- شیخ رشید کا اسلام آباد سے کراچی منتقلی روکنے کیلیے عدالت سے رجوع
- امریکا میں چینی غبارے کی پرواز، وزیر خارجہ کا دورہ چین ملتوی
- گستاخانہ مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا پاکستان میں بلاک
- کراچی؛ خاتون کے ساتھ اوباش نوجوانوں کی سرعام بدتمیزی، حملے کی کوشش
- کراچی میں سرکاری تیل چوری ہونے کا انکشاف
- چین کی نیوکلئیر انرجی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی
- پیٹرول مزید 30 روپے لیٹر مہنگا ہونے کا امکان
- اعظم خان یو اے ای کے گولڈن ویزا ہولڈر بن گئے
- بھارتی ہٹ دھرمی برقرار، ٹیم پاکستان بھیجنے سے پھر انکار
- 500 واں ٹی ٹوئنٹی، بنگلہ دیش لیگ میں شعیب کو گارڈ آف آنر پیش
- برطانیہ میں ماؤں سے بچوں میں ہیپاٹئٹس کی منتقلی میں اہم پیشرفت
- نیویارک میں گڑھا تین افراد کو نگل گیا جنہیں بمشکل بچالیا گیا
- ایلون مسک کا تخلیق کاروں کے لیے معاوضے کا اعلان
- ٹیکسٹائل اور ریڈی میڈ گارمنٹس پاکستانی معیشت میں اہم
- جنوری 2023، سیمنٹ کی فروخت میں 1.15 فیصد اضافہ
- کاغذ 200 فیصد مہنگا، درسی کتب، اسٹیشنری کی قیمتیں بڑھ گئیں
- کراچی کی 2 لاکھ 16 ہزار بجلی کی تنصیبات کو محفوظ بنایا، چیئرمین نیپرا
- پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج کینسر سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے
- دوہرے ٹیکس سے چھٹکارہ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان کنونشن پر دستخط
- شیخ رشید کے خلاف کراچی میں بھی مقدمہ درج
شرح سود میں تیزی سے اضافہ،معاشی مشکلات بڑھنے کا خطرہ

پاکستان ’’ترکونومکس‘‘ ماڈل کے بجائے امریکی ’’فیڈرل ریزرو‘‘ کی پیروی کررہا ہے۔ فوٹو: نیٹ
کراچی: شرح سود میں تیزی سے اضافہ کے نتیجے میں معاشی مشکلات بڑھنے کا خطرہ منڈلانے لگا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جس تیزی کے ساتھ شرح سود بڑھائی ہے، اس کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی۔26 نومبر کو مرکزی بینک نے بڑھتے ہوئے افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود 15 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کردی۔ یہ اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کے مختصر مدتی نتائج، طویل مدتی نتائج سے بہرحال کم ہوں گے۔
ماہرین معاشیات اور تجزیہ نگاروں کو اس پر شبہ ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں بڑھنے والے افراط زر کو جارحانہ مانیٹری پالیسی اقدامات کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت اگرچہ نئی ہے، تاہم آئی ایم ایف کا شدید دباؤ ہے کہ معاملات کو فوری سدھارا جائے۔
16فیصد شرح سود بہت زیادہ ہے، اس صورت حال میں پالیسی بنانے والوں کی نظریں جن مثبت باتوں پر مرکوز ہوسکتی ہیں، وہ حالیہ دنوں میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی ہے، خام تیل کی قیمت 120ڈالر سے کم ہوکر 80 ڈالر فی بیرل پر آگئی ہے، علاوہ ازیں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی بہتری آئی ہے۔
قدرتی طور پر پاکستان ، ترکی کے ماڈل کو نہیں اپنا سکتا ہے، جسے ’’ترکونومکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان کے برعکس ترکی میں مرکزی بینک شرح سود میں مسلسل کمی کرتے ہوئے اسے صرف 9 فیصد کی شرح پر لے آیا ہے جبکہ وہاں افراط زر کی شرح 85 فیصد کی ہوش ربا سطح تک جا پہنچی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو نہ تو اس طرح کے اقدامات کرنے کے لیے آزادی میسر ہے نہ ہی اس کے پاس ترکی کی طرح سیاحت سے اربوں ڈالر کمانے جیسا کوئی ذریعہ ہے، جس پر تکیہ کیا جاسکے۔
حالیہ سیلاب کے باعث افراط زر کی شرح بڑھنے کے نتیجے میں ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب مزید بگڑ گیا ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ آنے والے دنوں میں معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ شرح سود میں جس تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے، اس کی مثال گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ صرف 14مہینوں میں شرح سود میں 9 فیصد اضافہ کیا ہے اور افراط زر سے نمٹنے کے لیے ترکی کے مرکزی بینک کے بجائے امریکا کے فیڈرل ریزرو کی پیروی کی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔