دہشت گردی کا عفریت اور پاکستان

ڈاکٹر مسرت امین  اتوار 4 دسمبر 2022

قومی سلامتی کو درپیش بڑے چیلنجزکا بھی سامنا ہے۔ ایک طرف افغانستان کے ساتھ مسائل دوسری جانب دہشت گردی پھر سے پاکستان میں سر اٹھا رہی ہے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پہلے ڈیڈ لاک کا شکار ہوئے جس کے بعد ٹی ٹی پی نے سیز فائر ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ گزشتہ چند ماہ سے خیبر پختون خوا اور سابق قبائلی ایجنسیوں میں کئی سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر دہشت گرد حملوں میں دوبارہ اضافہ ہوا۔ ٹی ٹی پی کے سیز فائر ختم کرنے کا اعلان بلاشبہ ریاست کی کمزوری کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ تحریک انصاف حکومت میں شروع ہوا۔ حکومت پاکستان اورکالعدم تحریک طالبان کے مابین مذاکرات میں ثالثی افغان وزیر دفاع سراج الدین حقانی کی سربراہی میں طالبان حکومت کر رہی تھی۔ مذاکرات کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کا اعلان کردیا ، جس سے مذاکرات میں کامیابی کی امید پیدا ہوئی۔

حکومت پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات جاری تھے کہ اس دوران طالبان کے اہم رہنما اور مذاکرات کے اہم رکن عمر خالد خراسانی کو ان کے ساتھیوں سمیت افغانستان میں قتل کر دیا گیا تھا، عمر خالد خراسانی کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔

اپریل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مذاکرات میں تعطل پیدا ہوا اور ابھی تک موجودہ اتحادی حکومت اس بارے میں فیصلہ نہیں کر سکی کہ مذاکرات کو جاری رکھنا ہے یا ان کے خلاف کارروائی کرنا ہے؟ستمبر سے اب تک لوئر وزیرستان ، جنوبی وزیرستان ، درازندہ ، لکی مروت ، شمالی وزیرستان اورکوئٹہ میں سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے خلاف ٹارگٹ کلنگ کے قریباً 130 واقعات پیش آئے ، جن میں سے بیشتر کی ذمے داری ٹی ٹی پی نے قبول کی۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے کچھ علاقوں میں خاص طور پر لکی مروت میں ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن شروع کیا جس کے بعد کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے ملک بھر میں حملے کرنے کا اعلان جاری ہوا۔

سیز فائر کے خاتمے کے بعد کوئٹہ میں پولیو ٹیم پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں 3 افراد شہید اور 20 پولیس اہلکاروں سمیت 25 افراد زخمی ہوئے۔ حکومت سے مذاکرات اور سیز فائر کے دوران ٹی ٹی پی نے ملک بھر میں ایک بھی خودکش حملہ نہیں کیا۔

یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان کو پاکستان میں خودکش حملوں سے روک رکھا تھا۔ وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر کے دورہ افغانستان میں یقینا کالعدم تحریک طالبان کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہوگا۔ پاکستانی حکومت روز اول سے افغانستان میں ماضی کی حکومتوں اور طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان کے خلاف کاروائیوں کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔

ماضی میں ٹی ٹی پی مختلف دھڑوں میں تقسیم تھی۔ شدت پسند عناصر کے مختلف دھڑوں کا ٹی ٹی پی کے ساتھ انضمام کے بعد افغان سرزمین پر موجود 10 سے 12 ہزار مسلح جنگجوؤں کے خلاف کاروائی کرنا طالبان حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا۔ طالبان حکومت جو پہلے ہی داعش کے ساتھ برسر پیکار ہے وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کسی صورت نیا محاذ نہیں کھولے گی۔

یہ فیصلہ حکومت پاکستان اور نئی عسکری قیادت نے کرنا ہے کہ آیا کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات دوبارہ بحال کرنے ہیں یا ان کے خلاف کارروائیاں دوبارہ شروع کرنی ہیں؟ ہماری مسلح افواج گزشتہ بیس سال سے دہشت گردی کے ان حملوں کا سامنا کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے حملے بھی نئے نہیں اور کالعدم تحریک طالبان بھی کوئی نئی جماعت نہیں۔ ہمارے جوانوں نے اپنے خون کے نذرانے پیش کر کے ملک بھر میں قیام امن کو یقینی بنایا ہے۔

ان بچے کھچے مٹھی بھر شدت پسند عناصر سے لڑنا مسلح افواج کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ، لیکن مذاکرات یا ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔

حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات کی بحالی یا کارروائی شروع کرنے کا امکان تو اگلے چند روز تک واضح ہو جائے گا ، لیکن افغانستان کے بارڈر سے دہشت گردوں کی آمد و رفت کو روکنا افغانستان میں طالبان حکومت کی بھی ذمے داری ہے۔ ٹھیک ہے طالبان حکومت کی مجبوری ہے وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرکے نیا محاذ نہیں کھولنا چاہتی۔

کیا سرحد پار سے پاکستان میں حملے روکنا اور ٹی ٹی پی کو پاک افغان سرحد کراس کر کے پاکستان میں داخل ہونے سے روکنا طالبان حکومت کی ذمے داری نہیں؟ کیا پاکستانی حکومت نے سرحدی خلاف ورزیوں اور دہشت گردوں کی پاکستان میں آمد کا معاملہ طالبان حکومت کے سامنے اٹھایا؟

ہمیں طالبان حکومت کو بھی یہ باور کروانا ہوگا کہ جیسے غیر مستحکم افغانستان پاکستان کے حق میں نہیں بالکل ویسے پاکستان میں ہونے والی بد امنی کا بھی براہ راست اثر دوطرفہ تعلقات پر پڑتا ہے ، جب تک طالبان حکومت اپنی بین الاقوامی ذمے داریوں اور دوحہ معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد نہیں کرے گی تب تک نہ تو بین الاقوامی برادری طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کریں گے اور نہ ہی پاکستان طالبان حکومت کی عالمی تنہائی کے خاتمے میں کوئی خاطر خواہ مدد کرنے کا قابل ہوگا۔

طالبان حکومت کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ نہ تو پاکستان اپنے ملک میں کوئی نئی لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ عالمی پابندیوں سے دوچار طالبان حکومت کسی بد امنی کو افورڈ کرسکتی ہے۔ دونوں ممالک کا مقدر اور مستقبل صرف باہمی تجارت اور معاشی مواقعوں سے وابستہ ہے۔ تجارت ، معاشی مواقعوں اور افغانستان میں عالمی سرمایہ کاری کے لیے دوطرفہ امن سب سے بنیادی جزو ہے۔

امن کے بغیر نہ تو دوطرفہ تجارت ممکن ہے اور افغانستان میں کسی بھی طرح کی سرمایہ کاری۔ ٹی ٹی پی اور داعش جیسے شدت پسند عناصر کوکچلے بغیر نہ تو دوطرفہ امن کو یقینی بنایا جا سکتا نہ معاشی امکانات سے فائدہ اٹھایا جا سکتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔