مسئلہ حل ہو گیا؟

رئیس فاطمہ  جمعـء 2 دسمبر 2022
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

شکر ہے آرمی چیف کا معاملہ اپنے اختتام کو پہنچا ، ایک عجیب ہیجان پھیلا ہوا تھا پورے ملک میں ، ہر طرف یہی چرچا تھا کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا؟ دورے ہو رہے ہیں، تقریریں ہو رہی ہیں کہ کسی طرح سب کچھ ’’ ان ‘‘ کی مرضی سے ہو جائے۔

پتا نہیں اس مسئلے کو اتنا الجھا کیوں دیا گیا تھا ؟ سرکاری ملازمین کے ٹرانسفر اور ریٹائرمنٹ معمول کا حصہ ہیں۔ طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جو سینئر ہوتا ہے اسے ترقی مل جاتی ہے۔

کالجوں میں جب کوئی پرنسپل ریٹائر ہوتا تھا تو پورے کراچی کی سینیارٹی لسٹ سامنے رکھی جاتی تھی، جو سینئر ہوا اسے پرنسپل بنا دیا ، پھر کچھ عرصہ قبل یہ طریقہ کار طے کر لیا گیا کہ جس کالج میں وہاں کا پرنسپل ریٹائر ہوگا ، اس کالج میں جو سینئر ترین پروفیسر ہوگا وہ چارج سنبھال لے گا، اب یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔

سرکاری ملازم کو ایک دن ریٹائر بھی ہونا پڑتا ہے، جن کے تعلقات اعلیٰ حکام سے ہوتے ہیں وہ ملازمت میں توسیع کروا لیتے ہیں، ہمارے کئی ایسے اساتذہ بھی تھے جن کا ڈومیسائل اندرون سندھ کا تھا، ان کی یاد اللہ اندرون سندھ کے پارٹی لیڈر سے تھی، اس لیے کئی لوگ اس ’’ نعمت‘‘ سے فائدہ اٹھاتے رہے ، لیکن پھر بھی ایک دن وہ ریٹائر ہوگئے۔

البتہ پرائیویٹ اداروں میں کارکردگی کی بنا پر ریٹائر ہوتے ہیں ، جو ملازم اداروں کے لیے کارآمد ہوتا ہے، ادارے اس کی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

لیکن یہاں معاملہ بڑا عجیب تھا، کوئی جانے کو تیار ہی نہیں تھا، لگتا تھا گزشتہ کئی ماہ سے صرف یہی گفتگو ہو رہی تھی کہ ’’اگلا‘‘ کون ہوگا؟ لوگ سارے مسائل بھول گئے تھے، نہ مہنگائی کا رونا تھا نہ بجلی اور گیس کی دہائی تھی۔

مسلسل ایک ہی ریکارڈ بج رہا تھا، اس سے پہلے کبھی اتنا شور نہیں مچتا تھا، اس سسٹم کو باقاعدگی سے کیوں نہیں چلنے دیا جاتا ، یہاں بھی سیاست کارفرما ہے۔ جب کسی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا وقت آئے تو سیدھا سادے طریقے سے سینئر موسٹ کو اقتدار سونپ دیا جائے، لیکن یہ طریقہ مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کا ہے۔

ہمارے جیسے کشکول تھامے ملکوں کا نہیں۔ عجیب طریقے کی افراتفری مچی تھی، کچھ لوگ جنرل فیض حمید کا نام لے رہے تھے، لیکن انھیں عمران خان کی قربت لے ڈوبی اور اب جیسے قوم کو سکون آگیا، ان کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہو گیا۔ اب وہ چین کی نیند سوئیں گے۔

دراصل سوشل میڈیا نے اس بات کو بہت ہائی لائٹ کیا ، جسے دیکھو وی لاگ بنا رہا ہے، ہر اینکر سقراط بنا ہوا ہے اور اس ہنگامہ خیزی کی وجہ سے وہ لوگ بھی اس بحث میں انوالو ہوگئے جن کا لینا دینا کچھ بھی نہ تھا۔

کیا مہنگائی آرمی چیف کنٹرول کر پائیں گے، کیا گیس اور بجلی کا بحران ان کے لیے چیلنج ہوگا ، کیا ملک کی خارجہ پالیسی مفاہمت کی ہوگی یا جنگ کی؟ وزیر اعظم کہتے ہیں ’’امن سے رہنے کے لیے جنگ کی تیاری رکھنا ہوگی۔‘‘

سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ امن سے رہنے کے لیے امن ہی کی ضرورت کیوں نہیں؟ پہلی دو جنگوں کا حال ہمارے سامنے ہے، کیا کھویا کیا پایا؟۔ سندھ میں بلدیاتی الیکشن ایک پارٹی کے کہنے سے مسلسل ملتوی کیے جا رہے ہیں ، کیونکہ انھیں پتا ہے کہ وہ جیت نہیں پائیں گے، اسی لیے ہنگامی بنیادوں پر کچھ کچی پکی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں، کراچی اب ایک کھنڈر کی صورت پیش کر رہا ہے۔ ووٹ لینے کے لیے راتوں رات تارکول اور بجری ملا کر گڑھوں کو بھرا جا رہا ہے۔

جو ایک بارش کی مار ہیں۔ شام سات بجے تک سڑک ٹوٹی پھوٹی اور اگلے دن صبح اٹھ کر دیکھیں تو سڑک بن گئی۔ کام چلاؤ ہو رہا ہے اور ٹی وی پر اشتہار دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ لندن میں آگئے ہوں۔ اب تو جنگیں بھی سوشل میڈیا پہ لڑی جا رہی ہیں۔

چہ جائیکہ ’’بلدیاتی الیکشن کی جنگ‘‘ جتنا سرمایہ آپ کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر خرچ کر رہے ہیں وہ سب سڑکوں کی تعمیر اور کچرا اٹھانے پر لگا دیں تو یقینا لوگ ووٹ دیں گے، آج عوامی شعور بیدار ہو چکا ہے۔ جن پارٹیوں کو جیتنے کی امید ہے وہ مسلسل الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہیں، لیکن جنھیں اپنی ہار کا خوف ہے، وہ الیکشن ملتوی کروا رہے ہیں۔

کراچی اب سدھرنے والا نہیں، عمران خان کراچی سے جیتے اور بس اس کے بعد انھوں نے پلٹ کر اس شہر کو نہ دیکھا۔ اسی لیے میں کہتی ہوں کہ عمران خان اگر دوبارہ اقتدار میں آگئے تو کیا کریں گے؟بات ہو رہی تھی نئے آرمی چیف کی کہ سوشل میڈیا نے ایک ہیجانی کیفیت میں عوام کو مبتلا کردیا تھا۔

پہلے اتنا شور نہیں مچتا تھا، لیکن اب مخصوص گروپوں نے سوشل میڈیا  کو ایک عذاب بنا ڈالا ہے، بلا ضرورت لوگ سب کچھ جاننا چاہتے ہیں، ضرورت ہو یا نہ ہو لیکن فیس بک اکاؤنٹ بھی بنے گا، واٹس ایپ تو ایسا ہی ضروری ہے جیسے پانی پینا، ٹویٹر بھی رہے گا کہ اس کے بنا چارہ نہیں۔ آج جس طرح اسمارٹ فون استعمال کیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔

رکشے والا ہو یا ویگن ڈرائیور یا گھروں میں کام کرنے والیاں سب کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہونا بہت ضروری ہے۔ میرے گھر ایک لڑکی کام کرنے آتی ہے، بالکل ان پڑھ۔ لیکن رکھتی وہ اسمارٹ فون ہے۔ میں نے پوچھا کہ تم نے یہ فون کیوں لیا؟ تو بولی ’’میری خالہ کی بیٹی کے پاس بھی ہے اور ماموں کی بیٹیوں کے پاس بھی۔ وہ اتراتی تھیں، اسی لیے ہم بہنوں نے بھی اپنے اپنے پیسے جمع کرکے اسمارٹ فون لیے۔‘‘ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کی ہر ایجاد کو ہم بلا سوچے سمجھے استعمال شروع کردیتے ہیں۔

دور کیوں جائیے، وی سی آر کا زمانہ تو یاد ہی ہوگا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اسے میڈیکل کے اسٹوڈنٹ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور ہمارے ہاں صرف فلمیں دیکھنے کے لیے۔ فحش فلموں کی نمائش سے لوگوں نے گھر بنا لیے، راتوں کو جاگ کر تین تین فلمیں دیکھنا کہ صبح مالک واپس لینے آجائے گا۔ پاگل ہوئے رہتے تھے لوگ۔ اب یہی حال اسمارٹ فونز کا ہے۔

خاص طور سے نئی نسل اس جنون میں اس بری طرح گرفتار ہے کہ دیکھ کر خوف آتا ہے، پڑھائی کے اوقات میں بھی اس کا استعمال ناگزیر ہے۔ نئی نئی ویب سائٹس تلاش کرنا، دوستوں سے گپ شپ کرنا، بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز بنانا اب سوشل میڈیا کا بنیادی مقصد لگتا ہے۔

دعا زہرا کا کیس آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ایک کم عمر بچی کئی ماہ پہلے کراچی سے اغوا ہو کر لاہور پہنچی اور پھر کیا کیا ہوا؟ بچی یہ سطور لکھنے تک شیلٹر ہوم میں ہے، وجہ؟ اسمارٹ فون! پب جی گیم کے ذریعے ظہیر مالی سے دوستی ہوئی اور لڑکی حیرت انگیز طور پر لاہور پہنچ گئی، لڑکی قطعاً معصوم نہیں وہ پوری طرح ظہیر اور نور بی بی کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھی۔ وہ اسے رومان سمجھ رہی تھی لیکن جب حقیقت آشکارا ہوئی تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔

والدین کی ذمے داریاں موجودہ ماحول میں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اب فرسٹ ایئر سے لے کر یونیورسٹی لیول تک ہر طالب علم کے پاس اسمارٹ فونز ہیں۔ بچے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کیا کر رہے ہیں۔ میں پہلے بھی اس جانب توجہ دلا چکی ہوں، آپ پیزا پوائنٹ چلے جائیے یا کسی برگر ریسٹورنٹ، ہر جگہ یونیفارم پہنے یا عبایہ پہنے لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔

دیر سے آنے کا بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ ’’ایکسٹرا کلاس‘‘ ہو رہی تھی، والدین کو خصوصاً ماؤں کو کالج یا یونیورسٹی جا کر اساتذہ سے پتا کرنا چاہیے کہ کیا واقعی ایسا ہے یا پھر یہ ’’ایکسٹرا کلاس‘‘ کسی کیفے میں کسی لڑکے کے ساتھ تو نہیں ہو رہی؟ سائنس کی طالبات پریکٹیکل کا بہانہ بنا کر چار چار بجے تک غائب رہتی ہیں، اوباش لڑکوں کے ساتھ گھومنا اور پوچھ گچھ پر ماں کا باتیں سنا دینا، بہت عام سی بات ہے۔

دعا زہرا کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ والدین کو اپنے بیٹوں اور بیٹیوں پر نظر رکھنی چاہیے، خصوصی طور پر لڑکیوں پر نظر رکھنا اس لیے بہت ضروری ہے کہ ’’چھری خربوزے پہ گرے یا خربوزہ چھری پر، نقصان ہر صورت خربوزے ہی کا ہوتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔