عصر حاضر میں علم کا ماخذ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 30 مارچ 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جتنے بھی کھیت کھلیان ہیں ان میں سب سے حسین و جمیل اور قابل دید پاکستان کے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور پاکستان کے کھیتوں میں جاکر سیر و تفریح کریں۔ ہم نے جب ان سے خواہش کی وجہ پوچھی تو وہ بس یہی کہتے کہ جناب آپ نے لگتا ہے کہ کبھی پنجابی فلمیں نہیں دیکھی ورنہ جس قدر خوبصورت اور وزنی دوشیزائیں وہاں رقص کرتی نظر آتی ہیں کس کم بخت کا دل چاہے گا کہ وہ ان کھیتوں کے نظارے نہ کرے؟

ہم بھی ان کو جواباً کہتے کہ بھئی پہلے تم پنجاب کے ایسے گھبرو نوجوان دکھائو جو ہاتھ میں گنڈاسا لے کر دشمن کی طرف بڑھے کہ اس نے گھبرو کی بہن کا دوپٹہ کیوں لیا، دشمن اسے پستول سے یا مشین گن سے درجن بھر سے زائد گولیاں ماردے مگر یہ گھبرو نوجوان ہاتھ میں گنڈاسا لیے آگے ہی بڑھتا جائے اور دشمن کے ٹوٹے ٹوٹے کردے۔ پھر ہم بھی تمھیں پاکستان میں اس کھیت کا پتہ بتا دیںگے جہاں بھاری بھرکم دوشیزائیں محو رقص ہوں۔ ہم اپنے دوست سے یہی کہتے تھے کہ جب تک تم پنجابی فلموں کے ہیرو کی خوبیوں والا گھبرو جوان صوبہ پنجاب کے کسی حصے میں تلاش نہیں کرلیتے تمھیں پاکستانی پنجابی فلموں والے کھیت بھی کہیں نہیں ملیںگے کیوں کہ دونوں حقیقی دنیا سے دور ہیں۔

بات یہ ہے کہ فلموں اور ڈراموں میں تفریح تو بہت ہوتی ہے مگر حقیقت کہاں تک ہوتی ہے اس بارے میں طے نہیں کیا جاسکتا، اس کے باوجود اس تفریحی میڈیم سے دنیا بھر میں قوموں کا تشخص بھی بنایا جاتا ہے اور قوموں پر غلبہ پانے کے لیے بھی بھرپور کوشش کی جاتی ہے مثلاً آج آپ کسی ایسے پاکستانی بچے یا نوجوان کو جو کبھی ملک سے باہر نہ گیا ہو دو تصاویر دکھائیں جس میں ایک کسی انتہائی صاف ستھرے ماحول کی ہو، چمکتی ہوئی عمارتیں، گاڑیاں اور صاف ستھری سڑکیں نظر آرہی ہو اور دوسری میں تقریباً ایسا ہی منظر ہو مگر صفائی کی جگہ گندگی نظر آئے۔ پھر آپ اس سے پوچھیں کہ بیٹا اس میں کون سی تصویر پاکستان اور کون سی امریکا کی ہے تو وہ فوراً ہی صاف ستھری منظر والی تصویر کو امریکا کی قرار دے گا۔ جب وہ امریکا گیا ہی نہیں تو پھر اس کے ذہن میں یہ تصور کیسے آیا کہ یہ صاف ستھری منظر کی حامل تصویر امریکا کی ہی ہوسکتی ہے؟ وجہ صرف وہ انگلش موویز ہیں جنھیں دیکھ کر آج ہر ایک پاکستانی یہ تصور رکھتا ہے کہ امریکا انتہائی صاف ستھرا ملک ہے۔

آنجہانی ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب کورنگ آف اسلام میں بھی اس بات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ کس طرح ہالی ووڈ کی فلموں کے ذریعے دیگر اقوام خصوصاً مسلمانوں کے خلاف غلط تشخص پوری دنیا میں پھیلایا گیا۔ گزشتہ سال کے آخر میں ترکی کا ایک وفد پاکستان آیا تو یہ راز کھلا کہ ترکی سے تیار کرکے پوری دنیا میں پیش کیے جانے والے ڈراموں میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، خاص کر ترکی کی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت ’’سلطان سلیمان‘‘ کے کردار کو ذرایع ابلاغ پر اس قدر مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے، اس سے مسلمان فاتحین کا چہرہ بھی مسخ ہونے لگتا ہے اور یہ اس قدر خطرناک ہے کہ خود ترکی کے صدر عبداﷲ گل ذاتی طور پر اس کے خلاف کوئی ایکشن لینا چاہتے ہیں مگر وہاں کے جمہوری نظام کے باعث بے بس ہیں اور خود کوئی تبدیلی لانے میں بے بس ہیں۔

اس حوالے سے راقم کی نظر سے ایک تحقیق گزری، یہ تحقیقی آرٹیکل جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر سہیل شفیق کی جانب سے ایک علمی وتحقیقی جریدہ ’’الایام‘‘ میں شایع ہوا ہے جس کی مدیرہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر ہیں۔ یہ جریدہ HEC سے منظور شدہ ہے۔

اپنے تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر سہیل شفیق لکھتے ہیں کہ سلیمان اعظم کا دور عثمانی سلطنت کی توسیع اور فتوحات کا دور تھا، اس نے اپنے وقت کی بڑی طاقتوں سے صف آرا ہوکر نہ صرف سلطنت عثمانیہ کے وجود کو برقرار رکھا بلکہ اسے مزید مستحکم اور طاقتور بنادیا۔ سلیمان اعظم کا عہد نہ صرف فتوحات کا دور تھا بلکہ سلطنت عثمانیہ اپنی وسعت و طاقت اور خوش حالی کے اعتبار سے بھی بام عروج پر تھی۔ سلیمان نے اپنی غیر مسلم رعایا کے لیے جو قوانین بنائے وہ اس کی رواداری اور روشن خیالی کی ایک مثال تھے۔ مشہور مورخ لارڈ ایورسلے (Lard Eversley) سلیمان کی قوانین سازی کے بارے میں لکھتا ہے ’’یہ بات قابل غور ہے کہ سلیمان کو ’’اعظم‘‘ کا لقب اس کے یورپی ہم عصروں نے دیا تھا۔ ترکی میں وہ ’’القانون‘‘ کے نام سے مشہور تھا، اس کا دور قانون کی تمام شاخوں میں کی جانے والی اصلاحات کے سبب نمایاں ہے جن کا مقصد عدل کا قیام تھا‘‘۔

جہاں تک سلیمان اعظم کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے، اس کی صفات اس کی عظمت کی حال ہے۔ اس کی دانش مندی، منصف مزاجی، فیاضی، نرم دلی اور خوش اخلاقی ضرب المثل تھی۔ اس کی خداداد ذہنی صلاحیتیں اس کے کردار کی تکمیل تھیں۔ ایڈورڈ کریسی سلیمان کے کردار کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’بطور ایک انسان وہ پرجوش اور مخلص تھا اور ہوس پرستی سے باعزت طور پر پاک تھا۔ اس کی شاندار جرأت، فوجی ذہانت، اس کی اعلیٰ مہم جوئی، جوش، اس کی علم و فن کی حوصلہ افزائی، فتوحات اور عقل مندانہ قانون سازی کو یاد رکھنا چاہیے‘‘۔ ایورسلے تحریر کرتا ہے کہ ’’اس کی ذاتی زندگی میں کوئی تعیش نہ تھا‘‘۔

اسی طرح ماہر ترکیات ڈاکٹر عزیز لکھتے ہیں ’’اس کی خانگی زندگی بالکل بے داغ تھی، وہ اپنے رحم وکرم کے لیے خاص طور پر مشہور تھا، انصاف کا مخصوص شیوہ تھا اور اس کی عدالت میں نسل، رنگ اور مذہب کی کوئی تفریق نہ تھی۔ رعایات کی فلاح و بہبود اس کا مطمع نظر تھا‘‘۔ اپنے تحقیقی مقابلے میں ڈاکٹر سہیل شفیق آگے لکھتے ہیں کہ ذرایع ابلاغ پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تاریخی واقعات اور حقائق کو درست انداز میں پیش کریں نہ کہ شعوری طور پر لوگوں کے لاشعور میں تاریخ کو مسخ کرکے راسخ کیا جائے۔ آج عام افراد سے بھی دریافت کرلیا جائے تو وہ سلطان سے بخوبی واقف ہوں گے مگر ان کا ماخذ ذرایع ابلاغ پر پیش کیا جانے والا ڈرامہ ہوگا۔ جب تاریخ کا ماخذ ڈرامہ بن جائے تو تاریخ شعور و آگہی کی علمی سطح کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

راقم کی نظر میں محقق ڈاکٹر سہیل شفیق کا تجزیہ اور شکوہ بجا طور پر درست ہے جو لوگ ذرایع ابلاغ پر تفریحی آزادی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ کیا ان کے نزدیک تاریخ کو مسخ کرنے کی آزادی بھی دی جانی چاہیے؟ میڈیا پر پیش کیے جانے والے اس طرح کے ڈراموں سے نئی نسل ترکی کے سلطان اور پاکستان کے کھیتوں کو ہی حقیقت سمجھے گی جس کا وجود اس کائنات میں نہیں۔ ہمیں عصر حاضر میں علم کے ماخذ پر غور کرنا ہوگا۔

نوٹ: محترم ڈاکٹر سہیل شفیق کے بھائی 24 مارچ کو لاپتہ ہوگئے تھے، قارئین سے التماس ہے کہ ان کے لیے دعا کریں اﷲ ان کی مشکل آسان فرمائے (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔