میری کہانی، میری زبانی (دوسرا حصہ )

شکیل فاروقی  جمعـء 2 دسمبر 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

قصبہ کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ یہ باقاعدہ خانوں میں تقسیم تھا۔ ایک طرف ہندو آبادی تھی تو دوسری طرف مسلمان تھے۔ہندو بھی مختلف ذاتوں کے حساب سے مزید خانوں میں تقسیم تھے۔

مسلمانوں والا حصہ بھی کچھ اسی طرح تقسیم تھا جس میں ایک جانب محلہ قصاباں تھا اور دوسری جانب الگ الگ دیگر محلے تھے جو محلہ لوہاراں و بڑھئیان، محلہ شیخان اور محلہ قاضیان اور دیگر ذاتوں اور پیشوں پر مشتمل تھا لیکن بگھرہ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ تمام لوگ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک تھے۔

امیر اور غریب آپس میں مل کر رہتے تھے اور کسی قسم کی اونچ نیچ نہیں تھی۔ غالباً یہ اسی ماحول کا اثر تھا کہ میری شخصیت میں کسی قسم کا بھید بھاؤ نہیں ہے اور میں بہت جلد لوگوں میں گھل مل جاتا ہوں۔

میرے پاس ایک بڑا ہتھیار ہے جس کے آگے ایٹم بم بھی ہیچ ہے۔ یہی وہ ہتھیار ہے جو ہر جگہ کامیاب ہوتا ہے اور فتح میری ہی ہوتی ہے۔ میری پیشہ وارانہ زندگی میں بھی مجھے کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ میرے پاس یہ ہتھیار تھا۔

اسی ہتھیار کی وجہ سے میرے افسران بالا جہاں کہیں بھی میرا تبادلہ کر دیتے تھے وہاں اگر کوئی جھگڑا فساد ہوتا تھا تو شعلے خواہ کتنے ہی بھڑکے ہوئے کیوں نہ ہوں ان پر پانی پڑ جاتا تھا۔

مجھے یقین ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوںگے کہ آخر یہ کون سا ہتھیار ہے؟ تھوڑا سا صبر اور کر لیجیے پھر میں اس ہتھیار کا نام بتاؤں گا۔ یہ ہتھیار انتہائی کارگر ہونے کے باوجود بہت سستا ہے بلکہ بے مول ہے اور اس کا نام ہے محبت ۔آخر اقبالؒ نے یونہی تو نہیں کہا کہ محبت ’’ فاتح عالم‘‘ ہے۔

میرے قصبہ کی فضا نہایت صحت افزاء اور خوشگوار تھی۔ میرے ننھیال والے اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ تھے۔گھر میں بھینسیں موجود تھیں جن کا دودھ ہم پانی کی طرح پیتے تھے اور جن کے دودھ سے نکالا گیا گھی اور مکھن ہماری غذا میں شامل تھا۔ہمارے کھیتوں میں مختلف اجناس کی کاشت ہوتی تھی جن میں گندم ، چاول، دالیں اور کھانے کی دیگر اشیاء شامل تھیں۔گنا ان تمام اجناس میں سرفہرست تھا اور یہی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا جس سے پورے کنبہ کی نہایت آرام کے ساتھ گزر اوقات ہونے کے علاوہ پوری معیشت چلتی تھی۔

بات ادھوری رہ جائے گی اگر اپنے تعلیمی کیریئر کا تذکرہ نہ کیا جائے جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں، ہماری ابتدا امدادی مکتب سے ہوئی جہاں ہر ہفتہ بیت بازی کا مقابلہ ہوتا تھا۔ درجہ دوم کے لڑکوں کو دو گروپوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور پھر مقابلہ شروع ہوجاتا تھا۔

ہر گروپ کے لڑکوں کا تقاضہ ہوتا تھا کہ مجھے ان کے گروپ میں شامل کردیا جائے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ مجھے بہت زیادہ اشعار یاد تھے جس کا سبب یہ تھا کہ میرے منجھلے ماموں جو میرے استاد ہونے کے علاوہ مجھے اکثر رات کو سونے سے پہلے نظمیں سنایا کرتے تھے۔ سچ پوچھیے تو اسی کے نتیجہ میں مجھے شاعری کا چسکا لگا۔

بیت بازی میں میری کامیابی کا سبب یہی تھا اور میں جب کہیں پھنس جاتا تھا تو مجھے اپنا شعر گھڑ لینے میں زیادہ دیر نہیں لگتی تھی۔ منجھلے ماموں نے اردو اور انگریزی زبان سکھا کر میری فاؤنڈیشن تعمیر اور مضبوط کی جب کہ بڑے ماموں نے کہانیاں سنا سنا کر مجھ میں فکشن کا ذوق پیدا کیا جو آگے چل کر میرے بہت کام آیا۔ عرض یہ ہے کہ میری ابتدائی تعلیم و تربیت میں منجھلے ماموں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

اﷲ تعالٰی ان کی اور میرے دوسرے ماموؤں اور میرے نانا نانی اور خلد آشیانی خالاؤں کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔(آمین) جنہوں نے میری پرورش میں میرے والدین سے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جو مجھے اپنے والدین سے زیادہ عزیز ہیں۔

مجھے اپنی نالائقی کا اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ میں ان کی وہ خدمت نہیں کرسکا جو ان کا حق بنتا تھا، تاہم میری زندگی میں جو بھی روشنی ہے وہ ان کی یادوں کے چراغوں کی مرہون منت ہے۔ مجھے جب بھی اپنے بچپن کی یاد آجاتی ہے تو پھڑک اٹھتا ہوں اور نوک زبان پر مضطر خیر آبادی کا یہ شعر آجاتا ہے:

اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے

کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

سردی ، گرمی اور برسات کے وہ موسم رہ رہ کر یاد آتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں بلا کی گرمی کہ چیل انڈہ چھوڑے۔ کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے :

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ

بہا چوٹی سے ایڑھی تک پسینہ

بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا

ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایہ

سورج کی شعاؤں سے بھیجا پگھلتا ہوا محسوس ہوتا تھا اور لو کی شدت سے جسم جلنے لگتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کھیتوں سے پک کر نکل آنے والے گندم کو کھلیانوں میں چھلکے سے الگ کیا جاتا تھا۔

اس عمل کو گاہنے کا عمل کہا جاتا تھا اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ زمین پر بھوسے سمیت اناج کو پھیلا دیا جاتا تھا اور اس پر جھاڑ جھنکاڑ کے ذریعہ دو بیلوں کو جوت کر گھما گھما کر کچل کے چھلکے اور گندم کو الگ کیا جاتا تھا۔ اس عمل کی تکمیل میں کم و بیش ایک ہفتہ لگ جاتا تھا۔اس مرحلہ سے گزر کر غلہ کو بھوسے ( پنجاب میں توڑی کہا جاتاہے) سمیت کھڑے ہوکر چھاجوں کے ذریعہ ہوا میں لہرا کر گندم کو چھلکے سے علیحدہ کیا جاتا تھا۔اس کام میں بچے ہنسی خوشی حصہ لیتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی تھریشر کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا جس نے آج کے کسان کی زندگی آسان کر دی ہے۔

غلہ اور بھوسہ الگ الگ ہوجانے کے بعد غلہ کو بوریوں میں بھر کر گھر پہنچا دیا جاتا تھا اور بھوسہ کو سمیٹ کر بوروں میں بھر کر مٹی کے بنے ہوئے کچے کمروں میں محفوظ کردیا جاتا تھا اور یہ بھوسہ یا توڑی مویشیوں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔