اسمبلیاں نہیں ٹوٹ رہیں

مزمل سہروردی  منگل 6 دسمبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے عندیہ دیا ہے کہ چار ماہ تک اسمبلیاں توڑنا ممکن نہیں۔ جس کے بعد میری رائے میں عمران خان کا پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑنے کا ڈرامہ بھی فلاپ ہو گیا ہے۔ وہ اس کو مزید نہیں چلا سکتے۔

اس لیے اب سیاسی منظر نامہ پر واضح ہونا شروع ہو گیا ہے کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں نہیں ٹوٹ رہی ہیں۔ اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ اب عمران خان کو کسی نئے سیاسی اسٹنٹ کے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔ اسمبلیاں توڑنے کا ڈرامہ مزید چلتا نظر نہیں آرہا۔

حکمران اتحاد کے اندر پہلے دن سے یہ سوچ تھی کہ عمران خان اسمبلیاں نہیں توڑیں گے۔ اسی لیے پنجاب میں کوئی عدم اعتماد پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح گورنر پنجاب کو بھی وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے سے روک دیا گیا۔

ورنہ یہ سوچ تھی کہ کم از کم پنجاب اسمبلی کو بچانے کے لیے کوئی نہ کوئی حکمت عملی بنائی جائے گی۔ تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ بتا رہا تھا کہ حکمران اتحاد کو یہ یقین تھا کہ عمران خان صرف ڈرا رہے ہیں۔ ان کا اسمبلی توڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

سب حیران تھے کہ جب عمران خان نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے تو حکمران اتحاد کو اسمبلیاں بچانے کے لیے عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش قبول کرنی چاہیے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ نے عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش فوری مسترد کر دی۔ حالانکہ اس سے پہلے مذاکرات کی بہت بات کی جاتی تھی۔

ایک خیال یہ بھی تھا کہ پی ڈی ایم چوہدری پرویز الہی کو وزارت اعلیٰ کی دوبارہ پیشکش کر دے ۔ اسی لیے سابق صدر آصف زرداری لاہور بھی نہیں آئے بلکہ انھوں نے بھی عمران خان سے مذاکرات کو یکسر مسترد کر دیا۔

حکمران اتحاد کی یہ سوچ درست ثابت ہوئی ہے کہ عمران خان اسمبلیاں نہیں توڑ سکتے۔ وہ صرف ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حکمران اتحاد کی جانب سے یہ اعلان کہ اگر کے پی اور پنجاب کی اسمبلیاں توڑی گئیں تو صرف کے پی میں ہی انتخابات کروا دیے جائیں گے۔

قومی اسمبلی سندھ اور بلوچستان کے انتخاب پھر بھی نہیں کروائے جائیں گے۔ اس لیے عمران خان کو یہ باور کروایا گیا کہ کے پی اور پنجاب کی اسمبلیاں توڑ کر بھی انھیں قومی اسمبلی کے انتخابات نہیں ملیں گے۔ اس لیے یہ ہتھیار بھی ناکام ہو ہو گا۔

اب سوال یہ ہے کہ پنجاب اور کے پی، کے انتخابات کیا عمران خان کے مفاد میں ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ عمران خان بہت مقبول ہیں اس لیے اگر اس وقت پنجاب اور کے پی، کے انتخابات ہوتے ہیں تو وہ جیت جائیں گے۔ اور اگر قومی اسمبلی کے انتخابات بعد میں بھی ہوتے ہیں تب بھی انھیں فائدہ ہو گا۔ ان کی پنجاب اور کے پی میں حکومتیں موجود ہوں گی۔

ایسے میں قومی اسمبلی کے انتخابات جیتنا مشکل نہیں ہوگا۔ اس لیے تحریک انصاف کے اندر یہ سوچ بھی ہے کہ اگر قومی اسمبلی کا انتخاب نہیں بھی ملتا تب بھی پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ کر انتخابات میں جانا چاہیے۔

لیکن اس میں ایک بہت بڑا اگر بھی ہے۔ اگر عمران خان پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دیتے ہیں ۔ تو ان کی اپنی حکومتیں ختم ہو جائیں گی۔ مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت موجود ہوگی۔ اس طرح پی ڈی ایم کو ایک برتری ہوگی۔

گزشتہ ضمنی انتخابات میں بے شک پنجاب سے عمران خان نے دو سیٹوں پر برتری حاصل کی تھی۔ لیکن یہ برتری کوئی ایسی نہیں تھی کہ کہا جا سکے کہ عمران خان نے کوئی بہت بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی ہے۔

ملتان کی سیٹ پر شاہ محمود قریشی کی بیٹی ہار گئیں۔ جب کہ عمران خان نے بھی کوئی بڑے مارجن سے کامیابی حاصل نہیں کی۔ جس کا مطلب ہے کہ ن لیگ کا ووٹ بینک اپنی جگہ موجود ہے۔ جب پورے صوبے میں انتخابات ہوں گے اور سب جگہ عمران خان امیدوار نہیں ہونگے تو نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اگر ہار گئے کا اگر خطرے کی بہت سی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ یہی خطرہ اسمبلیاں توڑنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

دوسری طرف اگر پنجاب اسمبلی نہیں توڑی جاتی تو صرف کے پی کی توڑنا ایک گناہ بے لذت ہوگا۔ صرف کے پی اسمبلی توڑنے کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں۔ اس کا بھی نقصان ہی ہوگا۔ ویسے بھی کے پی، کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر پنجاب کی اسمبلی نہیں توڑنی تو ہمیں قربانی کا بکرا کیوں بنایا جا رہا ہے۔ پنجاب کی نسبت کے پی میں عمران خان کی پوزیشن بہتر ہے۔ لیکن وہاں تحریک انصاف کے اندر اختلافات بھی بہت زیادہ ہیں۔ جن کی وجہ سے کافی نقصان کی توقع ہے۔

تحریک انصاف میں پرویز خٹک اسمبلیاں  نہ توڑنے کے حق میں ہیں۔ انھوں نے تحریک انصاف میں اسمبلیاں نہ توڑنے کے حق میں بہت لابنگ کی ہے۔ انھوں نے چوہدری پرویز الٰہی سے بھی دو ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ یہ دونوںملاقاتیں عمران خان کی چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات سے قبل ہوئیں۔ اس لیے پرویز خٹک اور چوہدری پرویز الٰہی نے ملکر اسمبلیوں کو بچانے کے لیے ماحول بنایا۔ اور اب لگ رہا ہے کہ ماحول بن گیا۔ عمران خان کو ان کے ساتھی ہی دباؤ میں لے آئے ہیں۔ وہ اندر کے دباؤ کی وجہ سے اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ فواد چوہدری اور دیگر سخت موقف رکھنے والے گروپ نے واضح اعلان کیا تھا کہ جمعہ یا ہفتہ تک اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیا جائے گا۔ لیکن ہفتہ تک یہ اعلان نہیں ہو سکا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ 20دسمبر تک اعلان ہو جائے گا۔ لیکن چوہدری پرویز الٰہی او ر چوہدری مونس الٰہی کے اعلانات نے منظر نامہ واضح کیا ہے کہ ایسا کوئی اعلان نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے عمران خان کو اب کوئی نیا کھیل کھیلنا ہوگا۔ یہ کھیل اب نہیں چلے گا۔

کیا عمران خان یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ انھیں مقررہ وقت پر انتخابات قبول ہیں۔ اس لیے وہ قبل از وقت انتخابات کی شرط ختم کرتے ہیں۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ واپس قومی اسمبلی میں جا سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر اسمبلیاں نہیں توڑنی تو پھر واپس پارلیمان میں جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔

لیکن ایک شنید ہے کہ عمران خان کو سیاسی فیس سیونگ کی تلاش ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں سیاسی طور پر فیس سیونگ دی جائے۔ تا ہم عمران خان کے سیاسی مخالفین کا خیال ہے کہ انھیں کوئی سیاسی فیس سیونگ نہیں دی جائے ۔وہ اپنا سیاسی قتل تو کروا سکتے ہیں لیکن عمران خان کو سیاسی فیس سیونگ نہیں دے سکتے۔

عمران خان کے قریب چند لوگ جو محاذ آرائی کی سیاست میں ہی تحریک انصاف اور عمران خان کی بقا سمجھتے ہیں۔ وہ اب عمران خان کو جنرل باجوہ کے خلاف بیانیہ بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کی رائے میں بیانیہ کے بغیر سیاسی بقا مشکل ہے۔

امریکا مخالف بیانیہ عمر پوری کر چکا ہے۔ میر جعفر میر صادق کا بیانیہ بھی اب نہیں چل سکتا۔ نئی فوجی قیادت آگئی ہے۔ جس سے نہ لڑنے کا فیصلہ ہے۔ اس لیے اب جنرل باجوہ ہی آسان ہدف ہیں۔ ان کے خلاف جتنی مرضی بات کی جائے۔ تا ہم چوہدری پرویز الٰہی او ر چوہدری مونس الٰہی نے اس بیانیہ میں سے بھی ہوا نکال دی ہے۔ اس لیے عمران خان بند گلی میں نظر آرہے ہیں۔

ان کو ایک نئی راہ کی تلاش ہے۔ ایک نئے طوفان کی تلاش ہے۔ پہلے والے سب طوفان تھم گئے ہیں۔ اور سب راہیں بند ہو گئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔