45 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے سانس کے امراض میں مبتلا ہونے کا انکشاف

دعا عباس  جمعرات 1 دسمبر 2022

کراچی: پاکستان میں 45 لاکھ سے زائد افراد سانس کی نالیوں میں تنگی کی بیماری سی او پی ڈی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ دنیا بھر میں یہ بیماری تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں اموات ہو رہی ہیں۔

ماہرین صحت نے ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کے ڈپارٹمنٹ آف پلمونولوجی کے زیر اہتمام سی او پی ڈی سمپوزیم سے خطاب کیا۔

بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر زیبا حق نے کہا کہ مردوں میں سگریٹ نوشی سی او پی ڈی کی سب سے بڑی وجہ ہے جبکہ خواتین میں لکڑیاں، گوبر وغیرہ جلانے سے پیدا ہونے والے دھویں سے یہ بیماری ہوتی ہے۔ خواتین میں سی او پی ڈی کی شرح 49 فیصد اور مردوں میں 61 فیصد ہے۔ بچوں میں اس کی شرح بہت کم ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کرانک آبسٹریکٹیو پلمونری ڈیزیز، بزرگوں کی بیماری ہے۔ اکثر لوگ اپنی اس بیماری سے لاعلم رہتے ہیں۔

مہمان خصوصی ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر زیبا حق کے علاوہ پروفیسر فیصل اسد، میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال ڈاکٹر زاہد اعظم، ڈین آف میڈیسن پروفیسر افتخار احمد نے بھی خطاب کیا۔

پلمونری ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر فیصل اسد نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ گزشتہ عشروں میں سگریٹ نوشی کو ایک پرکشش  طاقت اور دلیری کی علامت بنا کر پیش کیا گیا جس سے متاثرہ افراد سگریٹ نوشی کا شکار ہوئے اور ان کی اکثریت سی او پی ڈی میں مبتلا ہے۔ اس لیے بتدریج سگریٹ نوشی کی تشہیر پر پابندیاں لگائی گئیں۔یہ جس قدر نقصان دہ ہے اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ سگریٹ نوشی کے دھوئیں سے اس کے قریب موجود افراد بھی کم و بیش اتنے ہی متاثر ہوتے ہیں جتنا  سگریٹ نوشی کرنے والا شخص خود ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فیصل اسد نے کہا کہ دمہ اور سی او پی ڈی کی علامات تقریبا یکساں ہیں جیسے کھانسی کا بار بار ہونا، سینے میں بلغم کے نتیجے میں سانس لینے دشواری و سانس کا پھول جانا وغیرہ۔ دمہ بچپن سے ہی لاحق ہوجاتا ہے اور یہ ٹھیک بھی ہو جاتا ہے، جبکہ سی او پی ڈی بڑی عمر کے افراد میں ہوتی ہے اور مریض کو سانس لینے میں میں آسانیاں پیدا کرنے کی دوائیں تمام عمر دی جاتی ہیں یہ بیماری ٹھیک نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ تمباکو کئی اشکال میں استعمال ہوتا ہے۔ سگریٹ، تمباکو، حقہ، شیشہ پینا، اس میں نسوار بھی شامل ہے۔ اسے اگر 25 سال جاری رکھا جائے تو سی او پی ڈی کا مرض لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جب کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ فضائی آلودگی، گاڑیوں کا دھواں، گھریلو آلودگی اس بیماری کا باعث بنتی ہے جس کا سدباب کرنا لازمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سردیوں میں اس کی شرح زیادہ ہے جو ہر سال بڑھتی جاتی ہے۔ تنگی تنفس سے ہر سال کھانسی اور زکام ہو رہا ہے اور عام آدمی کو زیادہ دیر تک رہتا ہے تو ڈاکٹر سے تشخیص کرانا لازمی ہو جاتی ہے۔  بروقت علاج نہ ہونے اور جلدی تشخیص نہ ہونے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سانس کی نالیاں سکڑ جاتی ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس مرض کے کس اسٹیج پر کون سا علاج کریں اور کون سے ٹیسٹ اور ادویات مریضوں کو دی جائیں۔انہوں نے سمپوزیم کے شرکاء کو اس مرض سے آگاہی کو عام کرنے کی استدعا بھی کی تاکہ لوگوں کو معلومات فراہم ہوسکیں اور اس سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ نہ صرف یہ بلکہ بروقت علاج ہو سکے اور زندگی گزارنا آسان ہو سکے اور تکلیفات میں بھی کمی آسکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر خواتین دو گھنٹے بند کمرے میں جہاں ہوا کا مناسب گزر نہ ہو وہاں کھانا پکانا کریں تو ان کو بھی سگریٹ نوشی جیسے نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسے گھریلو آلودگی کا نام دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اینٹوں کی بھٹیوں میں جو ایندھن اور ربا جلائی جاتی ہے وہ صرف رنگ بدلنے اور اینٹوں کی اچھی کوالٹی ظاہر کرنے کے لئے ان کو زرد رنگ دینے کا دھوکا دیا جاتا ہے۔یہ زہر جو ہوا میں چھوڑا جارہا ہے اور گاڑیوں کا دھواں، دونوں پھیپھڑوں میں جاکر انفیکشن کرتا ہے۔ آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے جس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں فضائی آلودگی پر چیکنگ اور کنٹرول نہیں ہے۔سمپوزیم  کے آخر  میں ڈاکٹر زیبا حق نے ڈاکٹر فیصل اسد، ڈاکٹر زاہد اعظم اور پروفیسر افتخار احمد کو شیلڈز دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔