کے الیکٹرک اور جدت کی جستجو

احتشام مفتی  ہفتہ 3 دسمبر 2022
کے الیکٹرک کا جدت کی جستجو جیسا مقابلہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام تھا۔ (فوٹو: فائل)

کے الیکٹرک کا جدت کی جستجو جیسا مقابلہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام تھا۔ (فوٹو: فائل)

آج کل دنیا بھر میں مسائل کے حل کےلیے صنعتیں اور کاروباری ادارے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فیکلٹی یا ان کے طلبا کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اور اکثر نئی ایجادات بھی جامعات سے آرہی ہیں۔

پاکستان میں اکیڈمیا اور صنعت کے درمیان ہمیشہ ایک فرق قائم رہا ہے۔ جس کی وجہ سے جامعات میں ہونے والی تحقیق صنعت میں استعمال نہیں ہوپاتی اور نہ ہی صنعتوں کو اپنے مسائل کا حل تعلیمی اداروں سے مل پاتا ہے۔ مگر اب پاکستان میں اس حوالے سے رجحان بڑھ رہا ہے۔ بجلی کے شعبے کے ریگولیٹر نیپرا نے اپنے شعبے کی کمپنیوں اور جامعات کو قریب لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں توانائی کی کمپنیاں اپنے مسائل کو ایک سوال کی صورت میں جامعات کے تحقیقی شعبہ جات کے سامنے پیش کرتے ہیں اور جامعات اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

نیپرا کی اسی کوشش کو توسیع دینے کےلیے کے الیکٹرک نے انوویشن چیلنج یعنی جدت کی جستجو کا انعقاد کیا۔ ایک سال تک جاری رہنے والے انوویشن چیلنج میں ملک بھر کی جامعات، انکیوبیشن سینٹرز اور دیگر تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور طلبا نے تقریباً 300 جدید منصوبے پیش کئے۔ ابتدائی طور پر کے الیکٹرک کی ٹیم نے 20 مختلف مقامات پر اس پروگرام کے حوالے سے آگاہی پروگرامات منعقد کیے اور موصول ہونے والے مخلتف منصوبوں پر انہیں تخلیق کرنے والوں کے ساتھ کام کیا۔ اور آخر میں 10 پروجیکٹس کو حمتی پریزینٹیشن کےلیے منتخب کیا گیا۔ جن کا جائزہ آزاد جیوری ممبرز نے لیا۔ ان سب کی جانچ پڑتال کے بعد جیتنے والے خوش نصیبوں کا اعلان ہوا جس میں پہلے نمبر پر آنے والی ٹیم کو دس لاکھ، دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کو ساڑھے سات لاکھ اور تیسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کو بھی ساڑھے سات لاکھ کا انعام دیا گیا۔ یہ انعامات ماہرین کی ایک مستند جیوری کی سفارش پر دیے گئے جس میں پورے ملک سے ماہرین نے شرکت کی۔ اور اس میں فرحان انور حبیب یونیورسٹی، سحر عباسی کراچی حب کی کو چیئر، شیخ عمران الحق پی ایس او کے سابق ایم ڈی، شہریار حیدری مینجنگ پارٹنر دیسوائی وینچرز، شائستہ عائشہ سی ای او سیڈ وینچرز، ناز خان چیف اسٹریٹجی آفیسر کے الیکٹرک اور نعیم زمیندار بانی نیم فنانشل شامل تھے۔

کے الیکٹرک کا جدت کی جستجو جیسا مقابلہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام تھا۔ اور ان کا ہدف ایسی تحقیق اور پھر اس سے ایسی تخلیق کرنا تھا جس کے ذریعے ایسی مصنوعات اور خدمات کی تخلیق کی جاسکے جو اقوام متحدہ کے ترقی کے اغراض و مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔ اس میں زور اس بات پر تھا کہ ان ایجادات میں خاص طور پر گاہکوں کا تجربہ اور کارکردگی اعلیٰ ترین معیار کی ہو۔ اس مقابلے میں طالب علموں اور شروعاتی کمپنیوں (اسٹارٹ اپس) کو اپنے جوہر دکھانے کی دعوت دی گئی۔ اس مقابلے میں حصہ لینے والی 30 ٹیموں میں 81 شروعاتی کمپنیاں (اسٹارٹ اپس) اور 21 طالبعلموں کی ٹیمیں شامل تھیں۔

جن دس مسائل پر حل تجویز کرنے کی دعوت دی گئی اس میں سرعت کے ساتھ خرابی کا سراغ لگانا، فوری طور پر گاڑیوں کی تیاری، سرعت کے ساتھ گاہکوں کو معلومات کی ترسیل، خرابی ہونے سے پہلے اس کا سراغ لگانا، کے الیکٹرک کے پاس موجود سہولیات کا صحیح اور بروقت استعمال، طلب کی پہلے سے معلومات، گاڑیوں کے ڈیزائن، معلومات پر بروقت عمل پیرا ہونا، میٹر ریڈنگ میں آٹومیشن اور زمین کا صحیح اور مفید ترین استعمال شامل تھے۔ ایک بڑے طویل اور تھکا دینے والے مقابلے کے بعد جامعہ لمس کی (Energy Informatics Company) اس مقابلے میں سرفہرست رہی جب کہ ezBike اس میں دوسرے نمبر پر اور NUST PNEC’s تیسرے نمبر پر قرار پائی۔

اس سے پہلے مقابلے کی شروعات ایک پروگرام سے حبیب یونیورسٹی میں منعقد ہوئی تھی جس میں ملک کے نامور ترین ماہرین اور توانائی کی صنعت سے وابستہ چیدہ چیدہ افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیپرا توصیف نے کہا کہ ہمارے کاندھوں پر بہت بھاری ذمے داریاں ہیں جو صرف توانائی کی ترسیل اور اسے معقول قیمت میں مہیا کرنے سے ختم نہیں ہوجاتیں۔ ہمیں اپنے معاشرے کو مستقل جدت اور ترقی سے بھی ہمکنار کرنا ہے۔ کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی نے اس موقع پر کہا کہ کے الیکٹرک پاکستان کی توانائی کی کمپنیوں میں سب سے زیادہ جدت پسند کمپنی ہے، جب سے اس کمپنی کی نجکاری ہوئی ہے اس میں سرمایہ کاری کے ذریعے اسے جدید ترین بنایا جارہا ہے۔ اسی کمپنی کی چیف اسٹرٹیجی آفیسر ناز خان نے کہا کہ یہ مقابلہ جدت کو گلے لگانا ہے اور صرف ایک معاشرتی ذمے داری کے طور پر نہیں بلکہ ایک کارپوریٹ منصوبے کے طور پر۔

کے الیکٹرک نے اس مقابلے سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ان کمپنیوں میں سے ہے جو صرف کاروباری مفادات کےلیے میدان میں نہیں ہیں مگر اپنی معاشرتی ذمے داریاں بھی بخوبی نبھا رہی ہیں۔ نہ صرف اس مقابلے سے توانائی کی ترسیل اور اس کی راہ میں حائل مشکلات کا جدید بنیادوں پر حل ڈھونڈا جارہا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ملک کے نوجوانوں کی تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کی نہ صرف نشاندہی ہورہی ہے بلکہ ان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کےلیے کے الیکٹرک وسائل اور مشاورت بھی مہیا کررہی ہے۔ یہی نو جوان جو اب کے الیکٹرک کے منصوبوں پر کام کرنا شروع کردیں گے مستقبل میں اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور یہ چھوٹی سی شمع جو کراچی کی روشنیوں کی رکھوالی کمپنی نے روشن کی ہے کل ایک جگمگاتا ہوا سورج بن سکتی ہے جو نہ صرف ان نوجوانوں بلکہ پورے شہر اور معاشرے کےلیے ایک انقلاب کا نقیب ثابت ہوسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔