ٹی وی  ‘چائے اور ’’انقلاب‘‘

لطیف چوہدری  پير 5 دسمبر 2022
latifch@express.com.pk

[email protected]

عمران خان کا حقیقی آزادی مارچ راولپنڈی پہنچ کر اختتام پذیر ہو چکا ہے ‘ یہ جلسہ کامیاب تھا یا نہیں، مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ، میں تو نوابزادہ اسلم رئیسانی کے اس’’ قول زریں‘‘ کا مقلد ہوں کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے، چاہے اصلی ہو یا نقلی، لہٰذا’’ جلسہ جلسہ ہوتا ہے، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔‘‘

میں سوشل میڈیا کاانقلابی ہوں،ٹوئٹر، فیس بک نہ جانے کس کس بک پر روزانہ اپنی مرضی کا انقلاب برپا کرتا ہوں، سڑکوں پر نکل کر انقلابی جدوجہد کرنا‘بے وقوفی سمجھتا ہوں۔خان صاحب نے حقیقی آزادی مارچ سے پہلے یہ کہہ کر سسپنس پیدا کر دیا تھا کہ وہ راولپنڈی میں سرپرائز دیں گے۔

میں ڈرائنگ روم میں آرام دہ کرسی پر بیٹھا،سامنے ٹیبل پر گرم گرم چائے کا مگ رکھا، ٹی وی آن کیا اور نظریں اسکرین پر گاڑھ دیں، جلسہ شروع ہوا،مقررین ’’حقیقی آزادی‘‘ کی نوید سنانے لگے، شاہ محمود قریشی‘ فواد چوہدری‘ اسد عمر اور پرویز خٹک تو خیر سے ’’جانشینوں‘‘  میں آتے ہیں‘ انھوں نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر اعلان حقیقی آزادی بلند کیا تو فرط جذبات سے میرا چہرہ سرخ ہوگیا، وہ تو شکر ہے ، میرے قریب کوئی تھا نہیں ورنہ اسے تھپڑ جڑ دیتا، بہرحال اور کچھ تو نہ ہوا ‘گرم گرم چائے کا گھونٹ گلے میں اتار لیا۔

تحریک انصاف کے چند ’’شامل باجوں‘‘ نے بھی ’’تندورگرم‘‘ دیکھ کر اپنی روٹیاں پکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘بھلا ایسے ’’شامل باجوں‘‘ کو اپنی تقریر سنانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ’’کان‘‘ کہاں دستیاب ہوتے ہیں۔

میری مجبوری خان صاحب تھے ورنہ کچھ دیر کے لیے ٹی وی بند کردیتا لیکن کم بخت عشق نے ایسا کرنے نہ دیا لہٰذا میں نے اپنے ’’کان‘‘ بطور سزا ان شامل باجوں کی رطب و یا بس سننے کے لیے وقف کیے رکھے۔ پھر ’’ انتظار تھا جس کا وہ شاہکار آگیا‘‘، خان صاحب آئے اور چھا گئے، وہی انداز خسروانہ ، وہی گلیمر، وہی دلیری ، بے باکی و بے نیازی،وہی دھمکیاں، وہی یاروں کی بے وفائی کے طعنے، جیت کرہارنا اور پھر ہار کر جیتنا، وغیرہ وغیرہ۔

جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

ان تقریرکا ہر لفظ میرے دل میں ’’حقیقی آزادی‘‘ کی تڑپ مزید بھڑکاتا رہا ، طواف کوئے اسلام آباد کے لیے دل مچلنے لگا، دھڑن تختہ کرنے کی خواہش شعلہ جوالہ بننے ہی والی تھی کہ خان صاحب نے اسمبلیاں توڑنے کا سرپرائزدے ڈالا۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا ایسا سرپرائز دیا کہ اپنے ہی وزرائے اعلیٰ ، صوبائی وزرا اور معاونین و مشیران کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے ، یہ تو شکر ہے کہ انھوں نے آخر میں ’’مشاورت‘‘ کا لاحقہ لگا کر امیدوں کے چراغ جلتے رہنے دیے ، ورنہ تحریک انصاف میں خان صاحب کی ’’حقیقی آزادی‘‘ سے توبہ بلکہ توبہ توبہ کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ بفضل تعالیٰ امیدوں کے چراغ تاحال روشن ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں قائم و دائم ہیں اور رہیںگی۔ دوستو! اسے کہتے ہیں ہار کرجیتنااور جیت کر ہارنا ۔

خان صاحب مہان کرکٹر اورکپتان رہے ہیں، سیاست و صحافت کے جو ’’بدھی مان‘‘ یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ کپتان سیاست میں اناڑی ہیں۔ میں ایسے ’’گیانیوں‘‘ کو اناڑی سمجھتا ہوں۔ خان صاحب سیاسی شطرنج کے بھی عظیم کھلاڑی ہیں ، وہ ہارنا اور ہار کر جیتنے کا عزم و حوصلہ، مہارت اورمضبوط اعصاب رکھتے ہیں۔

بیتے سات آٹھ برس میں پاکستان کی سیاسی شطرنج کی بساط پر انھوں نے ’’ مہان‘‘ سیاسی نیتاؤں اور میچ فکسرز کو تگنی کا ناچ نچایا ہے، انھوں نے ایسی ایسی چالیں چلی ہیں کہ مخالفین کے ہاتھوں کے ہی نہیں بلکہ دماغ کے بھی طوطے اڑ گئے ہیں۔ان کے مد مقابل سیاستدان جو کچھ بھی کر رہے یا کہہ رہے ہیں، وہ فالو اپ کے سوا کچھ نہیں ہے، وہ خان صاحب اور پی ٹی آئی پر پری ایمٹیواسٹرائیک کرنے میں ناکام ہیں اور تاحال اس پوزیشن میں نہیں ہیں ، وہ صرف جوابی فائر کررہے ہیں، بس خود کو بچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جب کہ خان صاحب بہت آگے کے کھلاڑی ہیں۔میڈیا ہنڈلنگ اور امیج بلڈنگ کا آرٹ جانتے ہیں، سوشل میڈیا کو انھوں نے سیاست میں جس طرح استعمال کیا ہے،اس پر آفرین آفرین کے سوا کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔

ذرا ان کی کہہ مکرنیوں،یوٹرنز،وعدوں، دعو وں کی گنتی شروع کریں تو شاید گنے نہ جاسکیں۔ نیا پاکستان سے لے کر ریاست مدینہ تک، سوشل ڈیموکریسی سے لے کر صدارتی نظام تک، چور ڈاکو، غدار سے لے کر نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے، میرجعفر،میر صادق اور ڈرٹی ہیری جیسی اصطلاحات تک ،کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔کیا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی اور سیاسی لیڈر اس میدان میں ان کی ہمسری کرسکتا ہے؟

یہاں تو ذوالفقار علی بھٹو نے ’’تھوڑی سی پیتا ہوں‘‘ کیا کہہ دیا، پورے ملک میں طوفان برپا ہوگیا،مرحوم شاہ جی( عباس اطہر) کی بنائی ہوئی اخباری سرخی ’’ادھر تم ادھر ہم ‘‘ بھٹو کے ایسی ساتھ چپکی ہے کہ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ آج تک صفائیاں پیش کررہی ہے لیکن کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔

خان صاحب نے تو بڑے بڑوں کے بخیئے ادھیڑ دیے ہیں،ایسے ایسے خطابات اور القابات سے نوازا ہے کہ الامان الحفیظ۔ حالت یہ ہے کہ سب ڈر کر سہمے ہوئے ہیں کہ کہیں ہمارا نام نہ لے لیں۔ اب تو خان صاحب نے انھیں بھی نشانے پر لے رکھا ہے،جن کے ساتھ جینے اور مرنے کے عہد و پیماں باندھے تھے،خان صاحب کی دہاڑ سن کر سب اس شعر کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔

مجھ کو تنقید بھلی لگتی ہے

آپ تو حد سے گزر جاتے ہیں

بے شک خان صاحب کو حقیقی آزادی کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیںتاہم وہ مجھ جیسے رجیم چینجیئے،دن رات خان صاحب کے افکار و نظریات پھیلا رہے ہیں ۔

چلتے چلتے حقیقی آزادی کے اختتامی جلسے میں ایک شامل باجے کی ’’پرمغز‘‘ تقریر کا ذکر ہوجائے۔ انھوں نے خطابت کے وہ جوہر دکھائے  کہ حاضرین و ناظرین دم بخود ہو گئے۔ موصوف نے خود پر اور اعظم سواتی صاحب پر دوران حراست ہونے والے مظالم کی دکھ بھری داستان پرلطف پیرائے میں بیان کر کے محفل لوٹ لی بلکہ مجھ سمیت سب کھی کھی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو ’’مست نظروں‘‘ سے دیکھتے رہے۔ شلوار پہننے اور نہ پہننے کا بیان تو سننے کے لائق تھا۔میں تو پکار اٹھا  ؎

اس غیرت ناہیدکی ہرتان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے‘ انداز تو دیکھو

پاکستان کی اقتداری سیاست میں ہیٹ اور لوکارشتہ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے لیکن کسی نے یہ اسٹوری لکھنے کی جرات نہیں کی کہ ظالم سے محبت نہیں کی جاتی بلکہ اس کامقابلہ کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کی سیاست کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں، جس نے ظلم ڈھائے ہوتے ہیں،اس سے ہی پیار بھی کرتے ہیں۔

آج کل خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ اس ہیٹ اور لواسٹوری کے مرکزی کردار ہیں۔کبھی ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف بھی اس کہانی کے کردار ہوا کرتے تھے۔ ویسے تنہا خان صاحب نہیں،شہباز شریف، زرداری اور حضرت مولانا، سب ظالم کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں لیکن ان مظلوموں کی ظالم کے ساتھ محبت میں کمی نہیں آئی ہے ۔ مجھے شمشاد بیگم کا گایا ہوا مشہور پنجابی گانا یاد آرہا ہے۔ سنئے اور سردھنیے

ہاے نیں میرا بالم، ہے بڑا ظالم

او مینوںکدی کدی کردا اے پیار

تے کدی مار دا چھمکاں دی مار

آج کا سچ یہ ہے کہ خان صاحب سیاست کی شطرنچ پر ’’حیران‘‘ کن چالیں چل رہے ہیں، مدمقابل کھلاڑی نے اپنی چال کیا چلنی ہے ، وہ تو سرتھامے خان صاحب کی اگلے وارکا سوچ کر پریشان ہورہا ہے۔

خان صاحب کبھی مذاکرات کی آفر کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ لقمہ دے دیتے ہیں کہ میڈیا پر میرا پیغام غلط چلایا گیا ہے، پھر یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ دیں، ورنہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔وزیراعظم میاں شہباز شریف نے جواباً فرمایاہے کہ ہم بلیک میل نہیں ہوں گے۔ اب آپ ہی بتائیں، بھلا اسے سیاسی چال کہا جاسکتاہے ، اسے تو مفاہمت سے بھی تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔

میرے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن بعض باتیں کرنے کے لیے نہیں ہوتیں،اپنے گندے کپڑے خصوصاً انڈرگارمنٹس چوراہے میں رکھ کر نہیں دھوئے جاتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔