عوامی معاون خصوصی کی پہلی اطلاع

سعد اللہ جان برق  بدھ 30 نومبر 2022
barq@email.com

[email protected]

کوشش تو ہم نے بہت کی ، خود کو اہل بنانے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے، دھماکا خیزقسم کے جھوٹ بولے اور سبزباغوں سے لے کر کالے باغوں کی آبیاری کی، یہاں تک کہ ان لوگوں کی بھی تعریف کی جن کی تعریف میں ان کی منکوحات بھی دولفظ خرچ نہ کریں لیکن افسوس یہ نہ تھی ہماری قسمت ،نہ وزیر بنے نہ مشیر اور نہ ہی معاون خصوصی یا عمومی برائے وغیرہ ۔

شکست وفتح نصیبوں سے ہے ولے

مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

یہ باقی سب کچھ تو محض ’’جنت بھی گوارا‘‘ لیکن ہماری اصل منزل معاون خصوصی برائے کی تھی کیوں کہ جس طرح شوبزکی دنیا میں آج کل بڑے بڑے اداکاروں کے بجائے ’’ماڈلز‘‘ کا رحجان زیادہ ہے کیوں کہ اداکار یا اداکارہ تو کسی فلم میں آجاتے ہیں جو اگر کامیاب بھی ہو تو چند روز بہار جاں فزا دکھلاکر مرجھا جاتے ہیں جب کہ ماڈلز کے ٹی وی چینلز پر اشتہار مدتوں تک روزانہ چلتے رہتے ہیں اور ان کے چہرے گویا ٹی وی اسکرینوں سے مستقل چپک جاتے ہیں ،گلی گلی ان کی شہرت ہوجاتی ہے ،بچہ بچہ ان کو جان لیتا ہے۔

ابھی بازار جاکر کسی کو پریانکا چوپڑا ،دپیکا،کرینہ کپور یا کترینہ کیف کی تصویر دکھائیے، دس میں دوچار ہی لوگ انھیں پہچان پائیں گے لیکن یامی گوتم کی تصویر دکھاؤ تو دس میں سے ’’بارہ لوگ‘‘ چلا اٹھیں ’’کیئر اینڈ لولی۔‘‘ یہی سلسلہ آج کل سیاست میں وزیروں، مشیروں وغیرہ کا بھی ہے، ان کے بیان یا تصویریں کبھی کبھار آجاتی ہیں لیکن معاون خصوصی برائے ، روزانہ باتصویرجلوہ گر ہوتے ہیں بلکہ جدھر دیکھیے ادھر تو ہی تو ہے والا معاملہ ہے، سب لوگ جدھر وہ ہیں، ادھر دیکھ رہے ہیں۔

ہر روز  اخباروں میں خبر دیکھ رہے ہیں، اتنی باقاعدگی سے کوئی بلڈ پریشر یا شوگر کی دوا بھی نہیں کھاتا جتنی باقاعدگی بلکہ پابندی سے معاون خصوصی کے بیانات اور تصویریں ہر صبح جلوہ گرہوتی ہیں، انھیںسیاسی ماڈل بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔

چنانچہ ہم نے بھی بڑی کوشش کی کہ کسی طرح یہ ’’مقام بلند‘‘ حاصل کریں اور اس کے لیے کوالی فیکیشن کیا ہے، جھوٹ بولنا اور بولتے رہنا اور اس کام میں ہم کسی سے بھی کم نہیں ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ہیں کیوں کہ ہم ایسے جھوٹ بھی بول سکتے جنھیں سن کر بہرے بھی اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس اورگونگے بھی توبہ کرنے لگیں۔

ویسے تو یہ شوق ہمیں اس وقت ہوا جب ادھر دریا پار ایک زبردست قسم کی معاونہ خصوصیہ ڈاکٹر سورگیہ پریم لتا نے اپنے جلوے دکھانا شروع کردیے تھے، اردومیں اس کانام ہم بھول گئے ہیں، اس لیے اس کاہندی ترجمہ بتارہے ہیں وہ تو کچھ عرصے تک ہرصبح طلوع ہوتے ہوتے غروب ہوگئی لیکن ہمارے دل میں اس خواہش کو جگا گئی جو ہم نے بڑے جتن سے لوریاں گاگا کر سلائی تھی۔ ممکن تھا کہ ہم اسے پھر تھپک تھپک کر سلا دیتے لیکن پھر ایک ایسی رازکی بات سننے میں آئی کہ خواہش تو خواہش ہم خود بھی جاگ گئے۔

یہ رازکی بات ہوسکتی ہے کہ معاون خصوصی برائے کے بیانات ہی کی طرح ہوائی یا پھلجڑی ہی ہو لیکن ہمیں جگا گئی ، وہ بات یہ ہے کہ نوکریوں کا نیلام بھی انھی کی نگرانی میں ہوتا ہے ۔یہ ہم اب کی نہیں تب کی بات کررہے ہیں جب یہ معاون خصوصی برائے کا منصب تازہ تازہ کری ایٹ ہواتھا اور پوسٹ یا منصب کری ایٹ کرنے کاسلسلہ ایسا ہے جیسے ’’نوالوں‘‘ کے لیے منہ تلاش کیے جائیں یا مونہوں کے لیے نوالے، اس کی مثال یوں ہے کہ وزیراعلیٰ کا ادارہ برائے انسداد تشدد وانتہاپسندی کو فعال کرنے کا حکم ’’عملہ بھرتی کی منظوری‘‘

ویسے گزشتہ چند ماہ میں جب سے ہمارے صوبے خیر پہ خیرکی زمین کو ان مبارک ہستی نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرفیاب کرنا شروع کیا ہے تب سے نئے نئے دسترخوانوں میں نئے نئے نوالوں کے لیے منہ پیدا ہونے لگے ہیں،ہرادارے کو فعال کر دیا گیا ہے اور عملے کی بھرتی شروع ہوئی ہے ۔

ہم بھی کیا ادھر ادھر کی باتیں لے بیٹھے ہیں ، یہ تو اب کھلارازہے کہ ہر پارٹی کی جب حکومت آتی ہے تو وہ گزشتہ الیکشن میں بنائے گئے یاکھولے گے مونہوں میں سرکاری دسترخوان سے نوالے ٹھونستی ہے اورآیندہ الیکشن کے لیے پیشگی ووٹ سرکاری فنڈز سے خریدتی ہے۔ ہم اپنی بات کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں ٹوٹی تھی یعنی کسی نہ کسی طرح معاون خصوصی برائے بننا۔

لیجیے پھر ایک اور بات نے دم ہلانا شروع کردی، یہ اس وقت کی بات ہے جب بینظیربھٹو پہلی مرتبہ پرائم منسٹر بنیں تو اکثر ٹی وی اشتہاروں میں چھوٹی چھوٹی بچیوں سے یہ کہلوانا شروع ہوگیا کہ میں بڑی ہوکر پرائم منسٹر بنوں گی ، اچھا ہوا کہ وہ صرف اشتہار تھے ورنہ اگر وہ ساری بچیاں پرائم منسٹر بن جاتیں تو ان کے لیے اتنے ملک ہم کہاں سے لاتے۔

ہم نے بھی جب سے معاونین خصوصی برائے… کی پوسٹ کے بارے میں سنا ہے بلکہ دیکھا ہے کہ اخبارات میں یہی ہوتے ہیں ،تب سے ہمارا شوق بھی بے قابو ہوا جارہا ہے لیکن ہم اپنی قسمت کو بھی اچھی اور بری طرح جانتے ہیں اور پہنچاتے بھی ہیں، اس لیے کسی اورکا انتظار کیے بغیر خود ہی خود کو معاون خصوصی برائے…کے منصب پر فائز کردیا ہے، آخر اپنا معاون خصوصی رکھنا صرف منصب داروں کا حق تو نہیں ہے۔

عوام نے بھی اپنے لیے معاون خصوصی برائے اطلاعات رکھ لیا ہے اوروہ ہم ہیں، کسی کو شک ہو تو جاکر عوام سے پوچھ سکتاہے اور بدلے میں ہم عوام کو یہ اطلاع پہنچا رہے ہیں کہ نوکری کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکنے کی کوئی ضرورت نہیں، صرف ’’نیلام گھر‘‘ کا پتہ کرلیجے اورسی وی وغیرہ پہنچانے کی بھی ضرورت نہیں، صرف’’ قائد اعظم کی تصویر والا کاغذ ‘‘ہی کافی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔