- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
شرح سود میں تیزی سے اضافہ،معاشی مشکلات بڑھنے کا خطرہ
کراچی: شرح سود میں تیزی سے اضافہ کے نتیجے میں معاشی مشکلات بڑھنے کا خطرہ منڈلانے لگا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جس تیزی کے ساتھ شرح سود بڑھائی ہے، اس کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی۔26 نومبر کو مرکزی بینک نے بڑھتے ہوئے افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود 15 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کردی۔ یہ اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کے مختصر مدتی نتائج، طویل مدتی نتائج سے بہرحال کم ہوں گے۔
ماہرین معاشیات اور تجزیہ نگاروں کو اس پر شبہ ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں بڑھنے والے افراط زر کو جارحانہ مانیٹری پالیسی اقدامات کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت اگرچہ نئی ہے، تاہم آئی ایم ایف کا شدید دباؤ ہے کہ معاملات کو فوری سدھارا جائے۔
16فیصد شرح سود بہت زیادہ ہے، اس صورت حال میں پالیسی بنانے والوں کی نظریں جن مثبت باتوں پر مرکوز ہوسکتی ہیں، وہ حالیہ دنوں میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی ہے، خام تیل کی قیمت 120ڈالر سے کم ہوکر 80 ڈالر فی بیرل پر آگئی ہے، علاوہ ازیں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی بہتری آئی ہے۔
قدرتی طور پر پاکستان ، ترکی کے ماڈل کو نہیں اپنا سکتا ہے، جسے ’’ترکونومکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان کے برعکس ترکی میں مرکزی بینک شرح سود میں مسلسل کمی کرتے ہوئے اسے صرف 9 فیصد کی شرح پر لے آیا ہے جبکہ وہاں افراط زر کی شرح 85 فیصد کی ہوش ربا سطح تک جا پہنچی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو نہ تو اس طرح کے اقدامات کرنے کے لیے آزادی میسر ہے نہ ہی اس کے پاس ترکی کی طرح سیاحت سے اربوں ڈالر کمانے جیسا کوئی ذریعہ ہے، جس پر تکیہ کیا جاسکے۔
حالیہ سیلاب کے باعث افراط زر کی شرح بڑھنے کے نتیجے میں ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب مزید بگڑ گیا ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ آنے والے دنوں میں معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ شرح سود میں جس تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے، اس کی مثال گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ صرف 14مہینوں میں شرح سود میں 9 فیصد اضافہ کیا ہے اور افراط زر سے نمٹنے کے لیے ترکی کے مرکزی بینک کے بجائے امریکا کے فیڈرل ریزرو کی پیروی کی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔