طلبا جدوجہد رنگ لائے گی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 30 نومبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ترقی پسند خیالات کے امین طلبا ہر سال 25نومبرکو طلبا یونین کی بحالی کے لیے مختلف شہروں میں سڑکوں پر مارچ کرتے ہیں۔

یہ جوشیلے نوجوان طلبا یونین کی بحالی ، تعلیم حق ہے نہ کہ رعایت اور سوشلسٹ نظام کے لیے فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں۔  پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو کے کارکن ان جلوسوں کو منظم کرتے ہیں۔ اس تنظیم نے دیگر ترقی پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر 2017میں لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑے جلوس نکالے تھے۔

طلبا یونین کی بحالی کے نعرے ایوان وزیر اعظم تک پہنچے تھے۔ اس وقت شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے۔

شاہد خاقان عباسی ایک مختصر عرصہ کے لیے ملک کے اس اہم عہدہ  پر فائز ہوئے تھے، یوں مسلم لیگ ن کی حکومت طلبا کے اس بنیادی حق پر توجہ نہ دے سکی ، مگر جب اگلے سال عمران خان وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو طلبا تنظیموں نے پھر 25 نومبر کو اپنے اجتماعات منظم کیے تو عمران خان نے فوراً ایک ٹویٹ میں طلبا یونین کی بحالی کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے بھی سندھ میں طلبا یونین کی بحالی کا عزم کیا۔ عمران خان نے یوٹرن لیا اور وعدہ پر عمل نہیں کیا۔

سندھ میں حکومت نے طلبا یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی کی۔ اس قانون سازی کے لیے سول سوسائٹی اور طلبا تنظیموں سے مشاورت کی گئی۔

اس دوران کورونا نے تباہی مچائی اور طویل عرصہ تک سندھ اسمبلی کی تعلیم کی سلیکٹ کمیٹی میں یہ بل زیرِ غور آیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم Human Right Commission of Pakistan کی کوششوں سے سندھ اسمبلی نے اس قانون کو منظور کیا مگر سندھ کی حکومت نے اس قانون پر عملدرآمد کے لیے قواعد و ضوابط تیار نہیں کیے، یوں سندھ میں ایک اچھا قانون نافذ ہونے کے باوجود طلبا یونین بحال نہیں ہوسکی۔

سیاسیات کے ماہرین کی رائے ہے کہ جمہوری نظام سے ہی ریاست پر عوام کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے۔ جمہوری نظام میں عوام اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ووٹ کی طاقت کے ذریعہ ان کا احتساب کرتے ہیں۔

عوام میں جمہوری شعور بیدار کرنے کے لیے طلبا یونین اور نچلی سطح تک اختیارکے بلدیاتی ادارے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

نوجوان طالب علم طلبا یونین میں اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ جمہوری شعور سے وابستہ ہوتے ہیں، جب نوجوان طلبا یونین کے انتخابی عمل میں شریک ہوتے ہیں تو انھیں کامیابی اور ناکامی برداشت کرنے کے تجربہ سے گزرنا پڑتا ہے۔

نوجوان ، طلبا یونین کو منظم کرنے کے لیے تنظیم سازی کا عمل سیکھتے ہیں۔ طلبا یونین کے امیدواروں اور ان کے حامیوں میں رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے کنونسنگ کی صلاحیت پیدا ہونے سے پھر تحریر اور تقریر کی صلاحیتیں ابھرتی ہیں۔

80ء کی دہائی تک طلبا یونین کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لیے تمام مضامین میں پاس ہونا لازمی ہوتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ بہت سے ذہین طلبا و طالبات یونین کے عہدیدار منتخب ہوئے۔ ان میں سے سیکڑوں افراد نے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور کئی نے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔

جنرل ضیاء الحق کا دورِ اقتدار ایک آمرانہ دور تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک کا آئین معطل کیا تھا اور عدالتوں کو مفلوج کیا تھا۔ جمہوری آزادیوں کے لیے آگہی کا فریضہ انجام دینے والے صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا اور کوڑے مارے گئے اور مخالف اخبارات کو بند کیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کا ارادہ تاحیات حکومت کرنے کا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اگرچہ پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر یہ تصور کر لیا تھا کہ اس کے اقتدار کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا مگر 1973 کے آئین کی بحالی پر متفق سیاسی جماعتیں تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) میں متحد ہوگئیں۔

ایم آر ڈی کی 1983 کی تحریک میں ہزاروں سیاسی کارکنوں نے رضاکارانہ گرفتاریاں دی تھیں۔ سندھ میں اس تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا بیہمانہ استعمال ہوا تھا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کی حمایت میں وکلاء ، دانشور ، طلبا ، اساتذہ ، صحافی اور خواتین میدان میں آگئے تھے۔

یہ تحریک فوری طور پر اپنے نتائج حاصل نہ کرسکی مگر جنرل ضیاء الحق کو غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات منعقد کرانے پڑے مگر فوجی حکومت نے جمہوری شعور پر قدغن لگانے کے لیے طلبا یونین کے ادارہ کو ختم کیا۔ حکومتِ وقت کا یہ مؤقف تھا کہ طلبا یونین کے اراکین یونیورسٹیوں میں ہنگامے کرتے ہیں۔

ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں طلبا کے متحارب گروہوں کے درمیان تصادم میں کئی جانیں ضایع ہوئی تھیں مگر ناقدین کا مؤقف تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کے نتیجہ میں کلاشنکوف کلچر عام ہوا اور خطرناک نشہ اور ہیروئن بازاروں میں بکنے لگی۔

80ء کی دہائی میں امن و امان کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی اب بھی ذکر کرتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں ہنگاموں کو برپا کرنے میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ملوث تھے اور یہ واضح حقیقت ہے کہ ملک کے کسی بھی حصہ میں خواہ وہ یونیورسٹیاں ہی کیوں نہ ہوں ، ان میں امن و امان کی ذمے داری برسر اقتدار حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اپنی انتظامی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے جمہوری ارتقاء کے بنیادی ادارہ کو ہی ختم کیا۔

90 ء کی دہائی میں سپریم کورٹ میں طلبا یونین کے انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک عرض داشت دائر ہوئی۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افضل ظلہ نے فوری طور پر طلبا یونین کے انتخابات کو روکنے کے لیے حکم امتناعی جاری کیا مگر چیف جسٹس افضل ظلہ نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں چند شرائط کے ساتھ طلبا یونین کی بحالی کے بارے میں فیصلہ دیا۔

تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ سپریم کورٹ اس تفصیلی فیصلہ پر نہ تو اس وقت کی حکومت نے کوئی توجہ دی نہ سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کرنے والے دائیں بازو کی طلبا تنظیم کے رہنماؤں نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے عدالتوں سے رجوع نہیں کیا۔

2008کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سادہ اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں طلبا یونین کی بحالی کا اعلان کیا مگر وہ اس اعلان پر قائم نہ رہ سکے۔ اس وقت کی سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کیا گیا۔

نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو (مرحوم) نے سینیٹ میں طلبا یونین کی بحالی کی قرارداد پیش کی۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس افضل ظلہ کا فیصلہ پیش کیا اور وضاحت کی کہ اس فیصلہ کے تحت طلبا یونین پر پابندی ختم ہوئی مگر ملک میں طلبا یونین کے انتخابات کے لیے کچھ نہ ہوا۔

تحریک انصاف کی 2013یں صوبہ خیبرپختون خوا میں حکومت قائم ہوئی۔ 2018 میں وفاق میں حکومت بنائی اور اب میاں شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں مگر تمام حکومتوں نے جمہوریت کے اس بنیادی ادارہ کی بحالی کے لیے کچھ نہ کیا۔

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ حکومت نے طلبا یونین کی بحالی کے لیے سندھ کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلروں کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو کے طلبا نے پھر 25 نومبر کو مختلف شہروں میں جلوس نکالے۔ اس جلوس میں شریک نوجوانوں نے سب سے پرکشش نعرہ یہ تھا:

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

ان طلبا کی جدوجہد یقینا کامیاب ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔