- ملک میں زلزلے سے جاں بحق افراد کی تعداد 9 ہوگئی
- عمران خان کی ضمانت منظوری کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
- مہنگی ترین اشیا، شہری محدود خریداری پر مجبور
- 2022 ، سندھ میں کاروکاری کے الزام میں 152 خواتین اور 65 مرد قتل
- سحری کے اوقات میں گیس ملے گی یا نہیں، شہری پریشان
- ون ڈے ورلڈکپ؛ ممکنہ تاریخوں اور وینیوز کو شارٹ لسٹ کرلیا گیا، نام سامنے آگئے
- ذیابطیس کے 4 لاکھ مریض معذور ہوجاتے ہیں، ماہرین طب
- شکر کا جذبہ، شدید ذہنی تناؤ کو کم کر سکتا ہے
- کمسن بچوں کے ساتھ خودکشی کے واقعات
- ٹیم کا مزاج بدلنے کیلیے شاہین موزوں کپتان قرار
- گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے وقت ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے
- افغانستان سے سیریز، عباس آفریدی کو منتخب نہ کیے جانے پر مدثر نذر حیران
- رمضان کے آخری عشرے میں حرمین شریفین کیلیے پرمٹ کی شرط ختم
- دنیا کا اولین کمپیوٹر ماؤس اور کوڈنگ سیٹ، 178,936 ڈالر میں نیلام
- ایشیاکپ پی سی بی کیلیے گلے کی ہڈی بن گیا
- ون ڈے ورلڈکپ، بھارت گرین شرٹس کو ویزے دینے پر آمادہ
- کراچی میں ہلکی اور تیز بارش، موسم خوشگوار
- تحریک انصاف پر پابندی کے اشارے مل رہے ہیں، زلمے خلیل زاد
- تحریک انصاف کی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنے کی دعوت
- عرب امارات: رمضان کی آمد پر 1 ہزار 25 قیدیوں کی رہائی کا حکم
افغانستان میں حزب اسلامی کے مرکزی دفتر پر حملہ؛ گلبدین حکمت یار محفوظ رہے

حملے کے وقت گلبدین حکمت یار مرکزی دفتر کے اندر موجود تھے، فوٹو: فائل
کابل: گلبدین حکمت یار کی جماعت حزب اسلامی کے ہیڈکوارٹر میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران ایک کار دھماکے میں تباہ ہوگئی جس میں دو حملہ آور ہلاک گئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں روسی قبضے کے خلاف طویل عسکری جدوجہد اور 1996 میں وزیراعظم بننے والے گلبدین حکمت یار کی جماعت حزب اسلامی کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا گیا ہے۔
جس وقت حزب اسلامی کے مرکزی دفتر پر حملہ کیا گیا، گلبدین حکمت یار بھی اندر موجود تھے۔
حملہ آوروں کی تعداد تین تھی جو ایک کار میں سوار تھے۔ کار نے ہیڈکوارٹر میں داخل ہونے کی کوشش کی، گارڈز نے فائرنگ کردی اور کار میں دھماکا ہوگیا جس میں 2 حملہ آور مارے گئے جب کہ ایک فرار ہوگیا۔
حزب اسلامی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ دھماکا مرکزی دروازے کے باہر ہوا اور حملہ آور اندر گھسنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہیڈکوارٹر کے باہر عمارت کو معمولی نقصان پہنچا۔
گلبدین حکمت یار جو اس حملے کے وقت وہاں موجود تھے۔ حملے میں محفوظ رہے۔
دوسری جانب ضلعی پولیس کا دعویٰ ہے کہ حملے کے بعد فرار ہونے والے تیسرے حملہ آور کو حراست میں لے لیا ہے جس سے تفتیش جاری ہے۔
خیال رہے کہ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بیرون ملک منتقل ہوگئے تھے اور حامد کرزئی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی نگرانی کرتے رہے۔
بعد ازاں 2016 میں اشرف غنی حکومت کے ساتھ امن معاہدے کے بعد افغانستان واپس آئے اور انتخابات میں بھی حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور تاحال طالبان حکومت میں بھی جگہ نہیں بنا پائے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔