- کراچی، نجی اسکول میں اردو بولنے پر بچے کے منہ پر ’کالک‘ مل دی گئی
- ایک شہزادی لندن سے آکر کہتی ہے میرا بھرپور استقبال کیا جائے، سراج الحق
- عمران خان کے بیان کے بعد زرداری یا مجھ پر حملہ ہوا تو حساب لیا جائے گا، بلاول بھٹو
- آزادی کا مفہوم سمجھنا ہے تو باچا خان سے سمجھیں، فضل الرحمان
- عمران خان کیساتھ مکافات عمل ہوگا، زندگی روتے ہوئے گزرے گی، مریم نواز
- اوگرا نے پیٹرول مہنگا کرنے کی قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا
- مجھے اور بچیوں کو فواد سے ملنے نہیں دیا گیا، حبہ چوہدری
- شفا اسپتال کو مریض کا 29 لاکھ روپے کا بل واپس کرنے کا حکم
- ٹویوٹا نے گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کردیا
- شیخ رشید کی لال حویلی خالی کرانے سے روکنے کی درخواست خارج
- سابق چیئرمین نے مجھے بورڈ میں اہم عہدے کی پیشکش کی تھی، تنویر احمد
- لیگی کارکن نے مریم نواز کو ایئرپورٹ پر سونے کا تاج پہنا دیا
- مونس الٰہی کی اہلیہ تحریم الہی کی منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت منظور
- شاہین آفریدی اور بابراعظم ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے
- اربوں روپے کرپشن کیس؛ سابق سیکشن آفیسر وزیراعلیٰ سندھ سیکریٹریٹ کی ضمانت مسترد
- 17 ارب کی کرپشن؛ ڈاکٹر عاصم کی نیب ریفرنس سے بریت کی درخواست
- سندھ طاس معاہدہ، بھارت کی عالمی عدالت میں قانونی عمل رکوانے کی کوشش
- لوگ بیروزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں، سندھ ہائیکورٹ
- انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کارروائی، خودکش حملہ آوروں کا نیٹ ورک پکڑا گیا
- مریم نواز پاکستان پہنچ گئیں، کارکنوں کا پرجوش استقبال
پی ٹی آئی کا راستہ دکھانے کیلیے اللہ نے جنرل باجوہ کو بھیجا، پرویز الہیٰ

—فائل فوٹو
لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ نے کہا ہے کہ ن لیگ کی طرف جاتے جاتے اللہ نے راستہ تبدیل کروایا اور راستے دکھانے کے لیے اللہ نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو بھیجا۔
نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نہ سابق آرمی چیف نے ڈبل گیم کی اور نہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے، اللہ تعالیٰ نے راستہ دکھانے کے لیے باجوہ صاحب کو بھیجا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے بات کی کہ شریفوں سے یہ خطرات ہیں، سوچ کر چلیں، جنرل باجوہ نے کہا کہ آپ اور آپ کے دوستوں کیلیے عمران خان والا راستہ بہتر ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی توڑنے کو تیار ہوں، مارچ تک انتظار کرنے کا مشورہ دیا ہے، اپوزیشن کے پاس مذاکرات کیلیے یہ اچھا موقع ہے۔
علاوہ ازیں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار تحصیل ناظم نہیں بن سکتے تھے، میرے کہنے پر انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بنایا گیا۔
پرویز الہیٰ نے کہا کہ جنرل فیض نے عثمان بزدار کے معاملے پر ہماری بات سنی ہوتی تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے ، جنرل باجوہ یا عمران خان کسی نے ڈبل گیم نہیں کی، کسی نے کہنے پر نہیں، اپنی مرضی سے عمران خان کا ساتھ دیا۔
پرویز الہیٰ نے کہا کہ مارچ تک اسمبلی نہیں جاتی، تحلیل کی تحریری نہیں زبانی بات ہوئی، اداروں کے ساتھ ہمارے پرانے ذاتی تعلقات ہیں، اداروں کے جتنے قریب ہوں گے، حالات پر زیادہ نظر رہے گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ عمران خان کو حلف اٹھانے سے پہلے ہی کہا تھا جب کہیں گے اسمبلی توڑ دیں گے، مونس نے کہا کہ جنرل باجوہ پر تنقید نہ کی جائے، مارچ تک اصلاحات اور الیکشن پر بات ہونی چاہیے، ہمیں اداروں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ق لیگ کو عمران خان پر مکمل اعتماد ہے، اسمبلی توڑنے کا فیصلہ حکومت کے رویے پر منحصر ہے،ہماری پالیس ہی نہیں کہ اداروں کے خلاف بات کریں،ہم نے جو زبان دی اس پر پورا اتریں گے،ہمیں شریفوں پر کوئی اعتماد نہیں، سیاسی معاملا ت پر اداروں سے مشاورت کریں، سیاسی اتحاد پر اداروں سے بات تو انہوں نے کہا اپنا فیصلہ خود کریں۔
پرویز الہیٰ نے کہا کہ نہ جنرل فیض کو غلط کہوں گا نہ موجودہ حکومت ک، مونس الہیٰ نے کابینہ اجلاس میں کہا تھا کہ جنرل باجوہ نے ہمارے لیے بہت کچھ کیا ہے،مونس الہیٰ نے کہا تھا عزت دینے سے آپ کی عزت بڑھے گی، فیض صاحب کا ایشو عجیب طرح کا تھا۔
وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ عثمان بزدار کو میں نے آگے کیا ان کے والد کے ساتھ تعلقات تھے، عثمان بزدار کا مجھے جنرل فیض اور جہانگیر ترین نے بتایا،ہم نے کوشش کی یہ معاملات سلجھ جائیں، عمران خان پر حملے کے بعد بہت سی غلط فہمیوں کی خلیج آ گئی، عمران خان کو میر صادق میر جعفر نہیں کہنا چاہیے تھا، عمران خان میرے لیڈر ہیں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔
خیال رہے کہ چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ جنرل (ر) باجوہ کو توسیع دینا بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ انہوں نے جنرل (ر) فیض کو ہٹانے کے بعد میرے ساتھ ڈبل گیم کھیلی جبکہ پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الٰہی نے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کو کہا تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔