جائیں گے، وہ اس سوراخ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔

رات آئی تو وہ اسی حالت میں سو گیا۔ پہلے سردی اور پھر موت سے اس کا جسم اکڑ گیا مگر ننھا سا ہاتھ جوں کا توں پشتے کے چھوٹے سے سوراخ پر رکھا رہا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ ان کا محسن ایک بہادر لڑکا ہے۔

میرے سفر کی یہ پہلی منزل تھی۔ اس کا نقش دوسری ساری منزلوں سے گہرا اور روشن ہے۔ یہ منزل جرأت اور قربانی کی منزل تھی، اس کی بہت سے نام ہیں اور وہ نام جس سے اس کی ساری عظمتیں عیاں ہوتی ہیں وہ شہادت کہلاتا ہے۔‘‘

بہادر لڑکے کی کہانی بچوں کے لیے تھی اور ایک بچے نے اسے پڑھا تھا۔ وہ بچہ یہ سمجھا کہ جرأت کے اظہار کے لیے جو مقامات درکار ہیں وہ صرف دوسرے ملکوں میں ہوا کرتے ہیں جیسے ہالینڈ میں سمندر روکنے والے پشتے۔ وقت گذرا تو یہ عقدہ کھلا کہ دنیا کا ہر ملک سطح سمندر سے نیچے آباد ہے، آبادی اور سمندر کے درمیان پشتے بنے ہوئے ہیں، نئے اور پرانے، پائیدار اور ناپائیدار۔ ان میں جو پشتے دین اور سیاست کے ریختہ اور بدن کے لہو اور قلم کی سیاہی کے آمیختہ سے بنے ہوں اور جن کی حفاظت بصیرت اور فکرِ فردا کے سپرد ہو، صرف وہی پشتے مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔

پشتے خوا کتنے ہی پائیدار کیوں نہ ہوں، ان کی حفاظت پُشت در پُشت اور لمحہ بہ لمحہ کرنی پڑتی ہے۔ اگر ان میں چھوٹا سا سوراخ ہوجائے تو اسے شگاف بنتے دیر نہیں لگتی، تاریخ کو غور سے پڑھا تو وہ پشتوں اور شگافوں کی داستان نکلی، ایک ورق سبقِ عزم و ہمت اور دوسرا ورق درسِ عبرت۔‘‘

پھر لکھتے ہیں،’’بچوں کی کہانیوں میں مجھے جرأت اور قربانی کا نشان ملا اور لڑکوں کی کتابوں سے مجھے حکمت اور خدمت کا پتہ چلا۔ پہلے گروہ کے لوگ شہید کہلاتے ہیں اور دوسرے گروہ کے لوگوں کو محسنین کہا جاتا ہے۔

اہلِ شہادت اور اہلِ احسان میں فرق صرف اتنا ہے کہ شہید دوسروں کے لیے جان دیتا ہے اور محسن دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے۔ ایک کا صدقہ جان ہے اور دوسرے کا تحفہ زندگی۔ ان کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہوتا ہے جو لوگ اس گروہ میں شامل ہوتے ہیں انھیں اہلِ جمال کہتے ہیں۔

اہلِ جمال کی پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ مسجدِ قرطبہ کی تعمیر بھی کرتے ہیں اور تحریر بھی۔ یہ الحکم کی طرح بادشاہ بھی ہوتے ہیں اور اقبال کی طرح درویش بھی، انھیں تخلیقِ حسن پر مامور کیا جاتا ہے۔ نثر ہو کہ شعر، نقش ہو کہ نغمہ، رنگ ہو کہ خشت و سنگ، یہ خونِ جگر سے اسے یوں تمام کرتے ہیںکہ جو نظر ان کی تخلیق پر پڑتی ہے وہ روشن ہو جاتی ہے۔

زندگی کو ایک گروہ نے ممکن بنایا دوسرے نے توانا اور تیسرے نے تابندہ۔ جہاں یہ تینوں گروہ موجود ہوں وہاں زندگی موت کی دسترس محفوظ ہو جاتی ہے اور جس ملک یا عہد کو یہ گروہ میسر نہ آئیں اسے موت سے پہلے بھی کئی بار مرنا پڑتا ہے‘‘۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔