عوام کے درمیان ویزا کی دیوار؟

ظہیر اختر بیدری  اتوار 30 مارچ 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

پچھلے دنوں بھارت سے فلم انڈسٹری کے بعض مصروف آرٹسٹ پاکستان آئے جن میں نصیرالدین شاہ، اوم پوری، گلزار دہلوی اور رضا مراد شامل ہیں ان آرٹسٹوں نے پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے ملکوں میں آنا اور ایک دوسرے سے ملنا جلنا چاہتے ہیں لیکن ویزاکی دیوار ان کے درمیان حائل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے ملنے کی شدید خواہش کے باوجود ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے۔ تقسیم ہند سے پہلے ایک ہزار سال تک بھارت پر مسلم حکمرانوں کی حکومت رہی۔

اس طویل عرصے کے دوران دونوں قومیں مذہبی رواداری محبت اور بھائی چارے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں جس کے نتیجے میں ایک مشترکہ کلچر وجود میں آیا۔ ہندو مسلمانوں کی مذہبی تقاریب میں شرکت کرتے تھے اور مسلمان ہندوؤں کی مذہبی تقاریب میں شریک ہوتے تھے ان دونوں قوموں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی وجہ بھارت عموماً امن کا گہوارہ بنا رہا لیکن دونوں قوموں میں موجود کچھ انتہا پسند گروہوں کی وجہ سے حالات خراب ہوئے اور 1947 کی تقسیم عمل میں آئی اگرچہ ملک تقسیم ہوگیا اور لاکھوں انسان اپنی جانوں سے گئے لیکن دونوں ملکوں کے عوام آج بھی بھائیوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر ایک ایسا تنازعہ بن گیا ہے جو 66 سال سے لگاتار کوششوں کے باوجود حل نہ ہوسکا اسی تنازعے کی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگیں ہوئیں ، دونوں پسماندہ اور غریب ملک ایٹمی طاقت بن گئے ،دونوں دفاع پر اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ضایع کر رہے ہیں۔

66 سالوں سے مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کامیابی اس لیے حاصل نہ ہوسکی کہ اس مسئلے کو وہ سیاستدان حل کرنے کی کوشش کرتے رہے جن کے اپنے سیاسی مفادات ان کی اولین ترجیح بنے ہوئے ہیں یہ مسئلہ اس لیے بھی حل نہ ہوسکا کہ اس مسئلے کو حل کرنے والے ہندوستانی اور پاکستانی ہندو اور مسلمان کی حیثیت سے یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کوشاں رہے، کسی نے انسان بن کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

پچھلے دنوں جو اداکار ہندوستان سے پاکستان آئے اگرچہ وہ اپنی شناخت کے حوالے سے ہندو اور مسلمان تھے لیکن وہ ہندو اور مسلمان بعد میں تھے اور انسان پہلے تھے یہی وجہ ہے کہ ان آرٹسٹوں میں دونوں ملکوں کے عوام کی تکالیف دونوں ملکوں کے عوام کی غربت دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت بھائی چارے کے جذبات کا احساس ہے اور یہ آرٹسٹ اپنے دورے میں ہر جگہ بار بار یہ اصرار کرتے نظر آئے کہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے سے ملنے ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقعے فراہم کیے جائیں اور ویزے کی دیوار کو اس قدر چھوٹا کردیا جائے کہ عوام آسانی سے اسے پھلانگ کر ایک دوسرے کے ملک میں آ جاسکیں۔

بھارتی آرٹسٹوں کی طرح پاکستان میں بھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان محبت اور بھائی چارے کو اولین ترجیح دیتے ہیں اس طرح کی سوچ رکھنے والے ڈارون کی ارتقائی تھیوری کے مطابق حیوان سے ترقی کرکے مکمل انسان بن گئے ہیں اور وہ لوگ جو دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان دیوار بن کر حائل ہو رہے ہیں وہ حیوان سے انسان کی طرف سفر کے دوران درمیان ہی میں اٹک کر رہ گئے ہیں نہ یہ لوگ حیوان رہے نہ انسان بن سکے۔ ان ہی لوگوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان موجود ویزے کی دیوار، دیوار برلن کی طرح حائل ہے ۔

ہم مشرقی اخلاق کی بالادستی کے دعوے دار ہیں اور مغرب کو اخلاق یافتہ قوم سمجھتے ہیں لیکن یہ  لوگ یورپی یونین جیسے اتحاد بناکر اپنے اقتصادی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ بغیر ویزے کے ایک دوسرے کے ملکوں میں عوام کو آنے جانے کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ کیا یہ یہود و نصاریٰ ہیں یا عمل کے حوالے سے ہم روایتی یہود و نصاریٰ سے بدتر ہیں؟

ہماری محترم حکومتیں، حکومتوں کے درمیان اختلافات کی سیاست میں کس قدر اندھی ہوگئی ہیں اس کا اندازہ کراچی میں منعقد ہونے والی ایک علاقائی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں ویزے کی مشکلات حائل کرنے سے ہوسکتا ہے جس کی وجہ یہ کانفرنس کراچی کے بجائے کھٹمنڈو (نیپال) میں منعقد ہوئی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پائلر نے جنوبی ایشیا کے غیر منظم شعبے میں کام کرنے والے 600 ملین مزدوروں کے مسائل کا جائزہ لینے ان کے حل کے لیے ایک موثر حکمت عملی بنانے کے لیے جنوبی ایشیا کی مزدور قیادت کی ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے مطابق یہ کانفرنس 15 جنوری سے 17 جنوری تک کراچی میں ہونا تھی جس میں نیپال، سری لنکا، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ کے نمایندے شرکت کرنے والے تھے جن کے ویزے کے لیے 3 دسمبر 2013 کو وزارت خارجہ کے ایڈوائزر کو درخواست دی گئی لیکن جب متعلقہ وزارت نے ویزا جاری کرنے میں مختلف بہانوں سے تاخیر کی تو اس کانفرنس کی تاریخ بدل کر 25 سے 27 فروری 2014 کردی گئی لیکن متعلقہ محکمے کے محترمین نے اس نئی تاریخ تک بھی ویزا کے اجرا میں بہانے بازیاں شروع کیں تو اس کا مقام کراچی سے بدل کر کھٹمنڈو کردیا گیا کیونکہ مندوبین کو دعوت نامے جاری کیے جاچکے تھے۔

نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں یہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس 27-25 فروری کو منعقد ہوئی جس کی تفصیلات ہم ایک اور کالم میں پیش کریں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاجروں، صنعتکاروں، ڈاکٹروں، انجینئروں اور دوسری پیشہ ورانہ تنظیموں کے نمایندوں کو فراخدلی سے ویزا جاری کرنے والی حکومت کو مزدوروں کے نمایندوں کو ویزا جاری کرنے میں اس ’’غیرمعمولی احتیاط‘‘ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جب کہ ہماری موجودہ حکومت کے سربراہان اپنے پڑوسی ملکوں خصوصاً بھارت سے تعلقات میں بہتری اور استحکام کے دعویدار ہیں۔

اس کانفرنس میں پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے600 ملین مزدوروں کے مسائل پر غور ہونا تھا اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی اور جدوجہد کا پروگرام طے کرنا تھا۔ ایسی عوامی خصوصاً مزدور مفادات کے حوالے سے ہونے والی اس کانفرنس کو بروقت ویزے جاری نہ کرنا کیا ہماری بیوروکریسی کی نااہلی ہے یا ہماری حکومت کی اصل خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ سوال اس لیے اٹھ رہا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی مزدور دوستی کی ایک روشن تاریخ ہے کیا یہ پالیسی اسی تاریخ کا حصہ ہے؟

ہم نے بھارت سے پاکستان آنے والے فلمی اداکاروں کی ویزا پالیسی کے حوالے سے تشویش کا ذکر اس لیے کر رہا ہے کہ دونوں ملکوں میں ایسے انسان موجود ہیں جو دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے شدید خواہشمند ہیں اور اس حوالے سے دونوں ملکوں کی ویزا پالیسی کو دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان دیوار برلن سمجھتے ہیں۔ ہماری حکومت بعض انتہا پسند حلقوں کی جانب سے شدید دباؤ کے باوجود بھارت سے تعلقات کی بہتری اور تجارت میں فروغ کے لیے کوشاں ہے کیا ہماری بے لچک اور سخت گیر ویزا پالیسی ہماری حکومت کی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس کی ذمے داری کس پر آتی ہے اور اس پالیسی میں کون تبدیلی لائے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔