بڑا چیلنج

ایم جے گوہر  اتوار 4 دسمبر 2022
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

حضرت شفیق بلخی اور حضرت ابراہیم ادھم دونوں ہم زمانہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت شفیق بلخی اپنے دوست حضرت ابراہیم کے یہاں آئے اورکہا کہ میں ایک تجارتی سفر پر جا رہا ہوں۔ سوچا کہ جانے سے پہلے آپ سے ملاقات کر لوں کیوں کہ اندازہ ہے کہ سفر میں کئی مہینے لگ جائیں گے۔

اس ملاقات کے چند دن بعد حضرت ابراہیم ادھم نے دیکھا کہ شفیق بلخی دوبارہ مسجد میں موجود ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ ’’ تم سفر سے اتنی جلدی کیسے لوٹ آئے۔‘‘ شفیق بلخی نے بتایا کہ ’’ میں تجارتی سفر پر روانہ ہو کر ایک جگہ پہنچا جوکہ ایک غیر آباد علاقہ تھا ، میں نے وہاں پڑاؤ ڈال دیا۔ وہاں میں نے ایک چڑیا دیکھی جو اڑنے کی طاقت سے محروم تھی۔

مجھے اس پر بہت ترس آیا۔ میں حیران تھا کہ اس ویران جگہ پر یہ معذور و بے بس چڑیا اپنی خوراک بھلا کیسے حاصل کرتی ہوگی۔ ابھی میں اسی سوچ میں تھا کہ ایک اور چڑیا آئی ، جس نے اپنی چونچ میں کوئی چیز دبا رکھی تھی۔ وہ معذور چڑیا کے پاس اتری اور اس نے اپنی چونچ میں دبی چیز معذور چڑیا کے سامنے گرا دی۔ بے بس چڑیا نے اسے اٹھا کر کھا لیا۔ اس کے بعد وہ طاقتور چڑیا اڑ گئی۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے کہا سبحان اللہ! خدا جب ایک معذور چڑیا کا رزق اس طرح ایک دوسری طاقتور چڑیا کے ذریعے اس کے پاس پہنچا سکتا ہے تو پھر مجھ کو رزق کے لیے شہر شہر پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ میں نے آگے جانے کا ارادہ ترک کردیا اور وہیں سے واپس چلا آیا۔‘‘

حضرت شفیق بلخی کی زبانی یہ واقعہ سن کر حضرت ابراہیم ادھم نے کہا کہ ’’ شفیق بلخی! تم نے اپاہج پرندے کی مانند کیوں بننا پسند کیا ؟ تم نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ تمہاری مثال اس پرندے کی سی ہو جو اپنی قوت بازو سے خود بھی کھاتا ہے اور اپنے دوسرے ہم جنسوں کو بھی کھلاتا ہے۔‘‘ یہ سن کر حضرت شفیق بلخی نے حضرت ابراہیم ادھم کا ہاتھ چوم لیا اورکہا کہ’’ اے ابو اسحاق! تم نے میری آنکھ کا پردہ ہٹا دیا ہے۔ وہی بات صحیح ہے جو تم نے کہی۔ ‘‘

یہ محض ایک واقعہ ہے لیکن غورکیجیے تو اس میں فکر و عمل کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ اس ایک ہی واقعہ سے ایک شخص نے بے ہمتی کا سبق لیا اور اپنے آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک لیا ، جب کہ دوسرے شخص نے بلند ہمتی اور حوصلے کا درس حاصل کیا اور تازہ دم ارادوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔

بالکل اسی طرح ہر واقعہ میں بیک وقت دو پہلو موجود ہوتے ہیں۔ یہ آدمی کا اپنا امتحان ہے کہ وہ کس واقعہ کوکس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس سے کیا سبق حاصل کرتا ہے۔

ذرا غورکیجیے تو معلوم ہوگا کہ ایک زاویے سے دیکھنے میں ایک چیز بری نظر آتی ہے جب کہ دوسرے زاویے سے دیکھنے میں وہی چیز اچھی بن جاتی ہے۔ ایک رخ سے دیکھنے میں ایک واقعے میں منفی سبق نظر آتا ہے جب کہ دوسرے رخ سے دیکھنے میں اسی واقعے کا مثبت پہلو نظر آتا ہے۔

مذکورہ واقعے کے پس منظر میں دیکھیں تو ہماری قومی سیاسی زندگی سے وابستہ کرداروں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ یہ بھی سیاسی اقدار، جمہوری روایات، پارلیمانی آداب، آئینی دائرہ کار، قانون کے احترام اور سیاسی سوجھ بوجھ اور شعور و آگہی سے معذور نظر آتے ہیں۔ اپنی سیاسی کمزوریوں، خامیوں، نااہلیوں اور غلطیوں کے باعث طاقتور حلقوں کے زیر عتاب رہتے ہیں۔ وہیں سے اپنی سیاسی بقا کی غذا حاصل کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔

پھر دعویٰ جمہوریت کا کرتے ہیں۔ آئین و قانون کی حکمرانی کا راگ الاپتے ہیں۔ جس تھالی سے کھاتے ہیں پھر اسی کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نامعلوم فون کالوں پر اپنے اپنے زندہ ضمیر کے مطابق دائیں سے بائیں اور کبھی بائیں سے دائیں رخ بدلتے رہتے ہیں۔ انھیں اپنی آنکھوں کا شہتیر نظر نہیں آتا لیکن دوسرے کی آنکھ میں پڑے باریک سے باریک بال کو خوردبین لگا کر دیکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

اپوزیشن میں رہ کر جن چیزوں پر تنقید کرتے ہیں، کیڑے نکالتے ہیں، آئین و قانون کے خلاف قرار دیتے اور ملکی مفادات کے منافی سمجھتے ہیں، جب خود اقتدار میں آتے ہیں تو وہ تمام چیزیں جو انھیں اپوزیشن میں رہ کر ملکی مفادات اور سلامتی کے خلاف نظر آتی تھیں اقتدار میں آ کر یک دم ملک کے مفادات کے لیے جز لاینفک بن جاتی ہیں۔ یہ دہرا کردار اور دہرا نظریہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے مفادات کا آئینہ دار ہے اور غیر جمہوری رویوں کا عکاس بھی۔

اس کمزور کردار کی وجہ سے غیر سیاسی قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقعہ ملا اور وہ سیاست و اقتدار کا حصہ بن گئے۔ سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے، نئی جماعتیں بنانے، پریشر گروپ کی تشکیل، من پسند سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی پھر ناراضی پر ان کی تذلیل اور اقتدار سے بے دخلی اور پھر اعتماد سے عدم اعتماد تک کی تحریکوں کی کامیابی و ناکامی ، کبھی پس منظر میں اور کبھی پیش منظر میں دخل اندازی تک کیا کیا اس ملک میں نہیں ہوتا رہا۔ آئین کے ساتھ کیسے کیسے کھلواڑ کیے گئے، کاغذ کا ٹکڑا قرار دینے سے نظریہ ضرورت تک ایک طویل کہانی ہے۔

اب مقتدرہ قومی ادارے کے سابق سربراہ بڑے یقین کے ساتھ کہہ گئے ہیں کہ فوج کا سیاسی کردار ختم ہو گیا ہے اور اب فوج غیر سیاسی ہوگئی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اب بھی ہمارے سیاستدان یہ توقع باندھ رہے ہیں کہ مقتدر ادارے ملک میں نئے الیکشن کرانے اور سیاسی استحکام لانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ گویا ایک مرتبہ پھر طاقتور ادارے کو سیاست میں مداخلت کاری کی ازخود دعوت دی جا رہی ہے جو ان کی سیاسی معذوری کی علامت ہے۔

ریاست کے سامنے ملکی دفاع و سلامتی کے حوالے سے بڑے چیلنجز ہیں۔ جمہوریت کا فروغ اور اس کا تسلسل ایک بڑا چیلنج ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔