ہم زوال پذیر کیوں ہیں۔۔۔۔۔؟

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی  جمعـء 2 دسمبر 2022
 فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

معاشرت اور اخلاقیات دین اسلام کی بنیاد ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے کیوں کہ انسانی اخلاقیات پر ہی پُرسکون معاشرے کا انحصار ہے، پُرسکون معاشرہ بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔

اخلاق دنیا کے ہر معاشرے کا مشترکہ باب ہے کیوں کہ اچھے اخلاق و کردار کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اس سے قومیں بنتی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں۔ اخلاق کسی بھی معاشرے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتاؤں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرنا۔‘‘

موجودہ دور میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قرآن مقدس اور سنّت رسول اﷲ ﷺ نے جا بہ جا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔

آج پوری دنیا میں اختلاف و انتشار کی وجہ سے جو حالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ہمارے آپس کے عدم اتفاق کی وجہ سے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن عمل سے ہماری زندگی خالی ہے اور تعلیم قرآن و سنّت نبوی ﷺ سے ہم بہت دور ہیں، ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا، ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہوگئے۔

آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جا رہی ہے۔

اس جدید دور میں سیاسی انتہاء پسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کم زور بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ہماری دنیا میں آج عزت نہیں رہی۔ پہلی وجہ یہ کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا پھر ہم ادب و احترام کا رشتہ ہی بھول گئے جس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری، جب کہ دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جب کہ بُرے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہو جاتی ہے۔

اخلاق انسانیت کا زیور ہے کیوں کہ یہ وہ وصف ہے جو انسان کو جانوروں سے الگ کرتا ہے۔ اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر دور میں انسان کو صحیح راستے پر چلانے کے لیے، اس کی ہدایت، راہ نمائی اور اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے انبیائے کرامؑ بھیجے۔ رسول اﷲ ﷺ کو بھی اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا، چناں چہ آپ ﷺ نے عالم انسانیت کو اخلاقیت کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی۔

خود نبی کریم ﷺ اپنی اخلاقیت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم: ’’مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مَکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘ (بخاری)

لیکن آج ہمارے معاشرے کی حالت بہت زیادہ قابل رحم ہے، ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اب بھی دین سے بے خبر ہے، آج کا مسلمان دنیاوی مقام و مرتبے اور اس کے فانی اسباب و ساماں پر مر رہا ہے افسوس کا مقام ہے کہ آج کا بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود دین سے غافل ہے، ہمیں پتا ہی نہیں کہ دین کیا ہے، اخلاق کیا ہے، ایمان کیا ہے، حیا کیا ہے، عزت کیا، عزت کی حفاظت کیا ہے، انصاف کیا ہے۔

ہم بھول چکے ہیں ہمیں اس دنیا میں ایک مقصد کے خاطر اُتارا گیا ہے، یہ بات کہہ دی جائے تو شاید غلط نہیں ہوگی کہ آج کے مسلمان بس نام کے مسلمان رہ گئے، آج ہم مسلمان کی حیثیت سے زندہ نہیں ہیں، آج ہمارا اسلام صرف نام کی حد تک رہ گیا ہے۔ ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی تہذیب، اخلاقیات، ثقافت کا محاسبہ کرے، ہم اپنے دین اسلام کے ساتھ تہذیب و ثقافت کو بھی بھول گئے ہیں، ہم اخلاقی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی زوال کا شکار ہوگئے ہیں، آپ خود سوچیے اور اپنے اردگرد کا جائزہ لیجیے۔

آج ہمارے معاشرے کے لوگ اخلاقیات سے غافل ہیں، جس کی وجہ سے اخلاقی زوال، بے حیائی، اخلاقی اور سماجی برائی جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں، آج ہمارے معاشرے میں وہ کون سی برائی ہے جو موجود نہیں، آج ہمارے معاشرے میں یہ برائیاں وائرس کی طرح پھیل چکی ہیں اور ہماری نوجوان نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اب لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، ظلم و زیادتی، قتل و غارت، فساد، عیب جوئی، حسد، غرور و تکبّر، مفاد پرستی، دھوکا دہی، دوغلاپن، ملاوٹ، حرص، رشوت خوری، زنا کاری، سود و حرام خوری، ذخیرہ اندوزی، چوری، شراب نوشی، منشیات کا استعمال، ناجائز منافع خوری اور جُوا کھیلنا عام ہے۔

ہمارے نوجوان تربیت سے محروم ہیں، آج مسلم معاشرے کا حال اتنا خراب ہو چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا حق مارنے میں اپنے ایمان کا بھی سودا کر دیتے ہیں، جو تڑپ، جو درد، بے چینی، اور بے قراری ربّ کائنات کے لیے ہونی چاہیے تھی، وہ پیسوں کے لیے ہونے لگی ہے۔

ہماری تربیت اس طرح نہیں ہوئی ہے کہ ہم ایک وقت کی نماز چھوٹ جانے پر تڑپ اٹھیں، ہمیں تو مہینے اور سال گزر چکے ہیں نمازوں کو چھوڑے ہوئے، ہم صبح سویرے اٹھنے کے بہ جائے گیارہ، بارہ بجے اٹھتے ہیں، والدین، بھائی بہن، بیوی بچوں کو وقت دینے کے بہ جائے موبائیل فون کے ساتھ مشغول رہتے ہیں، نوجوان مساجد، مدارس اور تعلیم اداروں کے بہ جائے بے کار گھومتے رہتے ہیں۔

زندگی کے مسائل میں الجھے ہوئے لوگ ذکر الٰہی کرنے کے بہ جائے بے ہودہ موسیقی سن کر سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی پریشانیوں کو بُھول جائیں گے اور پھر سکون کی نیند سو جائیں گے، یہ صرف خود فریبی ہے۔

افسوس! آج اولاد کی تربیت نہ ہونے کے باعث ہمارا مسلم معاشرہ تباہ و برباد ہوگیا ہے، آج کل کے نوجوان مکتب جانے کے بہ جائے عیش و طرب کی محافل میں جانا ضروری سمجھتے ہیں، افسوس صد افسوس کہ یہ سب آج کے معاشرے کی پہچان بنتی جا رہی ہے، نشے کی لت جو ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح دن بہ دن پروان چڑھتی ہوئی برائیوں کی بنیاد ہے، آج ہمارے دلوں میں سکون نہیں ہے۔

ہم ڈپریشن کے شکار ہو چکے ہیں، معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ساری مصیبتوں اور پریشانیوں کے ذمے دار ہم خود ہیں، آج ہماری نسل نو کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی آخرت کو سنوارنے کے بہ جائے صرف دنیا سنوارنے کی فکر میں لگے ہیں اور یہی ہمارے دنیا و آخرت کا خسارہ ہے، آج مسلمان اپنے آپ پر غور کریں۔

کیا ہم با اخلاق اور با تہذیب معاشرے کے باسی کہلائے جانے کے قابل ہیں۔۔۔۔ ؟ ہمارے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم خود اپنی نسلوں کے دشمن ثابت ہو رہے ہیں، دنیا کی سب سے بہترین اور خوب صورت اسلامی تہذیب کو پامال کرنے میں ہم ہی سب سے آگے ہیں اور اپنے معاشرے میں اخلاقی بگاڑ کے بھی۔

جاگو! اب بھی وقت ہے اپنے معاشرے اور اخلاقیات کو سنوارنے کی فکر کرو، سوشل میڈیا کے مقابلے میں اپنے گھر والوں کو ترجیح دو، قرآن و حدیث کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر عمل کرو، آخرت کو سنوارنے کی فکر کرو، عمل صالح سے اپنے ایمان کو مضبوط کرو، اپنے بچوں کی تربیت دین اسلام کے مطابق کرو، انہیں بچپن سے ہی اسلام کے بارے میں بتاؤ اور مکارم اخلاق و کردار کے حامل بناؤ۔

ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’یقیناً! اﷲ بدلتا نہیں اس حالت کو جو کسی قوم کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ خود نہ بدلیں۔‘‘ (سورۃ الرعد)

والدین کے ساتھ اساتذہ سے بھی گزارش ہے کہ تعلیمی امور میں راہ نمائی کے ساتھ بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی خصوصی توجہ دیں۔ اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں مکارمِ اخلاق سے مزین و آراستہ ہونے اور ہماری آنے والی نسلوں کو دین اسلام پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔