محبت بکھیرتی عالمی اردو کانفرنس

شہریار شوکت  منگل 6 دسمبر 2022
آرٹس کونسل آف پاکستان میں اس سال پندرہویں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

آرٹس کونسل آف پاکستان میں اس سال پندرہویں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

آج کے اس دور میں دنیا بھر کے ممالک آپس میں چھوٹے بڑے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ کہیں سرحدوں پر لڑائیاں جاری ہیں، کہیں ایک دوسرے کے خلاف سازش تو کہیں کھل کر مخالفت۔ ایک ہی ملک میں بسنے اور حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی ایک دوسرے پر تنقید ہی کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اسکرین دیکھیں یا سوشل میڈیا پر اسکرولنگ کریں، سیاست دان ایک دوسرے کی دھجیاں اڑاتے نظر آئیں گے۔ کسی سیاسی جماعت کے جلسے کو کچھ دیر دیکھ یا سن لیں تو ایسا معلوم ہوگا اپنے ہی ملک میں سب ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ تفریحی پروگراموں پر نظر ڈالی جائے تو اپنے رسم و رواج کہیں نظر نہیں آئیں گے یا تو مغربی رنگ چھایا ہوگا یا پڑوسی ملک کے اسکرپٹ سے متاثر ہونے کا تاثر ملے گا۔

بلاشبہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اس کے اثرات لیتے ہیں۔ لہٰذا اب معاشرے میں ہر طرف خاندانی جھگڑے نظر آنے لگے ہیں۔ عوام میں برداشت کا مادہ بھی ختم ہورہا ہے۔ ایسا میں ایک خیال دل میں آتا ہے ہم شعرا کو کیوں نہیں سنتے؟ ادیبوں کو کیوں نہیں پڑھتے، کیوں نہیں دیکھتے؟ ایک دوسرے پر ہونے والی تنقید پر توجہ کے بجائے فنکاروں کے فن پاروں پر کیوں توجہ مرکوز نہیں کرتے؟ شاید ایسا کرنے سے ہم قدرت کے قریب ہوں، دنیا کو ایک نئی نظر سے دیکھیں، دنیا پُرامن ہوجائے، محبت کا درس ہر طرف عام ہو۔

گزشتہ 15 سال سے کراچی میں ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کا ایسا ہی ایک میلہ سجتا ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان میں اس سال پندرہویں عالمی اردو کانفرنس ک انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان اور بیرون ملک سے شعرا، ادیبوں اور فنکاروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ چار روز تک جاری رہنے والے ادبی میلے کی افتتاحی تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزیر سردار شاہ، انور مقصور، صدر آرٹس کونسل آف پاکستان احمد شاہ سمیت سیاسی رہنماؤں، فنکاروں اور شاعروں نے شرکا سے بات کی۔

عالمی اردو کانفرنس میں ’اکیسویں صدی میں اردو شاعری اور بچوں کا ادب‘ پر بات کی گئی۔ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں اردو کی تعلیم کہاں تک پہنچی، تعلیم اور خواتین کا کردار اور سماجی رویے جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی۔ جن ممالک میں اردو پر کام ہورہا ہے ان ممالک سے آئے سفیروں نے بھی موجودہ صورتحال سے شرکا کو آگاہ کیا۔ غزل، نظم، رباعی نے رواں صدی میں مغربی دنیا پر کیسی چھاپ چھوڑی ہے اور اس دور میں بچوں میں ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔ آرٹس کونسل میں انور مقصود کی طنزو مزاح سے بھرپور گفتگو نے خوب رنگ بکھیرے۔ سلمان گیلانی کی میٹھی میٹھی شاعری سے بھی شرکا خوب لطف اندوز ہوئے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان میں ہونے والی عالمی اردو کانفرنس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں نوجوان شعرا اور ادیبوں کو بھی اپنی بات کہنے اور کلام سنانے کا موقع دیا جاتا ہے۔

عالمی اردو کانفرنس میں کئی کتابوں کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔ ملک کے نامور صحافیوں نے دور حاضر کے صحافیوں کو درپیش چلینجز پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ عالمی اردو کانفرنس میں جہاں قومی زبان پر گفتگو ہوئی، وہیں پاکستان کی علاقائی زبانوں اور ثقافت سے بھی حاضرین کو روشناس کرایا گیا۔ پشتو، سندھی، پنجابی اور بلوچی ادب اور ثقافت پر مختلف دنوں میں سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اردو تمام زبانوں کو سینے سے لگاتی ہے اسی لیے مختلف زبانوں پر مقالوں کا انقعاد کیا گیا ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان جہاں خوبصورت زبانوں کا ایک میلہ ہے وہیں کتب بینی کو فروغ دینے کےلیے اس کانفرنس میں کتب میلہ بھی لگایا گیا جہاں مختلف زبانوں میں لکھی گئی کتب کے اسٹال لگائے گئے۔ آرٹس کونسل میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس میں ہر عمر کے مرد و خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ لوگ اس کانفرنس میں شرکت کےلیے دوسرے شہروں اور بیرون ملک سے بھی آئے جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں میں ادب و فن کے حصول کی تڑپ اور پیاس اب بھی ہے۔ بلاشبہ اس کانفرنس کا انعقاد ادب پسندوں اور زبانوں کی لازوال خدمت ہے۔

صدر آرٹس کونسل نے اس کانفرنس کو دوسرے شہروں میں منعقد کرنے کے ارادے کا بھی اظہار کیا ہے۔ اگلے سال بھی یہ کانفرنس اپنی آب و تاب سے ہوگی لیکن اس دوران حکومت، ادبی تنظیموں، مقامی حلقوں اور دیگر شہروں میں بسنے والے فن پسندوں کو بھی ایسی کانفرنسوں اور محفلوں کا انعقاد کرنا ہوگا۔ ٹی وی چینلز کو بھی پرائم ٹائم میں سے کچھ وقت ادبی پروگراموں کو دے کر عوام میں فن و ادب سے محبت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ بچوں کی تربیت کےلیے بچوں کے ادب پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ہمیں اپنے ادب، اپنی زبان اور اپنی ثقافت کے ساتھ زندہ رہنا ہے اور انہیں ہمیشہ یاد رکھنا ہے، جبھی ہم ایک عظیم قوم کہلائیں گے۔ ادب کی یہ خدمت صرف آرٹس کونسل اور اس کی کابینہ کی ہی ذمے داری نہیں بلکہ ہر اردو پسند کا قومی فریضہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔