یہ جان تو آنی جانی ہے!

ایاز خان  منگل 1 اپريل 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

تعصب کی عینک اتار کر کبھی دیکھیں تو حکمران اتنے برے نہیں ہوتے جتنی ان پر تنقید کی جاتی ہے۔ انھیں اپنے فرائض کا پورا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران بھی پوری ذمے داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ معیشت کی بحالی ہو یا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات‘ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتے ہوئے وہ حالات پر قابو پا رہے ہیں۔ ان کے کارنامے اور بھی بہت ہیں لیکن فی الحال میں اپنی برادری کے تحفظ کی بات کروں گا۔ ایکسپریس میڈیا گروپ پر صرف 5 ویں حملے اور کل چار افراد کی شہادت کے بعد حکومتی ایوانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ رضا رومی پر ہونے والے حملے نے تو ہماری حکومت‘ انتظامیہ اور پولیس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انھیں دن رات ایک ہی تشویش ہے کہ کسی طرح ہم صحافیوں اور اینکر حضرات کی جانیں بچا لی جائیں۔ میں صرف لاہور کی بات کروں تو تین دن سے ڈی آئی جی آپریشن کے دفتر سے یہ پیش کش کی جا رہی ہے کہ 24 گھنٹے کے لیے ایک گارڈ آپ کو دینا ہے‘ ایڈریس بتا دیں تاکہ اسے روانہ کیا جا سکے۔ اتوار کی دوپہر میں دفتر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہمارے دفتر کی حفاظت کے لیے بھی ایک عدد گارڈ فراہم کیا جا چکا ہے۔ اس کے باوجود اظہار تشکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہے۔

یہ سارے اقدامات مجھے وزیراعظم نواز شریف کے اس وعدے کی تکمیل لگتے ہیں جس میں انھوں نے میڈیا ہاؤسز کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ جناب وزیراعظم نے تو ایک کمیٹی بھی بنا دی تھی تاکہ اس کی طرف سے تیار کی جانے والی سفارشات کی روشنی میں آگے بڑھا جا سکے۔ وہ کمیٹی مسلسل غور کے حوض میں غوطے لگا رہی ہے‘ جس روز اسے گوہر مقصود مل گیا اس روز میڈیا ہاؤسز کی فول پروف حفاظت کا انتظام بھی ہو جائے گا لہٰذا ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرف حکومت ہے جو ہمارے تحفظ کے لیے کچھ کر رہی ہے‘ دوسری طرف شدت پسند ہیں جو حکومت سے مذاکرات کر رہے ہیں اور انھوں نے بات چیت جاری رہنے تک فائر بندی کا اعلان کر رکھا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ کون لوگ ہیں جو ہمیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایکسپریس میڈیا گروپ ہی ٹارگٹ پر کیوں ہے؟۔ میرے لیے ان سب میڈیا والوں کی جان مجھ سے زیادہ قیمتی ہے جو مختلف چینلوں اور اخبارات سے منسلک ہیں اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں۔ البتہ یہ بات مجھے پریشان کرتی ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ پر 5حملے ہوچکے ہیں۔ کچھ لسٹوں کا بھی چرچا ہے جن میں ہمارے بہت سے لوگ ہائی ویلیو ٹارگٹ قرار پائے ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں تحریک طالبان سے مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں طرف سے فائر بندی پر بھی عمل درآمد ہو رہا ہے‘ پھر ہم کس کے نشانے پر ہیں یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ حکومت‘ انتظامیہ یا پولیس میں سے کسی کو بھی علم ہو تو ضرور بتا دے وہ کون ہیں جنھیں تنقید پسند نہیں۔ اگر محض یہی وجہ ہے کہ کچھ حلقوں کو ہماری تنقید پسند نہیں آ رہی اور وہ ہم پر پے در پے حملے کر رہے ہیں تو پھر سب سے زیادہ تنقید تو حکومت پر ہو رہی ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر کسی کو اعتراض نہیں‘ تمام مکاتب فکر نے اس عمل کی حمایت کی ہے۔

میں نے حفاظتی گارڈ لینے سے اس لیے معذرت کر لی تھی کہ میرا ایمان ہے مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے۔ ایک سینئر دوست کو البتہ ایک ’’محافظ‘‘ دے دیا گیا ہے۔ اس ’’محافظ‘‘ کو وصول پانے کے بعد مجھے اپنے اس دوست کا فون آیا اور انھوں نے فرمایا کہ یہ تو مجھے خود کی حفاظت کا اہل بھی نہیں لگتا میری حفاظت کیا کرے گا۔ دوست کا مطالبہ تھا کہ انھیں ایلیٹ فورس کا کوئی محافظ دیا جائے۔ اپنے اس دوست کی معصومیت پر قربان جانے کو دل چاہتا ہے۔ یہ تو وہی بات ہو گئی ’انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند‘۔ حضور ایلیٹ فورس میری اور آپ کی حفاظت کے لیے نہیں بنائی گئی۔ یہ فورس حکمرانوں کی جان کی حفاظت پر مامور ہے۔ اور یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ حکمرانوں کی جان ہم سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ ہمیں کچھ ہوا تو صرف ہماری فیملیاں اور دوست متاثر ہوں گے۔ انھیں تو رو دھو کر صبر و قرار نصیب ہو جائے گا لیکن حکمرانوں کو کچھ ہو گیا تو یہ ملک کا نقصان ہو گا۔ اتنا بڑا نقصان برداشت نہیں کیا جا سکتا۔لہٰذا ملک کو بچانے کے لیے ان کا تحفظ کرنا ہم سب کا فرض اولین ہونا چاہیے‘ ہم اور ہمارے ادارے یہ فرض پوری ایمانداری سے نبھا رہے ہیں۔

رضا رومی پر حملے کے بعد ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان تمام دوستوں کا بھی شکریہ جو میری وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ کل ایک خاتون دوست کا بھی فون آیا تھا۔ وہ پوچھ رہی تھیں ان حملوں کے بعد کیا صحافی اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے خوف زدہ ہونگے؟ اس معصوم اور ہمدردانہ سوال کا کیا جواب دوں‘ بس بے بدل شاعر فیض احمد فیض کی نظم کے تین شعر ان کی نذر کرکے رخصت چاہتا ہوں۔

مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں

دل والو کوچہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں

گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا

گر جیت گئے تو کیا کہنا‘ ہارے بھی تو بازی مات نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔