وفاقی اتحادی حکومت کی ہر لمحہ بڑھتی مشکلات

تنویر قیصر شاہد  پير 5 دسمبر 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

26نومبر کی شام پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے اختتام اور عمران خان کے راولپنڈی و اسلام آباد میں دھرنا نہ دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت کی آزمائشیں بھی اختتام کو پہنچ گئی ہیں۔حکمران جماعتیں بغلیں مت بجائیں۔

جب نون لیگ کے وفاقی وزیر ( بے محکمہ) میاں جاوید لطیف صاحب کو آن دی ریکارڈ نجی ٹی وی پر یہ کہتے سنتے ہیں کہ ’’ ہم عمران خان کو گرفتار کر سکتے ہیں نہ قید میں رکھے ایم این اے علی وزیر کو رہا کر سکتے ہیں‘‘ تو ہم میاں محمد شہباز شریف صاحب کی قیادت میں بروئے کار اتحادی حکومت کی مشکلات کا بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سب سے سنگین اور بڑا مسئلہ ملک کی پتلی ہوتی ہُوئی مالی و معاشی حالت ہے۔

اتحادی حکومت کے گھر کو گھر کے چراغ سے یوں’’آگ‘‘ لگی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے سابق وزیر خزانہ، مفتاح اسماعیل، نے حالیہ ایام میں ایک انگریزی معاصر میں ، یکے بعد دیگرے، اپنے 2 تفصیلی آرٹیکلز میں واضح طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شہباز شریف کی اتحادی حکومت ملک کی معاشی دستگیری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، غربت و مہنگائی میں مزید اضافہ ہُوا ہے اور یہ کہ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات و خدشات تشویشناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔

مفتاح اسماعیل کی شکل میں گھر کا بیدی لنکا ڈھانے پر تُلا بیٹھا ہے ۔2دسمبر کو وزیر خزانہ، اسحاق ڈار، ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے اُس وقت مفتاح اسماعیل کے نام پر بھڑک اُٹھے جب اُن سے سابق وزیر خزانہ کے لکھے گئے آرٹیکلز بارے استفسار کیا گیا۔

شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت اِس وعدے اور دعوے پر برسر اقتدار آئی تھی کہ عمران خان نے اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں جو بے پناہ مہنگائی اور بے روزگاری کر دی ہے ، ہم اقتدار سنبھال کر عوام کو ریلیف دیں گے ۔ اتحادی حکومت کے اِس وعدے کو 8ماہ گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک ایک بھی وعدہ ایفا نہیں ہو سکا ہے۔

اب تو وفاقی وزرا بھی بین السطور اعتراف کرنے لگے ہیں کہ اتحادی حکومت عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف نہیں دے سکی ہے ۔اکتوبر کے آخر میں یہ خبر بھی آئی کہ IMFنے شہباز حکومت پر دباؤ ڈالا ہے کہ پاکستانی عوام پر 600ارب ڈالر کے مزید (بھاری) ٹیکس عائد کرے۔

فی الحال تو حکومت نے عالمی ساہوکار کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا ہے لیکن کب تک مزاحمت کریں گے ؟ یاد رکھا جائے کہ مزید مہنگائی کا ردِ عمل عوامی عذاب بن کر حکومت اور جملہ اتحادی جماعتوں پر ہی نازل ہوگا۔غالباً ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اتحادی حکومت جلد انتخابات کرانے سے شاید اِسی لیے کترا رہی ہے۔

مہنگائی اور کساد بازاری تو امریکا ایسے طاقتور اور دولتمند ملک کی کمر توڑ رہی ہے ۔ پاکستان ایسا محتاج اور معاشی طور پر لاغر و نحیف ملک کس باغ کی مولی ہے ؟ امریکی صدر،جو بائیڈن، کے ٹاپ اکنامک ایڈوائزربرائن ڈیسی (Brian Deese) کا کہنا ہے کہ ’’ جو بائیڈن کی امریکی حکومت میں اتنی سکت ہے کہ وہ Recession  (معیشت میں عارضی گراوٹ) کے اُمنڈتے خطرات کے سامنے کامیابی سے بند باندھ سکے ‘‘۔

برطانیہ کے نَو منتخب وزیر اعظم، رِشی سونک،بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمارے ملک کو عمیق مالی بحرانوں کا سامنا ہے۔‘‘ اگر امریکا اور برطانیہ میں مہنگائی کے بڑھتے خطرات و خدشات کی گھنٹیاں بج رہی ہیں تو بنیادی سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کی اتحادی حکومت مزید مہنگائی کے متوقع طوفانوں سے کیسے بچ سکے گی؟

22نومبر2022کو یہ پریشان کن خبر بھی آئی تھی کہ پچھلے چار مہینوں کے دوران پاکستان میں FDI( فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ) میں53فیصد کمی واقع ہُوئی ہے۔ گویا غیر ملکی سرمایہ کاروں کی پاکستان پر اعتماد میں شدید کمی ہُوئی ہے۔ اِس فضا نے معاشی طور پر پاکستان کو مزید نقصان پہنچایا ہے ۔

آزاد کشمیر کے تازہ بلدیاتی انتخابات (27نومبر 2022) سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل بڑی جماعتوں کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔17جولائی اور16اکتوبر2022 کے ضمنی انتخابات میں حکومتی اتحاد کو پہلے ہی عمران خان کے ہاتھوں عبرتناک شکست ہو چکی ہے۔

انتخابی نتائج اور انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک تھنک ٹینک (پلڈاٹ)کے سربراہ، احمد بلال محبوب، کا دعویٰ ہے کہ 16اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت اور ووٹروں میں 13فیصد اضافہ ہُوا ہے ۔ کئی حکومتی ذمے داروں نے برملا اعتراف کیا ہے کہ نون لیگ کی نامقبولیت اور ضمنی انتخابات میں شکست دراصل غریب عوام پر گرنے والے بجلی، گیس ، پٹرول اور کمر شکن مہنگائی کے ’’بموں‘‘ نے بنیادی اور مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔

شہباز شریف کی اتحادی حکومت پٹرول کی قیمتیں کم کرکے عوام کی محبتیں سمیٹنا چاہتی تھی لیکن بُرا ہو رُوس، یوکرائن جنگ کا جس نے ہمارے ہاں پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کا خواب پورا نہیں ہونے دیا۔اُدھر تیل پیدا کرنے والے ممالک (OPEC) نے بھی امریکی حکم کی سرتابی کرتے ہُوئے تیل کی پیداوار کم کر دی ہے۔ اور اِس فیصلے میں شہباز شریف کی حکومت بھی سعودیہ کا ساتھ دے رہی ہے۔

اب شہباز حکومت کہاں سے پٹرول کی قیمتیں کم کرکے عوام کو راضی کرے؟ حالانکہ پچھلے چھ ماہ کے دوران پٹرول کی عالمی قیمتوں میں 35ڈالر فی بیرل کمی آئی ہے، لیکن پاکستانی عوام کو کچھ فائدہ نہیں ملا۔

اُمید یہ تھی کہ سعودی عرب اور چین اتحادی حکومت کی فوری طور پر معاشی ومالی دستگیری کریں گے۔ اسحق ڈار نے اِس سلسلے میں قوم کو بڑی توقعات کا سندیسہ بھی سنا رکھا تھا۔ شہباز شریف نے اسحق ڈار کے ساتھ سعودی عرب اور چین کے دَورے بھی کیے ہیں لیکن متوقع مالی امداد وہاں سے بھی مل نہیں سکی ہے۔البتہ3دسمبر کو اتحادی حکومت اور شہباز شریف کے لیے یہ اطمینان بخش خبر آئی ہے کہ سعودی عرب نے جو 3ارب ڈالر پاکستان سے واپس لینے تھے،اُن کی تاریخ آگے بڑھا دی گئی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اِس مہربانی پر سعودی بادشاہ اور سعودی ولی عہد کا تہِ دل سے شکریہ ادا کررہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کم کرنے اور ڈالر کی اُڑان روکنے کے لیے وزیر خزانہ ، اسحق ڈار صاحب، کی پھرتیاں اور بلند بانگ دعوے ہوا میں تحلیل ہو چکے ہیں۔

ایسے غیر یقینی ماحول میں عوام کی اکثریت عمران خان کے اِس بیانئے پر یقین کرنے لگتی ہے جب خان صاحب یہ کہتے ہیں کہ ’’ملک ڈیفالٹ ہوتا ہے تو پاکستان کی مقتدر اور حکمران اشرافیہ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ لوگ اپنا سامان اُٹھائیں گے اور مغربی ممالک و امریکا میں چلے جائیں گے۔ پیچھے روتے رہ جائیں گے غریب عوام۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔