شہرِقائد میں سجا چوتھا ’ادب میلہ‘؛ آنکھوں دیکھا حال

رضوان طاہر مبین  اتوار 4 دسمبر 2022
رومن اردو سمیت کئی اہم موضوعات زیر بحث آئے، فوٹو: فائل

رومن اردو سمیت کئی اہم موضوعات زیر بحث آئے، فوٹو: فائل

 کراچی.: 26 اور 27 نومبر 2022ء کو باغِ جناح (فریئر ہال) میں امینہ سید کی سرکردگی میں منعقدہ ’چوتھے ادبی میلے‘ میں بہت سے روایتی اور غیرروایتی موضوعات پر بیٹھکیں سجائی گئیں، کئی انگریزی کتب کی رونمائی اور ایسے ہی بہت سے لیکھکوں سے ان کی تصانیف پر براہ راست گفتگو کے سلسلے بھی رہے۔ ہم اپنی مصروفیات کے سبب تمام پروگراموں میں شریک نہ ہو سکے، اس لیے ہم ’شہر قائد‘ میں سجنے والے اس دو روزہ ’ادب میلے‘ کی چنیدہ بیٹھکوں میں شرکت کے احوال اور اپنے تاثرات قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔

یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ ایک محدود پیمانے پر بھرپور اور کام یاب ’ادبی میلہ‘ رہا، جس میں اکثر بیٹھکیں انگریزی زبان میں تھی، اس لیے سماج کا ایک مخصوص طبقہ ہی ان سے بہرہ وَر ہو سکا۔ بہ یک وقت پانچ جگہوں پر پروگراموں ہوئے، جس میں دو گوشے ’کتب خانے‘ کے اندر جگہ نکال کر بنائے گئے، جو تنگیئ داماں کی شکایت کرتے رہے، بالخصوص ممتاز شاعرہ زہرا نگاہ کی ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا سے گفتگو ایک وسیع سبزہ زار پر ہونی چاہیے تھی، لیکن نہ جانے کیوں اس کے لیے ’فیسٹول‘ کا سب سے چھوٹا گوشہ مختص کیا گیا، نتیجتاً شائقین اردو کی ایک بہت بڑی تعداد انھیں اطمینان سے سننے سے محروم رہی۔

دوسری بات بہ حیثیت ایک قاری، اِس عوامی کتب خانے کے کھلے ہوئے شیلفوں میں دھری نادر ونایاب کتب کو چھوڑٖ دینا یقینی طور پر کوئی مناسب امر نہ تھا۔ اگرچہ ہم نے بابائے اردو مولوی عبدالحق سے منسوب یہ فقرہ امراؤ طارق مرحوم کی زبانی سن رکھا تھا کہ کتابوں کی چوری جائز ہوتی ہے! مگر شاید اب ویسے کتابوں کے رسیا نہیں رہے، جو کھلے پڑے ہوئے ان قیمتی خزینوں کو کوئی ’خطرہ‘ لاحق ہوتا ورنہ ایسے بیٹھے بیٹھے نظر دوڑائیے، تو ایک ہی نگاہ میں بہتیری نادر کتب آپ کو اپنی جانب کھینچتی ہیں، لیکن چوری تو چوری ہی ہوتی ہے، سو ہم کتابوں کی جانب للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے سے زیادہ قوم کے نابلد افراد سے ان اَن مول کتب کو گزند پہنچنے کی فکر میں مبتلا رہے۔

اگر پروگرام لائبریری ہی میں منعقد کرنے تھے، تو ’قناتیں‘ لگا کر کتابوں کی حفاظت ضرور کرنی چاہیے تھی، اور پھر سوال تو یہ بھی ہے کہ وسیع وعریض باغ کو چھوڑ کر عمارت کے چھوٹے حصوں میں پروگرام کیوں رکھے گئے، ممکن ہے، اس میں شرکا کی تعداد کے تخمینے کے لحاظ سے کوئی انتظامی مصلحت پنہاں رہی ہو، لیکن اس کے باوجود ’لیاقت لائبریری‘ کی سرکاری کتب کا تحفظ بھی اپنی نجی ملکیت کی طرح کرنا چاہیے تھا۔

بہرحال، اس ’ادبی میلے‘ میں ہم نے پہلی بار پاکستان پیپلز پارٹی کے ممتاز سیاست داں بیرسٹر اعتزاز احسن کو روبرو گفتگو کرتے ہوئے دیکھا، جو پرمود کپور کی کتاب Royal Indian Navy Mutiny: Last War of 1946 پر اظہارخیال کے لیے موجود تھے، جو 1946ء کی مسلح بغاوت کے حوالے سے تھی، ظاہر ہے استعماری طاقتوں کے خلاف ہر طرح کی جدوجہد آزادی تب بغاوت اور سرکشی ہی گنی جاتی ہے، یہاں شریک گفتگو حمید ہارون نے اس امر پر زور دیا کہ یہ ہمارے لیے دوسری ’جنگ آزادی‘ تھی، بغاوت نہیں، ان کے ساتھ ڈاکٹر جعفر احمد نے اس جانب توجہ دلائی کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں ایسی جدوجہد آزادی کرنے والوں سے متعلق کیوں نہیں پڑھاتے۔

ادب فیسٹول میں گوگل ’کراؤڈ سورس‘ سے متعلق بھی ایک بیٹھک سجائی گئی، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح ہم اپنی زبانوں کے ترجمے اور مواد کی ترویج کی خاطر رضاکارانہ طور پر ’گوگل‘ کو خدمات فراہم کر سکتے ہیں۔ یہاں ایک نوجوان کا یہ سوال تھا کہ ’گوگل‘ کو اس خدمت کا محنتانہ دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ وبا کے دوران تشکیل پانے والے ادب سے متعلق موضوعات وغیرہ بھی ’ادب میلے‘ کا حصہ تھے۔

آج کہنے کو اطلاعات کی آزادی ہے، بڑے پیمانے پر نجی ذرایع اِبلاغ کے ساتھ اب ہر شہری ہی بہ ذریعہ انٹرنیٹ، اطلاعات و اثرپذیری کا ہرکارہ بنا ہوا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ’ادب میلے‘ میں اس سوال کا جواب ڈھونڈا جاتا کہ آج بھی سچ کیوں پائمال ہے؟ وہ کون سی رکاوٹیں ہیں، جو آج بھی اپنے چہرے بدل کر اپنی مرضی سے اس دنیا کو چلا رہی ہیں؟

سماج میں پنجے گاڑی ہوئی ’کثیرالقومی کمپنیاں‘ کیا گُل کھلا رہی ہیں؟ آج کس قسم کے اِبلاغی مواد کے لیے تجارتی اور غیرتجارتی ادارے، فلاحی ادارے اور عالمی اور مقامی تنظیمیں اور شخصیات اپنی تجوریوں کا منہ کھول رہے ہیں؟ وہ کون سے موضوعات ہیں جو دانستہ اس سماج میں فلموں ِ، ڈراموں اور مختلف تحریری، سمعی وبصری مواد کی صورت بھرپور طریقے سے پروان چڑھائے جا رہے ہیں؟

کون سے موضوعات اور خبریں دبائی جا رہی ہیں اور انھیں دبانے والا کون ہے؟ ذرایع اِبلاغ کا انحصار جدید برقی آلات پر ہونے سے فنون لطیفہ اور ان کے موضوعات اور مندرجات میں کیا فرق پیدا ہوا ہے؟ انسانی نفسیات اور سماجیات کی اٹھان کہاں جا رہی ہےِ؟ ’مصنوعی ذہانت‘ سے لے کر ’مصنوعی دوشیزہ‘ اور ’روبوٹک دنیا‘ تک کیا کچھ تبدیل ہو رہا ہے؟ ورچوئیل دنیا کیا بلا ہے اور اس کے اثرات ہیں؟ یہ اور ایسے بے شمار موضوعات کی ایک بہت طویل فہرست ہے، جو نام نہاد آزاد ذرایع اِبلاغ کے دور میں یہاں زیادہ کھلے ڈلے انداز میں بغیر کسی تجارتی رکاوٹوں اور قدغن کے اجاگر کیے جا سکتے تھے، بہت سے سماجی مسائل کی نئی پرتیں کھولی جا سکتی تھیں، دنیا بھر سے ’تیسری دنیا‘ میں برآمد کیے جانے والے نام نہاد مساوات اور ان کی در پردہ ’این جی او‘ کے حوالے سے بہت سے سوالات اور تحقیقات سے روشناس کرایا جا سکتا تھا۔

ایک گوشے میں ڈاکٹر عارفہ زہرا نے ضرور مکالمے کی ضرورت پر زور دیا، لیکن صاحب سچ پوچھیے، تو حضرت انسان اب ان دیکھی زنجیروں میں جکڑ دیے گئے ہیں، اس کی سوچ کے ہر راستے پر طرح طرح کے ’اِبلاغی‘ پہرے دار آڑے ہیں اور اب وہ مزاحمت کرتا ہے اور نہ سرمایہ داری اور ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کی یہ ’واردات‘ سمجھ پاتا ہے جیسے دیوار پر لگے ہوئے ’شِیرے‘ کی جانب مکھی لپکتی ہے، ایسے ہی طے شدہ ہرکارے ’چھو‘ کر کے مثل سَگ ہماری اچھل کود اور پریشان ہونے کو جب چاہتے ہیں ایک نئی ’چیز‘ اچھال دیتے ہیں، ان پر کسی ورلڈ کپ یا کھیل کود کی ملح کاری بھی کرا دیتے ہیں، کسی عالمی دن کی قلعی چمکا دیتے ہیں اور پھر صاحب دے مار ساڑھے چار…!

شیکسپیر نے تو کسی اور ترنگ میں دنیا کو ایک منچ کہا تھا، لیکن اب یہ دنیا ’نامعلوم‘ ہاتھوں کے منچ میں بھی رواں دواں ہے۔ جیسے نہ جانے اب کس ایجنڈے کے تحت ’موسمیاتی بربادی‘ کا ایک شور برپا ہے، لیکن ہم سوچتے ہیں کہ آخر کیسے اس ماحولیاتی بربادی کو ”سرمایہ دارانہ دہشت گردی“ سے الگ کر کے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن صاحب، عجیب تماشا ہے، اور اس دنیا کو چلانے اور ہنگامے برپا کرنے والے مداری کیسے کاری گر ہیں، کہ رلانا بھی اپنی مرضی سے چاہتے ہیں اور ہنسنا بھی اپنی اجازت سے مشروط کیے بیٹھے ہیں… بات سے بات نکلتی چلی جائے گی، دفتر کے دفتر بھر جائیں گے۔ ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اہل علم کے ایسے لٹریچر فیسٹول، بیٹھکیں، ادبی میلے، اردو کانفرنسیں، صرف کھیل تماشے اور نشستند، گفتند برخاستند اور کھیل ختم پیسہ ہضم سے بہت آگے کے دَر وا کرنے کا باعث ہونی چاہئیں، جس پر کسی ’سرمایہ دار‘ کی مرضی ہو اور نہ کسی ’اسپانسر‘ کی منشا اور نہ ’این جی او‘ کی خواہش۔

ادب تو براہ راست سے سماج سے جڑا ہوا ہوتا ہے، کیا ہی خوب ہو کہ اگر ایسے ادبی میلوں میں سماج، سماجیات اور اس کے پس پشت مندرجہ بالا پوشیدہ وعیاں عوامل، سرمایہ داریت اور طے شدہ مندرجات کے پروپیگنڈے پر بھی گفتگو ہوتی۔ پھر انگریزی ادب کے لیے تو ساری دنیا موجود ہے۔ یہ تو اردو کی زمین ہے، یہاں تو کم سے کم اردو ادب، تنقید وتحیق، مطالعے کے فروغ اور تعلیمی مسائل کے حل کے لیے اور زیادہ بات کی جانی ضروری تھی۔ یہ سب گزارشات ہم نے ایک ادنیٰ طالب علم اور شائق ادب کے طور پر کی ہیں، امید ہے ایسے پروگراموں کے منتظم اِن سے ضرور استفادہ کریں گے۔

رومن کی بازگشت اور ”آداب فیسٹول“

’ادب میلے‘ میں پہلے دن ہم اکیسویں صدی میں بچوں کی اردو تعلیم کی ایک اہم بیٹھک کے دوران پہنچے، جس میں ڈاکٹر عظمیٰ فرمان فاروقی کے ساتھ رومینہ قریشی اور فرید پنجوانی حاضرین کے ساتھ موجود تھے، جن میں اردو تدریس سے وابستہ اسکول اساتذہ موجود تھے، اور بہت اہم گفتگو جاری تھی، اس محفل کے ابتدائی لمحے چھوٹ جانے پر ہمیں افسوس ہوا، تاہم احباب کی دل جمعی سے محسوس ہوتا تھا کہ ’لیاقت لائبریری‘ کے ایک گوشے میں سجی ہوئی محفل خوب جمی رہی ہوگی… اس موقع پر اردو کی زبوں حالی کے حوالے سے سوال جواب ہوئے کہ ہمارے اسکولوں میں اردو کی تدریس تو ہوتی ہے، لیکن اس کے لیے اردو کا ماہرِمضمون نہیں لیا جاتا، بلکہ اسلامیات یا اور کوئی مضمون پڑھانے والے استاد کو اضافی ذمے داری کے طور پر اردو کی تدریس بھی سونپ دی جاتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی والدین بچوں سے انگریزی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں ِ، تو نتیجتاً بچے کو اولاً انگریزی کے ذریعے اردو پڑھانی پڑھتی ہے، ثانیاً اُسے اردو کی اہمیت کا اندازہ ہو پاتا ہے اور نہ ہی وہ اس میں عبور حاصل کر پاتا ہے۔ اس تقریب کا ایک تکلیف دہ لمحہ وہ تھا، جب ایک شریکِ کار نے اردو کو رُومن میں لکھنے سے متعلق بھی آواز بلند کرڈالی اور تاریخی طور پر 1947ء اور اس کے بعد انگریزی میں اردو لکھنے کی تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ دیکھیے آج اپنے عقب میں ’ادب فیسٹول‘ انگریزی ہی میں درج ہے!

اس بیٹھک کا وقتِ اخیر تھا، ورنہ نہیں معلوم ’منچ‘ پر موجود ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی صاحب زادی اور مسند نشیں شعبہ اردو جامعہ کراچی ڈاکٹر عظمیٰ فرمان اس کا کیا جواب دیتیں… بہرحال ’باغ جناح‘ کے اسی کتب خانے کے گوشے میں کچھ دیر بعد ہی اسی رومن کا ثمر ازخود دیکھ لیا، جب ہندوستانی مصنف پرمود کپور سے آن لائن گفتگو شروع ہوئی اور انھوں نے اظہارِتشکر فرماتے ہوئے ’ادب فیسٹول‘ کو ’آداب فیسٹول‘ کہہ دیا، اور ہم نے ’ادب‘ کو ’آداب‘ کہنے کی اس بے ادبی کو شدت سے محسوس کیا، یہ اسی رومن اردو کا شاخسانہ تھا جس نے ادب کو Adab لکھا ہوا تھا، جو نئی دلی سے ہم کلام ہونے والا ایک بزرگ ہندوستانی مصنف بھی ’آداب‘ پڑھ گیا…

ملت پارٹی مجھے چھوڑ کر ’ق لیگ‘ میں کھو گئی: جاوید جبار

متماز دانش وَر اور سابق وزیرِاطلاعات جاوید جبار کی مطبوعہ یادداشتوں کے حوالے سے ایک بیٹھک میں ڈاکٹر ہما بقائی نے اِن سے گفتگو کی۔ کراچی کے سیاست داں ہونے کے باوجود جاوید جبار اور ان سے بات چیت کا محور وفاقی سیاست رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جیالا نہیں تھا، لیکن میں نے 1977ء میں بیرسٹر کمال اظفر کی انتخابی مہم چلائی، یعنی جھکاؤ پہلے سے یہاں تھا، پیپلزپارٹی میں قبول نہ کیے جانے کے استفسار پر انھوں نے گہری سوچ کے ساتھ اس کی تائید کی کہ ہر جماعت میں ایسے لوگ ہوتے ہیں۔

انھوں نے قومی اسمبلی میں اپنے والد ذوالفقار بھٹو سے متعلق سخت گفتگو پر بے نظیر کے اَشک بار ہونے کا بھی ذکر کیا، دکھی انداز میں بے نظیر کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے جاوید جبار نے بتایا کہ انھوں نے سیکیوریٹی خدشات ہی کو نہیں، بلکہ اپنی گاڑی کی چھت کھلوا کر اپنی ہی جماعت کے حفاظتی حصار کو بھی توڑا۔ انھوں نے لوگوں پر اپنی تاریخ سے آگاہی کی ضرورت پر زور دیا اور ملفوف انداز میں لوگوں کے ان کی کتاب نہ پڑھنے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔

ایک اور سوال کے جواب میں جاوید جبار نے جنرل پرویز مشرف کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، اور دیگر نام نہاد جمہوری راہ نماؤں کی سرشت میں موجود آمریت کی طرف اشارہ کیا اور اس تلخ حقیقت کو بھی چھیڑا کہ سیاسی جماعتوں میں انتخابات نہیں کرائے جاتے۔ جاوید جبار نے بتایا کہ جب سابق صدر فاروق احمد لغاری نے اپنی ’ملت پارٹی‘ کو مسلم لیگ (ق) میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا، تو انھوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا، لیکن ان کی سیاسی جماعت انھیں تنہا چھوڑ کر ’ق لیگ‘ میں گُم ہوگئی۔

”فیض صاحب نے کہا ہمیں تو گھنٹی کی آواز نہیں آئی!“

ممتاز شاعرہ زہرا نگاہ نے پرانے مشاہیر کے تذکروں سے آراستہ ایک محفل میں بتایا کہ نام ور ہندوستانی مصور ایم ایف حسین جب اپنے ہندوستانی پاسپورٹ سے دست بردار ہوئے، تو وہ بہت دکھی تھے، ہندوستان میں ان کے سر کی قیمت رکھ دی گئی تھی، انھیں انورمقصود کہتے تھے کہ آپ ایسے نہ گھوما کیجیے، کوئی بھی انعام کی خاطر آپ کا سر کاٹ کے لے جائے گا، تو وہ بولے کہ ہاں، اسی لیے تو اب میں اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر سوتا ہوں۔ اسی طرح وہ فیض احمد فیض کا واقعہ بیان کرتی ہیں کہ کسی مہمان کی آمد پر انھوں نے زہرا نگاہ سے کہا کہ تھوڑی دیر بعد آکے کہہ دیجیے گا کہ ہمیں کہیں جانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ خود کیوں نہیں کہتے، تو بولے کہ ’ہم سے جھوٹ بولا نہ جائے گا۔‘ سو جب مہمان آگئے، تو اپنے تئیں انھوں نے بات بڑھا کر مہمان کے سامنے فیض صاحب سے کہا کہ آپ کو فلاں فلاں جگہ جانا ہے، آپ بھول گئے ہیں شاید، ان صاحب کا فون بھی آیا تھا، تو فیض بولے ”اچھا، فون آیا تھا، مگر ہمیں تو فون کی گھنٹی کی آواز نہیں آئی۔“

یہ سوال منیرنیازی سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟: افتخار عارف

ادبی میلے میں ایک ڈھلتا ہوا دن سب سے وسیع وعریض شامیانے کے سائے میں ممتاز شاعر افتخار عارف سے سنیئر صحافی وسعت اللہ خان کی گفتگو میں بھی گزرا۔ جہاں روایتی جَچے تُلے انداز میں وسعت اللہ خان نے افتخارعارف سے سوالات کیے۔ افتخار عارف نے بتایا کہ ”لکھنؤ ہندوستان میں اسلامی شناخت کا ایک گڑھ تھا اور بٹوارے کے بعد گویا اس شناخت کو مسمار کر دیا گیا تھا۔

یہ بات شاید یہاں کسی کو بری لگے، لیکن حقیقت ہے کہ پاکستان بننے سے ہندوستان میں اردو زبان اور وہاں کے مسلم اداروں کو بہت نقصان پہنچا!“ افتخار عارف سے بات چیت کے دوران ان کے نانا کی پرورش کا تذکرہ بھی آیا، جنھیں وہ بابا کہتے تھے اور وہ ان کے سوتیلے نانا تھے، جنھوں نے پاکستان ہجرت کے وقت بھی افتخار عارف کا بہت ساتھ دیا۔ وہ بتاتے ہیں لکھنؤ سے یہاں آکر انھیں کام تو مل گیا، لیکن تنہائی رہی، وہ کام کے بعد سارا وقت صدر (کراچی) وغیرہ میں ادھر ادھر گھومتے رہتے۔

گفتگو میں ایک موڑ ایسا بھی آیا، جہاں انھوں نے اپنی جنم بھومی کے تذکرے اور اس کے ہجر کے محسوسات کے ٹٹولے جانے پر جواباً کہا کہ ”ایسے اشعار تو منیر نیازی کے ہاں بھی بہت ہیں، لیکن یہ سوال ان سے کیوں نہیں کیا جاتا…؟ کیا اس لیے کہ وہ مشرقی پنجاب سے آئے تھے، اور میں لکھنؤ سے!“ شاعری کی ابتدا کے حوالے سے افتخار عارف نے انکشاف کیا کہ پہلی بار حمایت علی شاعر نے انھیں زبردستی مشاعرے میں پڑھوایا کہ تم شعر لکھتے ہو تو پڑھتے کیوں نہیں۔ اسی زمانے میں ایک نوجوان ان سے نظم کہلوا کر لے گیا کہ یہ مجھے دے دیجیے اور پھر اسے اپنے نام سے اخبار میں چھپوا لیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔