ایک ملاقات

محمد سعید آرائیں  منگل 6 دسمبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں ماضی کے مقابلے میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے جس کا ثبوت جنرل پرویز مشرف کے بعد ملک میں 6 وزرائے اعظم کا انتخاب اور چودہ سال میں ملک کا مارشل لا سے محفوظ رہنا اور جمہوری حکومتوں کا تسلسل برقرار رہنا ہے۔

ملک میں سیاسی کشیدگی کے باوجود ملک میں جمہوری حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ ملک میں ہر 5 سال بعد عام انتخابات ہوتے رہے اور 2008کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی اور 2018 کے انتخابات میں آرٹی ایس بٹھا کر جس طرح سے عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا۔

اس دھاندلی کا سب کو پتا ہے کہ وہ منصفانہ نہیں جانبدارانہ تھے جس کے بعد وزیر اعظم نے غیر جمہوری رویہ اختیار کیا حالانکہ ان کی اپوزیشن نے جمہوری رویہ اختیار کرکے عمران خان کو میثاق معیشت کی پیش کش کی تھی جسے عمران خان نے اپوزیشن کی کمزوری تصور کیا اور پوری اپوزیشن کے خلاف بدترین انتقامی کارروائی شروع کردی اور حکومتی اداروں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرکے تمام اہم اپوزیشن رہنماؤں پر مقدمات بنوا کر انھیں گرفتار کرایا اور اپوزیشن رہنماؤں کو طویل عرصہ قید میں رکھا اور ان مقدمات سے عمران حکومت میں ہی تمام اسیر رہنما عدالتوں سے ضمانت پر رہا اور متعدد بری ہوئے کیونکہ تمام کے خلاف مقدمات بے بنیاد تھے اور عمران خان پونے چار سال تک اپوزیشن کے رہنماؤں کو گرفتار کراتے رہے اور انھوں نے اپنے کیے گئے اعلانات پر عمل کیا اور نہ ہی کارکردگی دکھائی اور اپنا اقتدار صرف اپوزیشن کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔

ان خیالات کا اظہار مسلم لیگی سینیٹر رانا مقبول احمد نے راقم کے ساتھ لاہور میں اپنی قیام گاہ پر ملاقات میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اس لیے پی پی اور (ن) لیگ کی طرح اپنی آئینی مدت مکمل نہ کرسکی کہ عمران خان کا رویہ غیر جمہوری اور انتقامی تھا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے مسلسل اقتدار میں رہنے کی منصوبہ بندی کرچکے تھے جس کی وجہ سے اپوزیشن کو متحد ہونا پڑا۔

اپوزیشن کے ساتھ عمران خان کا رویہ انتہائی غیر جمہوری اور غیر سیاسی تھا جس سے جمہوریت کمزور ضرور ہوئی مگر اپوزیشن نے اپنا آئینی حق استعمال کرکے پی ٹی آئی کے ارکان کی مدد کے بغیر متحدہ اپوزیشن کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران کو ہٹایا جس میں غیر ملکی مداخلت اور ریاستی اداروں کا کوئی کردار نہیں تھا۔

ہر ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے جس کی ایک مثال برطانیہ ہے جہاں 4 سال میں 5 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے مگر کسی نے عمران خان کی طرح جھوٹے الزامات عائد نہیں کیے اور اپنے خلاف آئینی فیصلہ قبول کیا۔

رانا مقبول احمد نے کہا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرائی گئی اور اپوزیشن نے یہ متنازع فیصلہ قبول کیا اور مسلم لیگ (ن) اور حکومت ضرور متاثر ہو رہی ہے مگر اتحادی حکومت نے کوئی بھی ایک غیر جمہوری رویہ اختیار نہیں کیا اور اپنے خلاف ہر عدالتی فیصلہ قبول کیا اور کسی کو غیر آئینی مداخلت کرنے کا موقعہ نہیں دیا۔

اگر عمران خان جمہوری طرز عمل اپناتے تو ان کی حکومت بھی اپنی مدت پوری کرسکتی تھی۔سینیٹر رانا مقبول نے تسلیم کیا کہ عمران خان کی الزام تراشی اور جھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود وفاقی حکومت نے عمران خان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے۔

غیر آئینی غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ، توشہ خانہ کے کیس الیکشن کمیشن نے بنائے ہیں جن میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں اور عمران خان اپنا کیا ہوا بھگت رہے ہیں اور اتحادیوں کی شکایات جائز ہیں کہ وفاقی حکومت نے عمران خان کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی واقعی ہے جس کی ذمے دار وفاقی حکومتیں نہیں صوبائی حکومتیں ہیں جو مہنگائی کنٹرول نہیں کر رہیں جو ان کی آئینی ذمے داری ہے۔

انھیں وفاقی حکومت ہدایات نہیں دے رہی جو آئین کے تحت دی جانی چاہیے اور صوبائی حکومتوں کے اس غیر ذمے دارانہ اقدام کے باعث بدنام وفاقی حکومت ہو رہی ہے کوئی بھی صوبائی ادارہ مہنگائی کنٹرول کرنے پر توجہ نہیں دے رہا جس کی وجہ سے ناجائز منافع خوروں نے لوٹ مچا رکھی ہے اور ہر شخص من مانی قیمتیں وصول کر رہا ہے۔

سینیٹر رانا مقبول احمد ایک سینئر پولیس افسر اور سندھ کے آئی جی پولیس بھی رہے ہیں جنھوں نے کراچی سے دہشت گردی ختم کرا کر امن و امان قائم کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کے سیاست زدہ ہونے سے جرائم مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

سندھ میں پولیس میں سیاست سب سے زیادہ ہے اور پنجاب اور کے پی میں بھی پولیس کو سیاستدانوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے سیاست زدہ کر رکھا ہے۔

بلوچستان میں سرداروں نے پولیس کو سیاست میں ملوث کر رکھا ہے وہاں لیوی نہیں ہونی چاہیے اور ضروری ہے کہ ملک میں پولیس کو ہر حالت میں غیر سیاسی کیا جائے مگر بااثر افراد اس سلسلے میں رکاوٹ ہیں وہ مرضی کے پولیس افسران اپنے علاقوں میں تعینات کراتے ہیں۔

سیاسی پولیس کبھی بھی امن و امان قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔مسلم لیگی رہنما اور تجزیہ کار رانا مقبول احمد کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کی عوام میں مقبولیت ضروری ہے اور ضروری ہے کہ وہ اب جمہوری کردار ادا کرے اور اپنی منفی سیاست چھوڑ کر ملکی سیاست میں تعمیری کردار ادا کرے تاکہ ملک میں کسی دوسری قوت کو سیاست میں مداخلت کا موقعہ نہ ملے۔

اس سلسلے میں تمام سیاستدانوں کو جمہوریت کی بقا کے لیے اپنا جمہوری کردار ادا کرنا پڑے گا۔ رانا مقبول احمد نے توقع ظاہر کی کہ سیاستدان ماضی سے سبق سیکھیں گے تاکہ جمہوریت مضبوط ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔