نور مقدم کیس؛ اسلام آباد ہائیکورٹ کے تفتیشی نظام اور پوسٹ مارٹم پر سوالات

نیوز رپورٹر  جمعرات 1 دسمبر 2022
پوسٹ مارٹم کرنے والے نا اہل اور کرپٹ ہیں پتہ نہیں ہماری پولیس کب سیکھے گی، عدالت

پوسٹ مارٹم کرنے والے نا اہل اور کرپٹ ہیں پتہ نہیں ہماری پولیس کب سیکھے گی، عدالت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کے تفتیشی نظام اور پوسٹ مارٹم کے حوالے سے اہم سوالات اٹھا دیے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ معذرت کے ساتھ یہاں پوسٹ مارٹم کرنے والے نا اہل اور کرپٹ ہیں پتہ نہیں ہماری پولیس کب سیکھے گی،ہر کیس میں (تفتیش سے متعلق) یہی مسائل سامنے آرہے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے نور مقدم کیس میں اپیلوں پر سماعت کی۔

مجرم ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے دلائل دیے کہا کہ ایف آئی آر میں پراسیکوشن کے بیانات میں تضاد ہے، ظاہر جعفر کا موبائل فون قبضے میں لیا گیا تھا۔

عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ جرح میں شوکت مقدم نے پہلی دفعہ بتایا کہ انہیں واٹس ایپ کال آئی تھی.

عدالت نے کہاکہ اگر مان بھی لیا جائے مدعی نے کہیں غلط بیانی کی تو پھر بھی اس کا اثر کیا ہو گا ؟ وہ بتائیں، جس پر وکیل نے کہا کہ اس کیس کی بنیاد جو تھی وہ یہی تھی جو مجرم اور مدعی کے درمیان کال کا ربط بنایا گیا۔

عدالت نے کہاکہ ظاہر جعفر نے شوکت مقدم کو کال کی ، شوکت مقدم نے کال نہیں کی، عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ سی ڈی آر میں نور مقدم کی کالز اس کی والدہ کے ساتھ نہیں والد کے ساتھ ہیں.

عدالت نے مدعی کے وکیل کو ہدایت کی کہ19 جولائی کو نور مقدم کی اپنے والد کے ساتھ کال ہے یا نہیں یہ بعد میں آپ نے بتانا ہے۔

وکیل نے کہاکہ18 جولائی نہیں بلکہ مدعی شوکت مقدم 19 جولائی کا بتا رہے ہیں کہ نور مقدم لاپتہ تھی،سی ڈی آر کے مطابق بچی لاہور نہیں اسلام آباد تھی۔

چیف جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے بچی نے باپ کو غلط بتایا ہو۔

عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ مجھے عجیب لگا ہے کہ انہوں نے مخصوص حصے سی سی ٹی وی کے ہمیں دیے،ٹیکسی اور ڈرائیور بھی سی سی ٹی وی میں نظر آرہے ہیں، یہ قتل کوئی پہلے سے پلانڈ نہیں تھا۔

عدالت نے کہاکہ قتل کے لیے پہلے پلان ہونا کیا ضروری ہوتا ہے ؟۔

عدالت نےاستفسار کیاکہ آپ ٹیکسی میں جانے اور ایک منٹ بعد ہی واپس آنے سے کیا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں؟، وکیل نے کہاکہ میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ ظاہر جعفر کا قتل کرنے کا کوئی ارادہ یا محرک نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کیا کسی منصوبہ بندی کے بغیر کوئی قتل نہیں کیا جا سکتا؟ جس پر وکیل نے کہاکہ لڑکی نے نیول اینکریج سے ایف سیون پہنچنے تک ظاہر جعفر کو چھ کالز کیں جو اس نے اٹینڈ نہیں کیں، پہلی کال نیول اینکریج، باقی کالز راستے سے اور آخری کال ظاہر جعفر کے گھر کے باہر سے کی گئی، پراسیکوشن کے گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے جس کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پتہ نہیں ہماری پولیس کب سیکھے گی،ہر کیس میں یہی مسائل سامنے آرہے ہیں، معذرت کے ساتھ یہاں پوسٹ مارٹم کرنے والے نا اہل اور کرپٹ ہیں۔

اکرم قریشی ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ کیس پڑھیں گے تو پتہ چلے گا جس کا نام لکھا پارسل دیا وہ چھٹی پر ہے، یہ دیکھیں کہ کس معیار کا کیس تھا اور اس کو کس طرح کنڈکٹ کیا گیا۔

وکیل مدعی نثار اصغرنے کہاکہ تھراپی ورک کا ملزم پمز میں داخل ہوا اور وہاں اس نے جھوٹ بولا۔

وکیل عثمان کھوسہ نے کہاکہ پوسٹ مارٹم کرنے والوں کے تین نام دیے گئے ہیں، ہر کوئی ایک دوسرے پر ڈال رہا ہے،ایک ڈاکٹر نے جرح میں کہہ دیا کہ میں نے پوسٹ مارٹم نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ معلوم نہیں کہ پولیس بنیادی چیزوں کو کیوں اور کیسے نظرانداز کر سکتی ہے؟،اسی لیے ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ یہ نااہلی کی انتہا ہے،مجھے نہیں سمجھ آیا کہ اس کیس میں 14 افراد کو ملزم بنانے کی کیا ضرورت تھی؟،نجانے تھراپی ورکس ملزم بنانے کی لاجک اور کیا منطق تھی؟۔

عدالت نے سماعت منگل تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔