دہشت گردی خطے کے امن کے لیے خطرہ

ایڈیٹوریل  منگل 6 دسمبر 2022
دہشت گردی سے امن و امان کے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں شہریوں کو اس کا بخوبی ادراک ہوچکا ہے۔ فوٹو: فائل

دہشت گردی سے امن و امان کے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں شہریوں کو اس کا بخوبی ادراک ہوچکا ہے۔ فوٹو: فائل

کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کر لی۔ دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ داعش خراسان نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق افغان حکام کے ساتھ مشاورت کے بعد ہم ان رپورٹوں کی سچائی کی تصدیق کر رہے ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ دہشت گردی ہے‘ افغانستان اور خطے میں امن و استحکام کو لاحق خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔

لہٰذا اس لعنت کو شکست دینے کے لیے تمام تر اجتماعی طاقت کے ساتھ عزم سے کام لینا چاہیے۔دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے اپنے عزم پر ثابت قدم ہے۔

ادھر امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے پر حملے کے الزام میں گرفتار غیر ملکی شہری داعش کا رکن ہے، پاکستانی سفارت خانے پر حملے کے پیچھے غیر ملکیوں کا ہاتھ ہے۔

ترجمان امارت اسلامی افغانستان نے کہا کہ پاکستانی سفارت خانے پر حملے کا مقصد افغانستان اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا ہے۔یاد رہے کہ تین روز قبل کابل میں پاکستانی ناظم الامور پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ سفارتخانے کی عمارت کے کمپاؤنڈ میں چہل قدمی کر رہے تھے، اس قاتلانہ حملے میں پاکستانی ناظم الامور محفوظ رہے تاہم ان کا سیکیورٹی گارڈ زخمی ہوا۔

اس سے قبل سفارتی ذرایع سے ملزم کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ملزم پاکستانی سفارتخانے کے قریب عمارت کی آٹھویں منزل پر رہائش پذیر تھا اور ملزم نے اپنے فلور کے تین کمروں میں آئی ای ڈیز بچھا رکھی تھیں۔ سفارتی ذرایع کا بتانا تھا کہ افغان سیکیورٹی حکام کے پہنچنے پر ملزم نے رسی کی مدد سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی تاہم اسے گرفتار کرلیا گیا۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعہ کو پاکستانی سفیر قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے جب کہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے پاکستانی مشن کے ہیڈ کی حفاظت پر مامور پاکستانی سیکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہو گیا ہے۔

پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں پاکستانی ہیڈ آف دی مشن عبیدالرحمن نظامانی چہل قدمی کر رہے تھے کہ وہاں کسی نزدیکی عمارت سے داخل ہونے والے افراد نے ان پر فائرنگ کر دی، عبیدالرحمن نظامانی کی حفاظت کرتے ہوئے ایک پاکستانی سیکیورٹی گارڈ سپاہی اسرار محمد دہشت گردوں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوگئے۔ رات گئے سپاہی محمد اسرار کو بذریعہ ہیلی کاپٹر پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔

پاکستان نے اس حملے کی شدید مذمت کی تھی اور اسلام آباد میں تعینات افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے اندر ہیڈ آف دی مشن پر قاتلانہ حملے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ پاکستان نے مطالبہ کیا کہ افغانستان کی عبوری حکومت فوری طور پر اس حملے کی مکمل تحقیقات کرے، مجرموں کو پکڑنے اور ان کا محاسبہ کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

پاکستان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ افغانستان میں پاکستانی سفارتی عملے اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں کیونکہ پاکستان کے سفارتی مشنز اور اہلکاروں کی حفاظت اور تحفظ افغانستان کی عبوری حکومت کی ذمے داری ہے۔ سفارت خانے کے احاطے کی سیکیورٹی کی سنگین خلاف ورزی کی تحقیقات کی جائے۔

پاکستان نے کہا کہ سفارتی احاطے، افسران اور اہلکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔ افغانستان کی حکومت کابل میں پاکستانی سفارت خانے، جلال آباد، قندھار، ہرات اور مزار شریف میں قونصل خانوں میں کام کرنے والے عملے کی حفاظت یقینی بنائے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق افغان ناظم الامور نے کہا ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارت کار پر ہونے والا حملہ انتہائی افسوسناک ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ دشمنوں نے کیا ہے۔ افغان قیادت نے بھی اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔

افغان حکام اس گھناؤنے فعل کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد سب کی یہ پختہ رائے تھی کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی صورت حال بہتر ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ افغان طالبان کی عبوری حکومت ابھی تک نہ تو اقوام عالم کی حمایت حاصل کر سکی ہے اور نہ ہی افغانستان میں پوری طرح امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل سمیت دیگر کئی علاقوں میں داعش اور القاعدہ کی باقیات اکثر اوقات کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔ کابل میں کئی بار خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی طالبان بھی افغانستان کی سرزمین پر آزادانہ نقل وحرکت کر رہے ہیں اور وہاں سے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ اصل مسئلہ افغانستان کی عبوری حکومت کا اپنی سرزمین پر اقتدارِ اعلیٰ کا قیام ہے۔

بظاہر افغان طالبان کا افغانستان پر پورا کنٹرول نظر آتا ہے لیکن افغان عبوری حکومت افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کوئی فیصلہ کن آپریشن کرنے میں بھی ناکام نظر آتی ہے۔

افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کی ذمے داری وہاں کی انتظامیہ کی ہے،تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیاں اس امر کا ثبوت ہیں کہ ان گروہوں کو مقامی سہولت کاروں کی معاونت حاصل ہے۔دوسری جانب یہ گروہ کافی طاقتور اور منظم ہیں جو حکومت افغانستان اور پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان دہشت گرد گروہوں کو بیرونی امداد بھی مل رہی ہے جو ان کی تقویت کا باعث بن رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ گروہ کسی کے قابو میں نہیں آ رہے اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے بآسانی فرار ہو جاتے ہیں۔ اب اس معاملے میں مسائل کیا ہیں، اس کے بارے میں تو افغانستان کی عبوری حکومت کے اعلیٰ عہدیداران ہی وضاحت کر سکتے ہیں تاہم بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ طالبان کے اپنے اندر بھی مختلف ایشوز کے حوالے سے یکسوئی یا نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے۔

اس وجہ سے عبوری حکومتی ڈھانچہ پوری طرح فعال نظر نہیں آتا خصوصاً انٹرنل سیکیورٹی کے حوالے سے صورت حال زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ پاکستان کے کابل میں سفارت خانے کی عمارت کے کمپاؤنڈ میں دہشت گرد آسانی سے کیسے داخل ہوا یا ہوئے، اس کا پتہ لگایا جانا انتہائی ضروری ہے اور ان کی معاونت کن افراد نے کی ،ان مقامی سہولت کاروں کا پتہ لگایا جانا اشد ضروری ہے۔

ابھی تک تو حملہ آوروں کی تعداد کا ہی پتہ نہیں چل سکا ہے۔ افغان حکومت کے ترجمان کا محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ یہ واقعہ پاکستان اور افغانستان کے دشمنوں کی کارروائی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دشمن عمارت کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو کر پاکستانی مشن ہیڈ پر قاتلانہ حملہ کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟

سوات قومی جرگہ نے سوات میں دہشتگردی کے خاتمے اور مکمل پائیدار امن کے لیے جدوجہد کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم کسی بھی صورت اپنی سرزمین پر دہشتگرد یا دہشتگردی کو قبول نہیں کرینگے۔

سوات قومی جرگہ کا گرینڈ جرگہ و دودیہ ہال سیدو شریف میں منعقد ہوا جس میں ملاکنڈ ڈویژن کے علاقائی مشران‘ تمام سیاسی جماعتوں کے مقامی عہدیداروں‘ تمام فعال تنظیموں اور بونیر‘ اپر اور لوئر دیر‘ ملاکنڈ اور شانگلہ کے مشران نے بھی شرکت کی۔ جرگہ میں سوات قومی جرگہ کے تمام مشران ،اے این پی ،مسلم لیگ ن‘ قومی وطن پارٹی‘ پیپلز پارٹی ‘ جماعت اسلامی ‘ جمعیت العلمائے اسلام ‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی۔

سوات قومی جرگہ کے اعلامیے کے مطابق جرگہ نے فیصلہ کیا ہے کہ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں عوام کسی بھی قسم کی دہشتگردی قبول نہیں کرینگے اور پائیدار امن کے قیام کے لیے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں گے۔

دہشت گردی سے امن و امان کے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں شہریوں کو اس کا بخوبی ادراک ہوچکا ہے،لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ہر صورت امن قائم ہو۔اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کے تعاون سے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرے اور انھیں کیفر کردار تک پہنچائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔