فیوز

جاوید چوہدری  پير 31 مارچ 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

بریگیڈیئر نیاز احمد پاک فوج کے ایک طلسماتی کردار ہیں‘ یہ 1977 میں لاہور کے بریگیڈ کمانڈر تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی‘ بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کا احتجاج شروع ہو چکا تھا‘ لاہور میں کرفیو نافذ کر دیا گیا مگر اس کے باوجود لاہور میں مظاہرے جاری تھے‘ وزیراعظم نے بریگیڈیئر نیاز کو حکم دیا ’’ آپ مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مار دیں‘‘ یہ حکم حیران کن تھا‘ بریگیڈیئر نیاز نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’ سر! میں اپنے جوانوں کو اپنے لوگوں پر گولی چلانے کا حکم کیسے دے سکتا ہوں‘ ‘بھٹو صاحب یہ انکار ہضم نہ کر سکے چنانچہ بریگیڈئر نیاز کا کورٹ مارشل ہوا اور ان سے ان کا رینک اور تمام فوجی مراعات واپس لے لی گئیں‘ بریگیڈیئر نیاز فٹ پاتھ پر آ گئے لیکن فوج میں ان کی قدر میں اضافہ ہو گیا‘ یہ نوجوان فوجی آفیسرز کے آئیڈیل بن گئے‘ بریگیڈیئر صاحب شروع میں بے روزگار رہے‘ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ آیا تو انھوں نے فوج کو رضائیاں سپلائی کرنا شروع کردیں‘ فوجی آفیسرز بریگیڈیئر نیاز کی عزت کرتے تھے چنانچہ سپلائی کا کاروبار چل پڑا‘ بریگیڈیئر نیاز کو جلد ہی ایک چینی کمپنی مل گئی اور یوں انھوں نے چین اور پاکستان میں ہتھیاروں کی سپلائی شروع کر دی‘ یہ کام وقت کے ساتھ بڑھتا رہا‘ چین کے ساتھ یورپ اور امریکا کی کمپنیاں شامل ہوئیں اور یوں بریگیڈیئر نیاز ارب پتی ہو گئے‘ جنرل ضیاء الحق کا دور آیا تو بریگیڈیئر نیاز کے حلقہ احباب میں دو خاندانوں کا اضافہ ہوگیا‘ بریگیڈیئر صاحب کے ایک دوست نے ان کی ملاقات کرنل پرویز مشرف نام کے ایک جوان افسر سے کروائی‘ کرنل پرویز مشرف بریگیڈئر نیاز سے بہت متاثر تھے‘ گفتگو ہوئی تو دونوں ایک دوسرے کے دوست بن گئے‘ یہ دوستی آگے چلتی رہی اور دونوں ایک دوسرے کے خاندان کا حصہ بن گئے‘ دوسری فیملی شریف خاندان تھا‘ بریگیڈیئر نیاز کا میاں محمد شریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے رابطہ ہوا اور یہ رابطہ بھی آگے بڑھتا چلا گیا‘ بریگیڈیئر صاحب میاں شہباز شریف سے بہت متاثر تھے‘ یہ ان کے پریکٹیکل وژن اور انتظامی صلاحیتوں کے معترف تھے۔

کرنل پرویز مشرف اور میاں شہباز شریف دونوں بریگیڈیئر نیاز کے دوست بن گئے‘ یہ دونوں اب اپنے اپنے شعبے میں ترقی کرنے لگے‘ میاں شہباز شریف سیاست میں آ گئے جب کہ کرنل پرویز مشرف فوج میں آگے بڑھنے لگے‘ کرنل پرویز مشرف بریگیڈیئر پرویز مشرف ہوئے‘ پھر میجر جنرل پرویز مشرف ہوئے اور آخر میں لیفٹیننٹ جنرل پرویز مشرف ہو گئے‘ یہ ان تمام مراحل میں بریگیڈیئر نیاز سے مشاورت کرتے رہے‘ جنرل پرویز مشرف 1995 میں منگلا کے کور کمانڈر بنے تو بریگیڈیئر نیاز ہر مہینے ان کے پاس آتے تھے اور کئی دن تک ان کے پاس قیام کرتے تھے‘ جنرل مشرف انھیں اپنے والد‘ اپنے بڑے بھائی کا درجہ دیتے تھے‘اکتوبر 1998 میں آرمی چیف بنانے کا مرحلہ آیا تو بریگیڈیئر نیاز نے اپنا کردار ادا کیا‘ یہ میاں شریف اور میاں شہباز شریف سے ملے اور جنرل پرویز مشرف کی سفارش کی‘ یہ سفارش کام کر گئی اور یوں جنرل پرویز مشرف 6 اکتوبر1998 کو آرمی چیف بنا دیے گئے‘ یوں ایک نئے دور کا آغاز ہوا‘ یہ دور 12 اکتوبر 1999کو اختتام پذیر ہو گیا‘ ملک میں مارشل لاء لگا‘ جنرل پرویز مشرف نے ’’ٹیک اوور‘‘ کیا اور شریف خاندان قیدی بن گیا‘ مقدمے قائم ہوئے اور سزاؤں کا عمل شروع ہو گیا‘ بریگیڈیئر نیاز اور جنرل مشرف کی دوستی میں بھی اضافہ ہو گیا‘ یہ ان کے سیاسی امور میں مشیر بن گئے‘ سعودی عرب کا شاہی خاندان اور لبنان کی حریری فیملی ایکٹو ہوئی‘ شریف خاندان کا بریگیڈیئر نیاز سے بھی رابطہ استوار ہوا‘ جنرل پرویز مشرف اور شریف خاندان کے درمیان معاہدہ ہوا‘ حریری خاندان اس معاہدے کا ضامن بنا‘ پی آئی اے کے موجودہ سربراہ شجاعت عظیم نے اس معاہدے میں اہم کردار ادا کیا‘ یہ اس وقت حریری خاندان کے ذاتی پائلٹ تھے‘ بریگیڈیئر نیاز احمد نے جنرل پرویز مشرف کو مشورہ دیا ’’سعودی عرب ذمے داری اٹھا رہا ہے‘ آپ شریف خاندان کو جدہ جانے دیں‘ یہ کیس بلاوجہ آپ کا وقت ضایع کر رہا ہے‘‘ جنرل مشرف نے یہ سارے مشورے مان لیے اور یوں شریف خاندان دسمبر 2000میں سعودی عرب منتقل ہو گیا اور یوں ایک اور دور ختم ہو گیا۔

بریگیڈیئر نیاز کی سیاسی خدمات کا تیسرا دور 2004 اور 2005 میں شروع ہوا‘ جنرل پرویز مشرف پاکستان مسلم لیگ ق کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ امریکا بھی ان پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا‘ جنرل مشرف نے محسوس کیا محترمہ واپس آ گئیں یا پاکستان مسلم لیگ ق بیٹھ گئی تو ان کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا چنانچہ انھوں نے میاں شہباز شریف کی واپسی کا راستہ کھولنے کا فیصلہ کیا‘ یہ ذمے داری بریگیڈیئر نیاز کو سونپی گئی‘ بریگیڈیئر صاحب نے میاں شہباز شریف سے رابطہ کیا اور انھیں ’’مائینس نواز شریف پلان‘‘ پیش کر دیا لیکن میاں شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی سے غداری سے انکار کر دیا تاہم دونوں کے درمیان رابطہ اور گفتگو جاری رہی‘ میاں شہباز شریف اس دوران بیمار ہوگئے‘ بریگیڈیئر نیاز نے انھیں جنرل مشرف سے علاج کے لیے امریکا جانے کی اجازت لے کر دی‘ شہباز شریف امریکا چلے گئے‘ 2005 میں میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز شدید بیمار ہو گئے‘ بریگیڈیئر نیاز نے حسن نواز کے لندن میں علاج کی اجازت بھی لے دی‘ میاں نواز شریف اپنے صاحبزادے کی عیادت کے لیے لندن جانا چاہتے تھے‘ بریگیڈیئر نیاز سے ان کا رابطہ ہوا‘ بریگیڈیئر نیاز نے جنرل پرویز مشرف سے سفارش کی مگر‘ چوہدری شجاعت حسین اور شیخ رشید نے اس تجویز کی مخالفت کر دی‘ ان کا خیال تھا میاں برادران ایک بار سعودی عرب سے نکل گئے تو پھر انھیں کوئی شخص پاکستان آنے سے باز نہیں رکھ سکے گا‘ جنرل مشرف بھی میاں صاحب کو اجازت دینے کے حق میں نہیں تھے لیکن یہ بریگیڈیئر نیاز کو انکار نہ کر سکے اور یوں میاں نواز شریف جنوری 2006 کو لندن پہنچ گئے‘ یہاں سے ایک اور دور شروع ہوا۔ بے نظیر بھٹو واپس آئیں‘ میاں نواز شریف بھی آئے‘ محترمہ شہید ہوئیں‘2008 کے الیکشن ہوئے اور جمہوریت اور پرویز مشرف آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔

جنرل پرویز مشرف نے 18 اگست 2008کو صدارت سے استعفیٰ دیا‘ یہ لندن شفٹ ہوئے تو ان کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں تھا‘ بریگیڈیئر نیاز کے پاس لندن میں اپنا گھر تھا‘ جنرل پرویز مشرف تین ماہ اس گھر میں مقیم رہے‘ جنرل مشرف کے خلاف مقدمات بننا شروع ہوئے‘ فیصلے ہونے لگے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور ختم ہوا اور بریگیڈیئر نیاز کے روکنے کے باوجود پرویز مشرف 24 مارچ 2013 کو پاکستان واپس آ گئے‘ ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا‘ الیکشن ہوئے‘ میاں نواز شریف کی حکومت بنی اور جنرل مشرف کے خلاف غداری کا کیس شروع ہو گیا‘ بریگیڈیئر نیاز احمد 82 سال کے ہو گئے‘ یہ پچھلے سال جنرل مشرف سے ملاقات کے لیے ان کے فارم ہاؤس پر گئے‘ وہاں ان کی طبیعت خراب ہوئی‘ انھیں اسپتال پہنچایا گیا‘ یہ ’’کوما‘‘ میں چلے گئے اور یہ اب تین ماہ سے ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر ہیں‘ اس دوران ایک اور دلچسپ واقعہ پیش آیا‘ جنرل راحیل شریف آرمی چیف بن گئے‘ جنرل مشرف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان ایک دلچسپ تعلق موجود تھا‘ جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید جنرل مشرف کے دوست تھے‘ یہ دونوں بیچ میٹ بھی تھے ۔ یہ دونوں روزانہ ایک دوسرے سے ملتے تھے‘ میجر شبیر شریف کی والدہ نے میجر پرویز مشرف کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا‘ میجر شبیر شریف 3 دسمبر 1971کو شہید ہو گئے‘ میجر شبیر شریف کی شہادت کے بعد پرویز مشرف نے ہمیشہ راحیل شریف کے کیریئر میں ان کی مدد کی‘جنرل مشرف آرمی چیف تھے تو یہ راحیل شریف کو بھائی کی طرح ’’ٹریٹ‘‘ کرتے تھے‘ راحیل شریف عموماً آرمی ہاؤس میں ناشتہ کرتے تھے‘ یہ راحیل شریف 29 نومبر2013 کو آرمی چیف بن گئے‘ یہاں دو تھیوریاں سامنے آئیں‘ مشرف کے بعض حامیوں کا خیال ہے‘ میاں نواز شریف جنرل مشرف اور جنرل راحیل کے اس تعلق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے جب کہ بعض لوگوں کا خیال ہے میاں صاحب اس تعلق سے آگاہ تھے لیکن حقیقت کیا ہے؟ ہم سرے دست کچھ نہیں کہہ سکتے مگر یہ کہانی اب آخری فیز میں داخل ہو چکی ہے‘ جنرل پرویز مشرف 89 دن آرمی اسپتال میں رہنے کے بعد کل 31 مارچ 2014 کو خصوصی ٹریبونل میں پیش ہو گئے‘ جنرل مشرف کی والدہ شدید علیل ہیں‘ یہ والدہ کی عیادت کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں‘ میاں شہباز شریف جنرل پرویز مشرف سے جان چھڑانا چاہتے ہیں‘ ان کا خیال ہے ہم لوگ بے شمار مسائل کا شکار ہیں‘ ہمیں کم از کم اپنی کشتی سے مشرف کا بوجھ ضرور اتار دینا چاہیے لیکن میاں نواز شریف اور چوہدری نثار اس کیس کا منطقی نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں‘ ان کا خیال ہے جنرل مشرف کو اسی طرح عمر قید کی سزا ہونی چاہیے جس طرح 6 اپریل 2000 کو میاں نواز شریف کو طیارہ اغوا کرنے کے جرم میں دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی‘ پھر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اسی طرح صدر کے پاس معافی کی درخواست جانی چاہیے جس طرح شریف خاندان کی گئی تھی اور آخر میں جنرل مشرف کو اسی طرح طیارے میں بٹھا کر جدہ روانہ کیا جانا چاہیے جس طرح دسمبر 2000 میں شریف خاندان کو بھجوایا گیا تھا لیکن سوال یہ ہے‘ کیا یہ ہو جائے گا؟۔ میرا خیال ہے اگر یہ ہو گیا تو پھر اداروں کے درمیان تعلقات کی یہ گرمی باقی نہیں رہے گی۔ تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طر ف چل پڑے گا اور اگر یہ نہ ہوا تو نواز شریف حکومت کی کریڈ یبلٹی کو شدید نقصان پہنچے گا چنانچہ یہ طے ہے خربوزہ ادھر گرے یا اُدھر نقصان بہرحال میاں نواز شریف کو ہو گا اور حکومت اگر اس نقصان سے بچنا چاہتی ہے تو اسے جنرل پرویز مشرف کی والدہ کی علالت کا فائدہ اٹھا لینا چاہیے‘ جنرل مشرف کی والدہ کی علالت اس ایشو کو’’فیوز‘‘کرنے کا آخری موقع ہے‘ یہ موقع بھی نکل گیا تو سیاسی حکومت اور فوج میں دوریاں پیدا ہو جائیں گی اور یہ دوریاں نوزائیدہ جمہوریت کے لیے خطرناک ثابت ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔