چناب کلب

راؤ منظر حیات  ہفتہ 3 دسمبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

اسد محمود کا فون آیا کہ جناب کلب کا سالانہ الیکشن ہے۔ ووٹ ڈالنے ضرور آنا ہے۔ اسد میرا چھوٹ بھائی ہے۔ کلب کا سیکریٹری بھی رہ چکا ہے۔ حد درجہ محنتی اور فعال نوجوان ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لائل پور جاتے ہوئے حد درجہ اضطراب کا شکار ہو جاتا ہوں۔

یہ شہر میرے شعور اور لاشعور دونوں میں اس طرح رچ بس چکا ہے کہ اسی کیفیت میں سانس لیتا ہوں۔ والدین کی قبریں بھی وہیں ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ والد اور والدہ کی قبریں ‘ قبرستان میں ہوتی ہیں۔ نہیں صاحب اپنے محترم قریبی افراد کی قبریں تو دل میں ہوتی ہیں۔جن میں ان کا ہر نقش محفوظ ہوتا ہے۔

آپ انھی یادوں کے سہارے زندہ رہتے ہیں۔ میرے جیسا جذباتی انسان تو اپنے والدین کی قبروں سے ہر دم جڑا رہتا ہے۔ بہرحال بات اسد کی ہو رہی تھی۔ چھوٹے بھائی کے حکم کو ٹالنا ناممکن ہوتاہے۔ ہماری سماجی روایت یہی ہے کہ نزدیکی لوگوں کی باتوں کا بھرم رکھا جانا لازم ہوتا ہے۔

ارادہ کر لیا کہ لائل پور جانا ہے اور الیکشن میں ووٹ ڈالنا ہے۔ میجر سجاد اکبر مرحوم کا بیٹا سیکریٹری کے لیے امیدوار تھا۔ میجر سجاد صاحب سے نسبت رہی ہے۔ شاندار آدمی تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ عارف خان سے کلب کے الیکشن کی بات ہوئی۔خان صاحب بھی کلب کے ممبر ہیں۔ انھوں نے بھی ووٹ ڈالنا تھا۔ دونوں نے وقت متعین کر لیا کہ دوپہر ایک بجے‘ دفتر سے سیدھا لائل پور کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔

ووٹ ڈال کر واپس آ جائیں گے۔ ایک دم ذہن میں آیا کہ افتخار چوہدری کو بھی دعوتِ سفر دی جائے۔ چوہدری صاحب بیچ میٹ اور قریبی دوست ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی‘ ڈاکٹر وقار کا کچھ دنوں پہلے انتقال ہوا تھا۔ افتخار حد درجہ دکھ کی کیفیت میں تھا۔

خواہش تھی کہ چوہدری صاحب ہمارے ساتھ لائل پور جائیں۔ چند گھنٹوں کے سفر سے زندگی کا بوجھل پن بھی قدرے کم ہو جائے گا اور’’معیاری گفتگو‘‘ بھی ہوتی رہے گی۔ بتاتا چلوں کہ افتخار چوہدری کا تعلق بھی لائل پور سے ہے۔ وہیں تعلیم حاصل کی اور پھر سول سروس میں آ گئے۔

ان کے زبان و بیان میں آبائی شہر کی چھاپ مضبوطی سے لگی ہوئی ہے۔ بہت کم لوگوں کو اندازہ ہو گا کہ لائل پور کے مقامی لوگوں کی گفتگو کا لہجہ حد درجہ منفرد ہے۔ جیسے ہی کوئی مقامی بندہ بات شروع کرتا ہے۔ بڑے آرام سے بتا سکتے ہیں کہ موصوف کا آبائی شہر لائل پور ہے۔ جیسے برادرم افتخار بولتے ہوئے ’’لدھیانہ‘‘ کو طویل کر کے ’’لدھیھانہ‘‘ کہتا ہے۔

خیر آج سے چار دن پہلے عارف خان‘ افتخار چوہدری اور خاکسار‘ عازم سفر ہوئے۔ چوہدری صاحب کو سول سروس کے بیچ یعنی 1984بنچ کی بلبل کہتا ہوں۔ کسی بھی مجلس میں افتخار خاموشی سے بیٹھا رہے گا۔ لمبی مونچھوں کے نیچے مسکراتا رہے گا۔ پھر یک دم ایک ایسی پھلجھڑی چھوڑے گا کہ محفل کشت زعفران بن جائے گی۔ کم گو انسان مگر حد درجہ معیاری حس مزاح رکھنے والا نایاب شخص۔

لائل پور پہنچے۔ تو ایک ایک سڑک‘ قریہ اور کوچے کی ماضی سے جڑی ہوئی زندگی نظروں کے سامنے آنے لگی۔ معلوم ہوتا تھا کہ گزرے ہوئے کل کی بات ہے مگر یہ سب کچھ پانچ دہائیاں پہلے ‘ یعنی پچاس برس پہلے کا قصہ ہے۔ پچھلی صدی کا۔ لائل پور میں ہر چیز بدل چکی ہے۔

آبادی کا سیلاب‘ ٹریفک کااژدھام‘ درختوں کا قتل اور عمارتوں کا بے ضابطہ جنگل‘ اب پرانے لائل پوریوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی میرا اپنا شہر ہے۔ پتہ نہیں لوگ‘ کس طرح اسے ترقی کا نام دیتے ہیں۔ لندن میں سیکڑوں برس پرانی عمارتوں کو اس طرح محفوظ رکھا گیا ہے کہ ان کا کلچر بنیادی طور پر تبدیل نہیں ہوا۔

لندن شہر کے مسائل تو بہر حال ہیں۔ مگر گورے نے اپنی ہر تاریخی چیز کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کی ہے۔ عرض کروں گا کہ موجودہ فیصل آباد اور اپنے شہر لائل پور کو کسی صورت بھی یکجا نہیں کر پایا۔ چناب کلب پہنچے۔ پارکنگ کا کوئی باضابطہ نظام نہیں تھا۔ جس کی مرضی جہاں پر عود آئی۔

وہی پر گاڑی لگا کر کلب کے اندر چلا گیا۔ کوشش کے باوجود پارکنگ کے لیے کوئی معقول جگہ نہ مل پائی ۔ مجبوراً گاڑی ڈرائیور کے حوالے کر کے کلب آ گئے۔ اسد نے میرا کلب کارڈ پہلے سے بنوا رکھا تھا۔ اندر گیا‘ تو سب سے پہلے بھائی آفتاب نظر آئے۔

جنھیں آپ رانا آفتاب کے نام سے جانتے ہیں۔ حد درجہ مخلص انسان اور اس سے بھی بڑھ کر مکمل ایماندار سیاست دان ۔ انداز وہی پر جوش اور ولولہ سے بھرپور۔ اتنی دیر میں علی اختر بھی نظر آیا۔ بلکہ اب تو احترام سے چوہدری علی اختر لکھنا پڑ رہا ہے۔ اختر میرے بچپن کا دوست ہے اور کمال ذہین انسان ہے۔ بذلہ سنجی اور شگفتہ گفتگو سے لبریز اچھا انسان ۔ آج کل تحریک انصاف کا ایم پی اے بھی ہے۔ ان کے بڑے بھائی‘ چوہدری ظہیر جنھیں ہم ظہیر بھائی کے نام سے بچپن سے جانتے ہیں۔ وہ بھی موجود تھے۔

اختر سے تو اسکول سے دوستی تھی اور ظہیر کیونکہ اس کے بڑے بھائی ہیں۔ اس لیے ان سے ہمیشہ احترام کا رشتہ رہا۔ یاد ہے۔ پرویز الٰہی جب پہلی بار وزیراعلیٰ بنے ‘ تو بھائی ظہیر نے مجھے بتائے بغیر‘ ان سے میرا ذکر خیر کیا۔ چوہدری صاحب نے بلا کر پوچھا کہ آپ کی چوہدری ظہیر سے کیا رشتہ داری ہے۔ جواب بالکل سادہ سا تھا کہ بڑے بھائی ہیں۔ پرویز الٰہی بھی وضع دار انسان ہیں اور تعلقات کو نبھانا جانتے ہیں۔ تھوڑے دنوں میں چیف سیکریٹری نے بتایا کہ آپ کو فلاں ضلع میں بطور ڈی سی بھجوایا جا رہا ہے۔

سن کر حیرت ہوئی۔بھائی ظہیر سے ذکر کیا ۔ہنسنے لگے کہ میں نے آپ کے متعلق بات کی تھی۔ بہر حال اچھے انسان‘ اچھے ہی ہوتے ہیں۔ علی اختر چار پانچ منٹ کھڑا رہا۔ حد درجہ مصروف تھا۔ لوگوں کو لے کر ووٹ ڈلوا رہا تھا۔ مگر چند منٹوں میں اختر نے اتنی اعلیٰ گفتگو کی کہ میں پندرہ بیس منٹ تو تواتر سے ہنستا رہا۔ خدا ‘ اختر ‘بھائی ظہیر اور بھائی آفتاب کو ہمیشہ شاداب رکھے۔

ووٹ ڈالنے کے لیے کافی لمبی لائن تھی۔ وہاں مشتاق دھامنہ صاحب کے بڑے بیٹے سکندر سے ملاقات ہوئی۔ انکل دھامنہ صاحب والد کے بہترین دوستوں میں سے تھے۔ بلکہ ہمارے گھر کے فرد تھے۔ کمال انسان‘ صاحبان‘ کمال انسان۔ انشورنس کمپنی میں حد درجہ اچھے عہدے پر فائز تھے۔ لائل پور میں بہترین گاڑیاں رکھنے کی بدولت معروف تھے۔ سکندر اور میں کافی دیر تک بزرگوں کو یاد کرتے رہے۔ دھامنہ صاحب بھی آسودہ خاک ہیں۔ بخدا لکھتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔ کیسے کیسے قیمتی لوگ‘ منوں مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔

ووٹ ڈالنے کے لیے ہال میں داخل ہوا۔ تو محترم افسر ساجد صاحب بڑے عرصے کے بعد نظر آئے۔ افسر ساجد صاحب‘ عمدہ شاعر اور خوشبودار انسان ہیں۔ سول سروس میں اساتذہ کا مقام رکھتے ہیں۔ ملتان میں جب اے سی انڈر ٹریننگ گیا ۔ تو  ساجد صاحب کمشنر کے اسٹاف افسر تھے۔ بھلے زمانے کے افسروں کے متعلق اگر آج بات کروں تو شاید لوگ یقین نہیں کریں گے۔

ملتان میں افسر ساجد صاحب نے میرا بہت زیادہ خیال رکھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ لائل پور میں سما چکے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انھیں ہمیشہ روبہ صحت رکھے۔ ووٹ ڈالنے کے بعد ‘ متفقہ طور پر کھانے کا پروگرام بنا ۔ چوہدری افتخار کے ایک کزن تشریف لائے ہوئے تھے۔ وہ سیرینہ ہوٹل جانے پر بضد تھے۔ مگر عارف‘ طالبعلم اور افتخار نے فیصلہ کیا کہ لائل پورکے مشہور جہانگیرمرغ پلاؤ پر جانا چاہیے۔

ایک زمانہ میں اس سے بہتر پلاؤ ‘ کسی اور جگہ دستیاب نہیں ہوتا تھا۔ لوگ قطاروں میں لگ کر کھانے کی باری کا انتظار کرتے تھے۔ حد درجہ لذیز اور صاف ستھرا پلاؤ صرف اسی دکان کا خاصہ تھا۔ وہاں پہنچے تو ہر چیز بدل چکی تھی۔ جہانگیر مرغ پلاؤ کے نام کی بڑی سی عمارت قائم تھی۔ اندر گئے تو صفائی کا بھی کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ خیر پلاؤ منگوایا ۔

اس کے ذائقے اور پرانے ذائقہ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ذہن میں آیا کہ جب پورے ملک میں ہر چیز زوال پذیر ہے تو کھانے پینے کی مشہور اشیاء بھی روبہ زوال ہونی چاہیں۔ بہرحال پرانے جہانگیر مرغ پلاؤ کو ہی یاد کرتے رہے۔ پہلی بار مجھے وہاں چچا اسلم لے کر گئے تھے۔

کامیاب وکیل اور کھانے پینے کے حد درجہ شوقین۔ جوانی میں ایک کار ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گئے۔ دکان سے نکلے تو شام ہو چکی تھی۔ افتخار نے بڑے غور سے گھنٹہ گھر کو دیکھا۔ اس کا بچپن لائل پور کی انھیں جگہوں پر گزرا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پانی عود کر آیا تھا۔ افتخار کا گھر بھی گھنٹہ گھر کے نزدیک ہی تھا۔ اپنی یادوں کو سمیٹنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ وقت بدل چکا ہے۔

اس کی یادیں‘ اب صرف یادیں ہی رہ چکی ہیں۔ خیر ہم لوگ وہاں سے جب واپس لاہور کی طرف روانہ ہوئے تو تمام دوست اور میں لائل پور میں اپنے گزرے ہوئے وقت کے اسیر تھے۔ کافی دیر خاموشی چھائی رہی۔ ہر کوئی اپنے گزرے وقت کی چانپ سننے میں مصروف تھا۔ میں تو خیر لاہور تک کوئی بھی بات نہ کر پایا۔ اس لیے کہ آج بھی میں پرانے شہر یعنی لائل پور میں آباد ہوں۔ لاہور اجنبی سا لگتا ہے۔ پتہ نہیں برادرم حسن نثار اور میں اپنے آبادئی شہر سے اتنا دور کیسے رہتے ہیں؟ میرے پاس تو کوئی جواب ہی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔