مایوس مت ہوں!

فرزانہ خورشید  اتوار 4 دسمبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

دنیا کی زندگی خطرات مشکلات اور مسائل سے ہرگز خالی نہیں، یہاں زندگی میں ہر شخص کو کسی نہ کسی صورت میں الگ الگ مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا ہی ہوتا ہے۔

فرق بس اتنا ہے کہ جن کی ہمت اور حوصلوں کا قد زیادہ ہو، ان کے سامنے درپیش مشکلات اور مسائل کی قامت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان کی فولادی ہمت اور چٹان جیسی بہادری وکاوشوں کے مقابل مشکلات و رکاوٹوں کے پہاڑ کا جلد ڈھیر ہوجانا مقدر ہوتا ہے۔ وہ اپنی عقل، قابلیت، طاقت، صلاحیتوں اور وسائل کا بھرپور استعمال جانتے ہیں اور مسائل کی جڑ کو تناور درخت بننے سے پہلے پہل اکھاڑ پھینکتے ہیں۔

اس کے برعکس کم ہمت، پست حوصلہ امید سے محروم لوگ اکثر مسائل اور حالات کا رونا روتے، اپنی محرومیوں کو جواز بنا کر بزدلی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں، بجائے خدا کی دی گئی طاقت کا استعمال کریں، اور مشکلات کا مقابلہ کریں، اپنے حالات سدھارنے کا حوصلہ اور رہی سہی ہمت بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ نتیجاً ان کے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔

جو ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کو سلب کرکے ان کے اعصاب، دل اور دماغ پر حاوی ہوجاتے ہیں، پھر انھیں مصائب ومسائل سے جان چھڑانے کا حل اپنی جان لینے کے سوا کسی اور چیز میں دکھائی نہیں دیتا۔ یوں صرف “ہمت اور حوصلے کی کمی” بعض اوقات ان سے ان کی قیمتی جانیں چھین لیا کرتی ہے۔

کام یابی یا ناکامی پانے سے زیادہ اہم حوصلوں کا قائم رہنا ہے۔ حوصلہ اگر موت کی نیند سوجائے تو ایسا شخص کبھی خوش حالی نہیں پا سکتا بلکہ ہر لطف کو وہ ترسے گا، سدا محروم ہی رہے گا۔ حوصلے کی زندگی امید پر قائم ہے امید ہمت ہے، امید حوصلہ ہے، امید رحمتِ خداوندی ہے، خدا جس بندے کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرے، اس کی سوچ اور زندگی کو امید سے بھردیتا ہے۔ رب تعالیٰ کا پرزور احکام ہے کہ

“میری رحمت سے ناامید نہ ہونا۔”

ناامیدی پر سب ختم ہے۔ یہ شیطان کی سازش ہے۔ انسانوں کو وہ مایوسی میں مبتلاکرکے اس کا حوصلہ چھین لیتا ہے۔ اسے بدگمانیوں کے دلدل میں چھوڑدیتا ہے۔

آج کے مضمون میں وہ اسباب درج ذیل ہیں جن کے باعث انسان کا حوصلہ ماند پڑتا، اس کا یقین ڈگمگاتا، اور اس کا عزم کہیں کھوجاتا ہے۔ اور وہ امید و یقین کی شاہراہ پر چلتے چلتے اچانک مایوسیوں کے اندھیروں میں گم کوششوں کو ترک کرکے اپنے خوابوں کو خیرباد کہہ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھ لیتا ہے۔

لوگوں کی تنقید، تاثرات رویے اور باتیں

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ لوگوں کی فطرت ہے، وہ باتیں بناتے ہیں، اور بناتے رہیں گے۔ ان کے خیال اور رویوں کو دل پر نہ لیں، لیکن اکثر لوگ ان کی بے جا تنقید منفی رویے اور باتوں سے دل برداشتہ ہوکر شروعات میں ہی اپنی راہ تبدیل کرلیا کرتے ہیں۔

کام یابی ہمیشہ مستقل مزاجی اور استقامت سے ملتی ہے۔ تادیر لگے رہنے والے اپنی منزل پاتے ہیں۔ ہمت اور حوصلے کے بغیر ترقی کا سفر دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ منفی رویے، تنقید اور مخالفت سے دلوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ امید ختم ہوجاتی ہے، مقصد سے غافل راہ میں ہی ان کی تنقیدیں تھکا ڈالتی ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ “غیرمعمولی کام یابی، غیرمعمولی عالی ہمت، بلند حوصلہ اور جدوجہد مانگتی ہے۔” کچھ بڑا حاصل کرنے کے لیے بڑی رکاوٹیں اور مسائل سامنے آتے ہیں، جن کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے خود میں زیادہ ہمت اور حوصلہ پیدا کریں۔

لہٰذا لوگوں کی باتیں اور ان کے تاثرات و تصورات کو کہ (وہ کیسا سوچتے ہیں اور کیا کہتے ہیں) دل پر لینے کی قطعی ضرورت نہیں۔ اصلاح کی ضرورت ہو تو اس سے سیکھ لیں ورنہ نظرانداز کردیں، اپنی راہ پر قائم رہیں خاموشی سے چلتے چلے جائیں، امید مرنے نہ دیں۔ کوشش ترک نہ کریں، بدگمان نہ ہوں۔

دشوار حالات اور ماحول

زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر اختیار بھلے ہمیں حاصل نہ ہو لیکن اپنے حالات پر ردعمل بے شک ہمارے دائرہ اختیار میں ہے۔

ہمیں مان لینا چاہیے کہ غم خوشی، دکھ سکھ تکلیفیں، راحتیں یہ سب زندگی کا حصّہ اور اس کے مختلف اتارچڑھاؤ کی حالتیں ہیں، جن پر ضبط اگرچہ ممکن نہیں، لیکن ان پر سمجھوتا اور ثابت قدمی و ہمت سے سامنا کرنا یقیناً ہمارے بس میں ہے۔

حالات، اردگرد کا منفی ماحول، لوگ اور رکاوٹوں کو کبھی اپنے حوصلے اور امید پر اثرانداز نہ ہونے دیں۔ دشواریوں اور رکاوٹوں سے خائف ہوکر ہرگز اپنے یقین اور عزم کو کم زور نہ پڑنے دیں، بلکہ اس سے حوصلہ لیں،ڈٹے رہیں، اپنے قدم اکھڑنے نہ دیں۔

دنیا کے تمام کام یاب ترین لوگوں کی کام یابیوں کی داستان کا مطالعہ کریں، تو آپ کو معلوم ہوگا، حالات کی دشواریوں اور خطرات کا انھیں بھی سامنا تھا لیکن پھر بھی وہ چلتے رہے، تھک کر نہیں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ منزل تک پہنچے۔

قاسم علی شاہ زندگی کو یوں بیان کرتے ہیں:

“زندگی کی مثال دریا کی سی ہے، جس طرح دریا کے راستے میں بڑے بڑے پہاڑ آتے ہیں لیکن وہ رکتا نہیں بلکہ ہر موڑ پر راستہ نکال لیتا ہے۔ ایسے ہی زندگی کے دریا کے سامنے بھی تنقید مخالفت اور مشکل حالات کے پہاڑ آتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی اپنا راستہ تھوڑا بدل لیں لیکن دریا کی طرح بہتے چلے جائیں، رکنا نہیں ہے۔”

محدود سوچ

انسان کے یقین کو کم زور کرنے اسے غیرحقیقی خوفوں میں مبتلا اور اس کے حوصلوں کو توڑنے والی اس کی محدود” تنگ سوچ” ہے۔

انسان سوچ کے بقدرحاصل کرتا ہے۔ ہنری فورڈ کہتا ہے:

“جو آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کر سکتا ہے اور جو سمجھتا ہے کہ وہ نہیں کر سکتا دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہے اور اسی کے مطابق وہ حاصل کرتے ہیں۔”

آپ کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہ دینے میں سب سے بڑی وجہ آپ کا محدود سوچنا ہے۔

ورنہ آپ کا گمان، ارادہ، کوشش اور دعا رب تعالٰی کے حکم سے ناممکنات کو بھی ممکنات میں تبدیل کرسکتا ہے۔

رب تعالٰی کے ارشادات کے مفہوم کے مطابق انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ سعی کرتا ہے اور جیسا گمان رکھتا ہے۔ اور یہی سائنس بھی مانتی ہے اور اسے لاآف ایٹریکشن کا نام دیتی ہے جس کہ مطابق:

” انسان جس چیز پر یقین کر لیتا ہے تو وہ اس کے جسم کے اندر اور باہر اثر کرتی ہے اور اسی کی بنیاد پر تبدیلی رونما ہوتی ہیں۔”

لہٰذا اپنی ہمت اور حوصلوں کو لوگوں کے تصورات تنقید رویے اور راہ میں حائل دشوار حالات کے زیراثر گھائل نہ ہونے دیں۔ اسے امید و یقین کی غذا دیں، اپنی سوچ کے دائرے کو لامحدود کریں، بڑا سوچیں مثبت سوچیں۔

لامحدود کیسے سوچا جائے؟

بڑی سوچ امیدو یقین کی حامل ہے۔ زندگی کا معیار سوچ کے معیار پر منحصر ہے۔ دم توڑتی ہمت اور ڈوبتے حوصلوں کو زندگی صرف آپ کی پُرامیدسوچ سے مل سکتی ہے، یہ مایوسیوں کے گھنے سائے سے نکال کر آپ میں جینے کی رمق پیدا کردیتی ہے۔

کام یابی یا ناکامی ایک مزاج ہے جو کہ اسے اپنانے والی سوچ پر اور اس کے لائف اسٹائل پر اثرانداز ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ انسان کچھ بھی نہیں اصل اس کی سوچ ہی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے بڑا اور لامحدود پُرامید سوچا جائے ؟ جس سے ہمارے حوصلوں اور ہمتوں کو اڑان مل سکے۔

ڈیوڈ جے شوارز اپنی کتاب “دا میجک آف تھنکنگ بگ” میں خود میں بڑی سوچ پیدا کرنے کے لیے کئی طریقے بتاتے ہیں، جن کے مطابق ہم اپنے خیالات کو وسعت دے کر زندگی میں بڑا حاصل کرسکتے ہیں۔

خوف و خدشات دماغ سے مٹاڈالیں

پہلا طریقہ یہ ہے کہ جن محدود یقین، عدم تحفظات، خوف و خدشوں نے آپ کو گھیر رکھا ہے انہیں اپنے دماغ سے نکال دیں، یعنی نتائج کی پرواہ کیے بغیروہ کام کرنا شروع کریں (آپ نہیں کر سکتے، یہ آسان نہیں یا اس سے، نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے)۔ جیسے وہمات سے خود کو باہر نکالیں۔

ایسا کرنے سے آپ کی ہمت پروان چڑھے گی، اندر کا ڈر ختم ہوگا، آپ کے حوصلوں کو قوت مل جائے گی۔ منفی گمان ٹوٹے گا۔ رفتہ رفتہ آپ کے کم زور یقین اور عدم تحفظات ختم ہوتے جائیں گے آپ کی بڑی سوچ آپ کے اندر کے بڑے انسان کو باہر نکال لے آئے گی۔

تعمیری تصورکاری اپنائیں

ایک اور طریقہ مثبت اور تعمیری تصورکاری ہے جسے اپنائیں۔ وہ تصور کریں جو کہ آپ چاہتے ہیں اس سے آپ کا ذہن خوف کے بجائے جرأت کو اپنائے گا۔ آپ کے جذبات بدلنا شروع ہوجائیں گے، آپ کے ایکشن میں تبدیلی لے آئیں گے۔

یعنی یہ ٹیکنیک آپ کے اندر کے خوف اور خدشوں کو ختم کرکے آپ کے اعتماد کو بحال کردے گی، کیوں کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔ اور انسان کو اکثر انہی نتائج کا سامنا ہوتا ہے جس کی تصویر پہلے سے اس کے ذہن میں نقش ہوتی ہے۔ یعنی جیسا گمان ہوتا ہے چاہے وہ منفی ہو یا مثبت۔

لہٰذا آپ کا مثبت گمان پھر مثبت عمل آپ کی زندگی میں مثبت نتائج سامنے لائے گا۔ بہتر سے بہترین کی جانب زندگی خود ہی گام زن ہوجائے گی۔

منفی سوچ وگمان کے خلاف رویہ اپنائیں

ایسا نہیں ہے کہ انسان کے حالات اسے بڑا سوچنے نہیں دیتے، بلکہ اس کے خیالات اصل ذمے دار ہیں جو اس کو بڑا سوچنے سے قابو کئے ہوئے ہوتے ہیں۔

اور یہ خوش نصیبی ہے کہ بوسیدہ قسم کے خیالات اور نظریات ختم کرکے ان کی جگہ نئے افکار، نظریات بہ آسانی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔

لہٰذا اس طریقے کے مطابق اپنی سوچ کو بدلنے کے لیے کام کیجیے، جو محدود سوچ، کم زور یقین و نظریات آپ رکھتے ہیں اس کے خلاف کچھ کرنا شروع کر دیجیے۔ جو پہلے ناممکن کام تھا اسے ممکن کر دینے کی مشق کیجیے، اس سے آپ میں دیگر ناممکن کاموں کو ممکن کر دکھانے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔

یوں ان طریقوں کو اپنانے سے آپ کا عزم مضبوط، حوصلہ قوی اور پرامید طرزِحیات آپ کا مستقبل ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔