امریکا کی اردو بستیاں اور اقبال کی شاعری

یونس ہمدم  اتوار 4 دسمبر 2022
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری اب مشرق سے نکل کر مغرب کی فضاؤں میں بھی گونج رہی ہے اور نہ صرف یہ اپنی شناخت پیدا کرچکی ہے بلکہ گہرا اثر بھی رکھتی ہے۔

ان دنوں امریکا کی اردو بستیوں میں اقبال کی شہرہ آفاق نظم ’’ شکوہ جواب شکوہ ‘‘ کے کافی چرچے ہیں اور اس چرچے کا سہرا ڈاکٹر و شاعر عبدالرحمان عبدؔ کے سر باندھا جاتا ہے جن کی شبانہ روز کوششوں کے بعد ایک دیدہ زیب مجلہ منظر عام پر آیا ہے جس میں نظم کا اردو کے ساتھ ساتھ سلیس انداز میں انگریزی ترجمہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

اس میں مشکل الفاظ کی لغت ، معنی اور مفہوم بھی خوب صورت الفاظ میں موجود ہیں۔ گزشتہ سو سال کے دوران شکوہ جواب شکوہ پر بے شمار مضامین اور ان گنت تجزیے شایع ہوتے رہے ہیں۔ علامہ اقبال کی یہ معرکۃالآرا نظم آج بھی پڑھو تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ نظم اسی دور اور اسی وقت کی زبوں حالی کو مدنظر رکھتے ہوئے تازہ بہ تازہ لکھی گئی ہے۔

کسی بھی عظیم شاعر کا کام عصری حسیت کے ساتھ آنیوالے زمانوں کا پیغام بھی ہوتا ہے اور گزرے ہوئے زمانوں کے لیے بھی اپنا گہرا اثر رکھتا ہے اور اس طرز فکر کا احساس دلانے کے لیے ڈاکٹر عبدالرحمان عبدؔ نے اپنی ایک نظم کا سہارا لیا ہے اور کیا خوب کہا ہے:

آج پھر بعد ثنا لب پہ وہی فریاد ہے

سو برس کے بعد بھی اپنی وہی روداد ہے

آج بھی امت ترے محبوب کی ناشاد ہے

بے سر و سامان ہے بدحال ہے برباد ہے

یہ بتا کب تک یہ ملت خون کے آنسو پیے

ہو چکی ہے اک صدی اقبال کو شکوہ کیے

ڈاکٹر عبدالرحمن عبد کا تعلق میرپور آزاد کشمیر سے ہے۔ ان کی مادری زبان پہاڑی ہے۔ یہ نوعمری میں آزاد کشمیر سے کراچی آگئے۔ یہاں کراچی کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور پھر 1967 میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی پھر ڈگری حاصل کرکے واپس میرپور خاص آزاد کشمیر چلے گئے۔ وہاں کچھ عرصہ گزارا، پھر 1968 میں امریکا آ کر یہیں کے ہوگئے۔

اپنی ڈاکٹری کا پھر سے آغاز کیا، بطور میڈیکل ڈاکٹر (ماہر امراض خون اور کینسر)اپنی پریکٹس بھی شروع کردی۔ ان کے شعری سفر کا آغاز چالیس سال کی عمر میں ہوا۔

انھیں بچپن سے اپنی مادری پہاڑی زبان سے بڑی محبت تھی، لیکن بڑی کم سنی میں بقول ان کے بڑے تایا جان کے چھ برس کی عمر میں علامہ اقبال کی نظم ’’ شکوہ جواب شکوہ ‘‘ زبانی یاد تھی اور یہ بہت بڑی بات تھی۔

مادری زبان کے بعد دوسری زبان اردو تھی جس سے ان کو پیار ہوگیا تھا اور اس پیارکی ایک بڑی وجہ علامہ اقبال کی شاعری تھی ، جس کا ان کے گھر میں شروع سے بڑا چرچا تھا اور علامہ اقبال کی شاعری بھی ان کے رگ رگ میں رچ بس گئی تھی۔

کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا تھا کہ یہ اپنے ابا جان کے کاندھوں پر بیٹھ کر عوامی جلسوں میں بھی چلے جایا کرتے تھے اور ابا جان کے دوستوں کی فرمائش پر یہ علامہ اقبال کی نظم ’’ شکوہ جواب شکوہ ‘‘ سنا کر انعام بھی حاصل کرکے بڑے خوش ہوتے تھے ، جسے بچپن سے علامہ اقبال کی شاعری سے پیار ہو وہ جوانی کی دہلیز تک آتے آتے علامہ اقبال کی شاعری کا عاشق صادق ہو گیا تھا۔ ڈاکٹری کی مصروفیات سے جو تھوڑا بہت وقت ملتا تو یہ شاعری میں مصروف ہوجاتے تھے اور اس طرح آہستہ آہستہ ادبی محفلوں اور نیویارک کے مشاعروں میں بھی حصہ لینے لگے۔

علامہ اقبال کی نظم ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ پر جو انھیں بچپن سے ازبر ( یاد ) تھی، اس پر کچھ خاص کام کرنا چاہتے تھے ، پھر انھوں نے کئی برسوں کی کاوشوں کے بعد ایک خوبصورت مجلہ اردو زبان و ادب سے محبت کرنیوالوں کو پہنچایا وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر برسوں سے ایک بوجھ تھا جسے میں کسی صورت میں اتارنا چاہتا تھا۔

پھر انھوں نے علامہ اقبال کی نظم کو اردو اور انگریزی مفہوم کے ساتھ ایک دلکش مجلے کی شکل دے کر ایک روحانی سکون حاصل کیا۔ ہم سب جانتے ہیں ، اقبال کا یہ پیغام زیادہ تر نسل نوجوان سے تھا۔ چنانچہ یہ نظم اردو میں ہونے کی وجہ سے مغرب میں پلنے اور پرورش پانے والی نوجوان نسل کی دسترس سے دور تھی ، آج کے بیشتر نوجوان اردو رسم الخط سے بھی دور ہوتے جا رہے تھے اور زیادہ نوجوان اردو کی مٹھاس سے واقفیت ہی نہیں رکھتے۔

سچ بات تو یہ ہے کہ آج اردو سنائی تو دیتی ہے مگر بولنے میں اب بہت کم بولی جاتی ہے جسے دیکھو وہ رومن اردو کا دیوانہ بنا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمان عبدؔ نے نظم کے تمام بندوں کو رومن تحریر میں پھر ان کا ترجمہ اور سادہ متن اور سلیس انگریزی میں کیا ہے۔ اس کی مثال نظم کے ایک بند سے باآسانی دی جاسکتی ہے۔

ہے بجا شیوہِ تسلیم میں مشہور ہیں ہم

قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

سازِ خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا شکوہِ اربابِ وفا بھی سن لے

خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

لغت:

شیوہ تسلیم۔ فرماں برداری کا طریقہ

سازِ خاموش۔ آواز والی چیز کا چپ حالت میں ہونا…معمور۔ بھرے ہوئے

نالہ۔ درد بھری آواز

معذور۔ کسی چیز کا عذر (بہانہ)

اربابِ وفا۔ وعدے (یا امید) پہ پورا اترنے والے، وفادار

خوگرِ حمد۔ جسے تعریف (ثنا) کرنے کی عادت پڑ چکی ہو

رواں ترجمہ: ’’یہ بات اپنی جگہ سچ ہے کہ ہر حکم کے پورا کرنے میں ہم لوگ مشہور ہیں ، ہم اپنی مجبوری کی وجہ سے اپنی دکھ بھری کہانی سناتے ہیں۔

ہم خاموش مگر فریاد سے بھرے ہوئے ہیں، اس ساز کی طرح جس میں آواز تو ہوتی ہے، مگر چونکہ بج نہیں رہا ہوتا ، اس لیے خاموش دکھائی دیتا ہے ، اگر ہمارے ہونٹوں پر درد بھری آواز آتی ہے تو ہمارے پاس اس کے سوا چارہ نہیں۔ اے خدا ! اپنے فرمانبرداروں اور تابع داروں کی شکایت بھی سن لے۔ تعریف کرنے کے عادی سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔‘‘ساتھ ہی ہر بند کا مفہوم بھی دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحمان عبد کی کوشش ہے کہ ان کا یہ مجلہ امریکا کی اردو بستیوں میں زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے اور اردو کی مخصوص کلاسوں میں نوجوان طالبعلموں کو علامہ اقبال کی نظم ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ سے پوری پوری آگاہی دی جاسکے۔ ڈاکٹر عبدالرحمان عبدؔ کا برسوں سے جو ایک خواب تھا کہ وہ علامہ اقبال کی شاعری پر امریکا کی اردو بستیوں کے لیے بھی کچھ ایسا کام کریں جو ایک سند بن جائے۔

اب میں آتا ہوں ڈاکٹر عبدالرحمان عبدکی شخصیت کی طرف۔ میری ان سے پہلی ملاقات نیویارک میں میری اپنی کتاب شعری مجموعہ ’’خواب زنجیر ہوئے‘‘ کی تقریب رونمائی کے دوران ہوئی تھی اور اس ملاقات میں ہی انھوں نے اپنا یادگار مجلہ مجھے دیا تھا۔ انھوں نے میرے بارے میں بھی میری شخصیت اور شاعری پر ایک خوبصورت مضمون پڑھا تھا، مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی تھی کہ میری ڈاکٹر عبد صاحب سے نہ کوئی واقفیت تھی اور نہ ہی کبھی ملاقات نہ فون پر بات چیت۔ پھر انھوں نے میرے بارے میں بڑا مدلل مضمون پڑھ کر مجھے حیران کردیا تھا۔

تقریب کے اختتام پر میں نے ان سے پوچھا ’’ محترم ڈاکٹر صاحب! آپ نے میرے بارے میں اتنا کچھ کہا ، میری تو آپ سے آج سے پہلے کوئی ملاقات ہی نہیں ہوئی تھی ‘‘ وہ میری بات سن کر ہنس دیے۔ پھر بولے ’’ ارے بھئی! یہ گوگل ہے نا، یہ سب کے بارے میں بہت کچھ بتا دیتا ہے۔‘‘ ان کا جواب سن کر میں بھی مسکرا دیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔