تعلیم کی کسمپرسی!

جمیل مرغز  جمعـء 2 دسمبر 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

(سر کاری سکو لزاور کالجز کے ا سا تذہ اور محکمہ تعلیم کے ا فسر ا ن سے معذرت کے سا تھ)۔اس سال میٹرک اور دوسری کلاسوں کے نتائج تقریباً آچکے ہیں‘ سوات بورڈکے زیادہ پوزیشن ہولڈر طلباء کا تعلق پرائیویٹ اسکولوں سے ہے ‘سوات بورڈ کی پہلی پوزیشن والی طالبہ سوات ڈی ڈی ای او (DDEO)کی بیٹی ہے اور انھوں نے پرائیویٹ اسکول سے یہ پوزیشن حاصل کی ہے۔

بورڈ کے تمام ٹاپ ٹین پوزیشنز پرائیویٹ اسکولوں سے آنے پر سوات کے سرکاری اسکولز کی کارکردگی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں‘یہ صرف سوات کا نہیں بلکہ پورے ملک اورخصوصاً خیبر پختونخوا کے تمام  سرکاری تعلیمی اداروں کا مسئلہ ہے۔

محکمہ تعلیم کے گریڈ ایک سے لے کر گریڈ انیس، بیس، اکیس اور بائیس تک اعلیٰ افسران اورملازمین ہزاروں لاکھوں روپے تنخواہ اس بات کی لیتے ہیں کہ سرکاری اداروں کا معیار تعلیم بلند ہو لیکن بجائے اپنے تعلیمی اداروں کا معیار بلند کرنے کے یہ افسران اور اساتذ ہ کرام اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجتے ہیں‘اس سلسلے کا ایک اہم واقعہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔

2003 میں صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت تھی‘ صو با ئی و ز یر تعلیم کی ز یر صد ارت پشا ور سیکٹر یٹ میں ا یک تعلیمی کا نفر نس منعقد ہوئی‘ اس کا نفر نس میں صو بہ بھر کے محکمہ تعلیم کے ا فسر ان’ سیکریٹریز ’تما م ا ضلا ع کے محکمہ تعلیم کےEDO مو جود تھے‘ان کے علا وہ صو بہ بھر کے ضلعی نا ظمین بھی حاضر تھے ‘میں بھی اس کانفر نس میں نائب ضلع ناظم کی حیثیت سے ا پنے ضلع کی نما ئند گی کر ر ہا تھا۔

کانفرنس کا مقصد صو بہ سر حد میںتعلیم کے مسائل کا جائزہ لینا تھا‘ صوبے کے پا نچوں بورڈز کے چیئر مین جو ریٹائرڈ فوجی افسر تھے ، وہ بھی موجود تھے۔

محکمہ تعلیم کے EDOsاورکچھ ا فسر میری نشست کے ساتھ تشر یف فر ماتھے‘ چائے کا وقفہ ہوا، چائے نشستوں پر ہی پیش کی گئی ‘ افسران آ پس میں گپ شپ لگا ر ہے تھے اور میں خا مو شی سے ان کی با تیں سن ر ہا تھا‘وہ ا پنے بچو ں کی تعلیم کے با رے میں با ت چیت کر ر ہے تھے ‘ا یک صا حب کا بیٹا مری کانو نٹ میں ’ایک صا حب کابیٹا لندن میں’د و سر ے ا فسر کا بیٹا قائد اعظم سکو ل میں ’ ایک صا حب کا بیٹا لا ر نس کا لج میں ’ کسی کا بر ن ہا ل ا یبٹ آباد میں‘ ا یک صا حب کا بیٹا ایچی سن لاہور میں ’ ا یک خا تو ن ا فسر کی بیٹی سنیٹ میری’ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے‘ وہ آپس میں ان تعلیمی اداروں کے معیار اور ا پنی ا و لا د کی تعلیمی صو ر ت حا ل پر بحث کر ر ہے تھے‘میں یہ باتیں سن کر میر ے ذہن میں سو ال آ یا کہ کیا کانفرنس میں شریک اعلیٰ ا فسران میں کسی کا بچہ سرکاری اسکول یا کالج میںبھی پڑ ھتا ؟میں نے اس مسئلے پر ا پنے خیا لات کا ا ظہا ر بھی کیا لیکن وز یر تعلیم نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔

سر کا ری تعلیمی اداروں کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے ‘ا س کی کئی و جو ہا ت ہیں مثلاً تعلیم کے لیے بجٹ میں انتہائی کم رقم مختص کی جاتی ہے۔ سرکاری سکو لز میں سہو لیات کی شدیدکمی ہے ‘ پرائمری اور ہائی اسکولز کے ا سا تذہ کی تنخواہیں اور مر ا عا ت انتہائی کم ہیں، سرکاری اسکولز کے اساتذہ کی تعداد کم ہے جب کہ طلباء کی تعداد بہت ز یا دہ ہے‘ ایک کلا س میں 100-100 طلباء ہیں‘ میر ے گاؤں کے گر لز پر ا ئمری سکو ل میں سا ت کمر ے ہیں‘ اسا تذہ کی تعداد ا نیس اور طا لبات کی تعداد 800 ہے۔

سکو ل میں صحن بھی نہیں تھو ڑی سی جگہ میں چا ر کمر ے نیچے اور تین او پر تعمیر کیے گئے ہیں ‘ 8 ا کتو بر 2005 کے ز لز لے میں قسمت ا چھی تھی کہ بلڈ نگ بچ گئی ور نہ تمام طا لبات اور سٹا ف ممبر ان کے بچنے کی کو ئی امید نہیں تھی۔

صوبائی حکو مت کی تر جیحات میں بھی شاید تعلیم کا محکمہ شا مل نہیں ہے۔جزا و سزاکا کوئی سسٹم نہیں ہے‘ چونکہ افسران اور اساتذہ کے اپنے بچے ان سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھتے، اس لیے سرکاری اسکولز کی خراب کاکردگی پرکوئی نہیں پوچھتا۔

ا سلا میہ کا لج اور ا یڈ ور ڈ ز کالج ہما ر ے صوبے کے دو بہتر ین کا لج ہیں‘ ان میں د ا خلہ لینا ہر طالب علم کا خواب ہوتا ہے‘ ان اداروں میں داخلہ میر ٹ پر ملتا ہے ‘ ا گر پچھلے دس برس کا ریکارڈ چیک کیا جا ئے تو پتہ چلے گا ان کالجز میں کبھی کسی سرکاری سکو ل کے میٹرک پا س طلباء کو د ا خلہ نہیں ملا کیو نکہ یہ طلباء کے نمبرز کم ہوتے ہیں اور یوں وہ میر ٹ پر پورا نہیں ا تر تے‘ تمام د ا خل طلباء کا تعلق پر ا ئیوٹ تعلیمی اداروں سے ہو تا ہے ‘ما لدار اور کھاتے پیتے گھر ا نو ں کے بچے تو پرائیویٹ سکو لز میں پڑ ھتے ہیں۔

ان کو اچھے کالجوں اور اس کے بعد پروفیشنل اداروں میں داخلہ مل جاتا ہے‘ سر کا ری سکو ل صر ف غر یب کے بچو ں کے لیے رہ گئے ہیں، انھیں داخلے بھی ان سرکاری کالجوںمیں ملتے ہیں جہاں میرٹ بہت کم ہوتا ہے۔

موجودہ بجٹ سسٹم میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کم جب کہ غیر پیداواری، غیرترقیاتی اخراجات کے لیے زیادہ رقم مختص کی جاتی ہے۔ تعلیم کے لیے تو سب سے کم وسائل رکھے جاتے ہیں اور ان میںبھی غیر پیداواری اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔

2003/04 ضلع صوابی کا بجٹ جب میں نے ضلعی ا سمبلی سے پا س کر ایا تھا تو ا س کا کل حجم ایک ا ر ب رو پے تھا‘ اس میں ترقیا تی مد میں تین کروڑ رو پے ‘پا نچ کروڑ نان سیلری ا کاؤنٹ کے تھے اور 92 کروڑروپے سرکاری ملا ز مو ں کی تنخواہیں تھیں‘ لا کھو ں ا سا تذہ کرام اور ا نتظا می عملہ مو جو د اسکیلوں کے مطا بق اچھی تنخو اہیں و صو ل کر ر ہے ہیں‘ان کے مقا بلے میں پر ا ئیو یٹ سکو لو ں کے ا سا تذہ کی تنخواہیں بھی کم ہیںاور وہ تعلیم کے مید ان میں تر بیت یا فتہ بھی نہیں ہو تے لیکن ان کے ر یزلٹ ا چھے ہو تے ہیں۔

میںنے اس مسئلے کا بغور جا ئزہ لیا ہے‘ میرے اندازے کے مطا بق سر کا ری سکو لو ں کے 95% اساتذہ اور% 100ا فسر ان کے بچے پرائیو یٹ اسکولوں میں پڑھ ر ہے ہیں، ما لدار گھرانو ں کے بچے تو پہلے ہی سر کا ری سکو لو ں سے جا چکے ہیں‘ با قی غر یبو ں کے بچے رہ گئے ہیں، ان کی تعلیم و تر بیت کی ذ مہ دا ری اسا تذ ہ کر ا م اور محکمہ تعلیم کے ا فسر ان کی ہے لیکن ان ’’معماران قوم‘‘ نے بھی ا پنے لخت جگر پرا ئیو یٹ اداروں میں د ا خل کر د یے ہیں۔

اس کا تو و ا ضح مطلب یہ ہے کہ خود ان ا سا تذہ کر ام اور ا فسر ان محکمہ تعلیم کا اپنے اداروں پر ا عتما د نہیں ‘یہ لو گ خو د ا پنے نظام تعلیم اور معیار تعلیم سے مطمئن نہیں‘ اس سے زیادہ المیے کی بات کیا ہوگی کہ ایک معمار اپنی تعمیر سے مطمئن نہ ہو اور پھر بھی پیسے لے رہا ہو ‘اوپر سے یہ لو گ نظا م تعلیم کے پست ہو نے کا رو نا رو تے ہیں حا لا نکہ ا س خر ا بی کے کچھ حد تک یہ اساتذہ بھی ذمے دار ہیں جو محکمہ تعلیم سے ہزارو ں، لاکھوں روپے تنخواہ و صو ل کر تے ہیں ‘بقو ل شا عر

؎ تما م رات جو خند ق میں ر یت بھر تا ر ہا

ا سی کو شہر کی خا طر اداس بھی د یکھا

طبقا تی نظام تعلیم نے غر یبو ں کے بچو ں پر اچھی تعلیم کے دروازے بند کر رکھے ہیں‘ ا سا تذہ کر ام بھی اسی طبقاتی نظام تعلیم کو تقو یت دے ر ہے ہیں‘ غریب کے بچو ں کے پڑ ھا نے کے ہزاروں رو پے تنخو اہ اور دیگر مر ا عا ت و صو ل کر نا اور ا پنے بچوں کو د یگر اداروں میں پڑ ھنے کے لیے بھیجنا کہاں کی د یا نتداری ہے ؟ کیا غریب کے بچے اچھوت ہیں ۔

حکمر ا نو ں کی خد مت میں عر ض ہے کہ ا گر معیارتعلیم میں کچھ بہتری لا نا چا ہتے ہیں تو ا یک قا نو ن پاس کر یں کہ جو بھی شخص سرکاری خزانے سے تنخو اہ لیتا ہے، اُس کا بچہ سرکاری اداروں میں تعلیم حا صل کر ے گا‘اسی طرح تمام سرکاری ملازمین کو پابند کیا جائے کہ وہ خود اور ان کے خاندان سرکاری اسپتالوں میں علاج کرایں گے۔

اگر یہ کام مشکل ہو تو مہربانی سرکاری اداروں کو بند کردیں اوران محکموں کے افسروں اور ملازمین پر خرچ ہونی والی رقم کسی اور کام میں خرچ کریں۔عمرانی معاہدے میں ریاست کی ذمے داریوں میں شہریوں کو جان ومال کی حفاظت‘تعلیم‘ علاج اور روزگار کی ذمے داریاں تفویض کی گئی تھیں‘ شہریوں کے فرائض میں ریاست سے وفاداری اور احکامات کی تعمیل شامل تھی ‘پاکستان میں حکومت اپنے فرائض سے دستبردار ہو کر اپنے اختیارات اور استحقاق و مراعات تک محدود ہوگئی ہے جب کہ طبقہ امراء کو قانون سے مبرا کردیا ہے ۔

؎شکو ہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کو ئی شمع جلا تے جا تے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔