’’ڈفع کرو‘‘

سلیم خالق  بدھ 7 دسمبر 2022
سیمی فائنل میں جس طرح پہنچے تھے سب جانتے ہیں اور ابھی انگلینڈ کیخلاف جو’’ کارنامہ‘‘ انجام دیا اس کا کیا۔ فوٹو : فائل

سیمی فائنل میں جس طرح پہنچے تھے سب جانتے ہیں اور ابھی انگلینڈ کیخلاف جو’’ کارنامہ‘‘ انجام دیا اس کا کیا۔ فوٹو : فائل

شکر ہے سر آج آپ نے فون تو اٹھایا، اپنے ایک باخبر کرم فرما سے جب میری بات شروع ہوئی تو میں نے پہلا جملہ یہ کہا۔

’’کیسے یاد کیا‘‘ انھوں نے پہلے یہ کہا اور پھر خود ہی شروع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ’’اس سے پہلے میں پھر مصروف ہو جاؤں چند اہم باتیں سن لو بلکہ میں تمہیں بریکنگ نیوز دے دیتا ہوں، رمیز راجہ کے پی سی بی میں اب تھوڑے ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔

ان کے سب سے بڑے سپورٹر اب چلے گئے اور حکومت کو کوئی بورڈ میں تبدیلی سے نہیں روک سکتا‘‘ یہ سن کر میں نے جواب دیا کہ سر ایسی افواہیں پہلے بھی کئی بار سامنے آ چکیں لیکن کچھ نہیں ہوا، چیئرمین کی پشت پر بھی مضبوط لوگوں کا ہاتھ ہے،پھر حکومت کو ایک منٹ بھی سکون کا تو ملا نہیں تو وہ کرکٹ کا کیا سوچے گی۔

اس پر مجھے جواب ملا کہ ’’ اچھا یہ بتاؤ وزیر اعظم شہباز شریف نے کتنی بار رمیز راجہ سے ملاقات یا فون پر بات کی، کل رات وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی تقریب کو شمار نہ کرو وہاں تو اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے‘‘ میں نے جواب دیا شاید ایک بار بھی نہیں، اس پر انھوں نے کہا کہ ’’بالکل درست، کئی سابق چیئرمینز سے ملاقات کیلیے پیٹرن انچیف پی سی بی کے پاس وقت ہے مگر موجودہ کو لفٹ نہیں کروا رہے۔

سابق وزیر اعظم سے قریبی تعلق اور برملا اس کا اظہار کرنے والے رمیز پر انھیں زیادہ اعتماد نہیں مگر ایک ایسے صاحب نے ان کی پوسٹ کو چھیڑنے سے منع کیا تھا جنھیں انکار کرنا ممکن نہ تھا، اب یہ رکاوٹ دور ہو چکی ہے‘‘

پھر اگلا چیئرمین کون ہوگا کیانجم سیٹھی؟ جب میں نے یہ پوچھا توانھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’’ چاہتے تو بہت سے لوگ ایسا ہی ہیں لیکن سیٹھی سیاسی شخصیت بن چکے، اب اگر وہ آئے تو مخصوص حلقے پھر شور مچانا شروع کر دیں گے،خیر دیکھو کیا ہوتا ہے لیکن ہم سیٹھی کو دوڑ سے خارج قرار نہیں دے سکتے‘‘ میں نے ان سے کہا کہ ٹیم ورلڈکپ کا فائنل کھیل چکی،اب بورڈ میں تبدیلی کرنے پر کیا حکومت تنقید کی زد میں نہیں آئے گی،’’ تم بڑے کب ہو گے‘‘ انھوں نے تھوڑے غصے سے جواب دیتے ہوئے کہا ’’اگر کسی کو تبدیل کرنا ہوتو وجہ بنانے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی اور کون سا ٹرافی جیت لی۔

سیمی فائنل میں جس طرح پہنچے تھے سب جانتے ہیں اور ابھی انگلینڈ کیخلاف جو’’ کارنامہ‘‘ انجام دیا اس کا کیا،اور ہاں مجھے یہ بتاؤ جو تم آئے دن بورڈ کے انتظامی معاملات میں خامیوں کی خبریں شائع کرتے ہو اگر سب اچھا ہے تو اس کی کیا وجہ ہے‘‘ میں نے جواب دیا کہ واقعی مسائل تو ہیں ٹیم کی کارکردگی میں عدم تسلسل، ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات،ڈومیسٹک کرکٹرز کو معاوضوں میں تاخیر، ناقص پچز سمیت کئی معاملات حل طلب ہیں۔

’’تم بورڈ آفس میں ڈبلیو ڈبلیو ای فائٹ کو کیوں بھول گئے،اچھا ہاں ابھی ورلڈکپ کیلیے آسٹریلیا بھی تو ہو کر آئے ہو‘‘ میں یہ سن کر تھوڑا آؤٹ ہوا اور جواب دیا سر اس لڑائی کی خبر سوائے میرے پاکستان کے کسی صحافی نے نہیں دی، رہی بات آسٹریلیا جانے کی تو دیگر ٹورز کی طرح وہاں بھی میں خود گیا اور ادارے کی سپورٹ بھی حاصل تھی،اگر کوئی فیور لے رہا ہوتا تو اتنی کھل کر باتیں نہ کرتا بلکہ غیراعلانیہ ترجمان بن کر خاموش رہتا۔

’’ہا ہا ہا ، ارے میں تومذاق کر رہا تھا،ناراض نہ ہو، میں جانتا ہوں اب تک تم ہی قابو نہیں آ رہے، ویسے دو ڈائریکٹرز میں لڑائی کی تحقیقاتی رپورٹ تمہیں کس نے دی‘‘ سر آپ کو پتا ہے صحافی سے اس کی سورس بیوی بھی نہیں پوچھ سکتی،میں نے خوشگوار انداز میں ان سے یہ کہا، ’’اچھا تو سنو،تمہاری خبر سامنے آنے پر پی سی بی کے دفتر میں بڑا شور مچا اور بعض افسران کے فونز اور لیپ ٹاپ کا فرانزک بھی کرانے کی بات ہوئی مگر پھر اس پر عمل نہ کیا گیا۔

بیچارے سبحان احمد کو جب بورڈ سے جانا پڑا تو ایک الزام یہ بھی لگا کہ تم کو خبریں بتاتا ہے،احسان مانی تک کو یہ طعنہ سننا پڑا، اب کون ہے تمہاری سورس،مجھے تو بتا دو‘‘ میں نے پھر مذاق میں بات ٹال دی اور کہا کہ سبحان کو تو ان کے نام نہاد دوستوں نے ہی دھوکا دیا تھا، پھر وہ کہنے لگے ’’ موبائل فون پر آنے والے  وائرس سے بچ کر رہنا‘‘ میں نے انھیں بتایا کہ ’’چند سال قبل ایک اعلیٰ شخصیت نے مجھے واٹس ایپ پر فلسطین کی آزادی کیلیے سروے میں شامل ہونے کا پیغام بھیجا تھا۔

میں نے فورا ان کو فون کیا تو جواب دیا کہ کلک کر دو اچھے مقصد کیلیے ہے میں نے ایسا نہیں کیا،بعد میں کسی آئی ٹی اسپیشلسٹ سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اچھا کیا ورنہ تمہارے فون کا سارا ڈیٹا منتقل ہوجاتا، یہ سن کر وہ ہنسنے لگے،پھر کہا ’’سروگیٹ ایڈورٹائزنگ پر تمہاری رپورٹس پڑھیں، میری اطلاعات کے مطابق کئی پی ایس ایل فرنچائزز نے بھی 3،3 سال کے معاہدے کر لیے ہیں۔

ایک فرنچائز آفیشل اس میں پیش پیش ہے کیونکہ اسے بھی فائدے مل رہے ہیں، اسے رمیز راجہ سے ڈانٹ بھی پڑ چکی مگر پیچھے نہیں ہٹا، دراصل کوئی عام کمپنی اگر ایک کروڑ دے رہی ہے تو ایسی جوئے کی کمپنیز نام بدل کر تشہیر کیلیے بھی 10 کروڑ دے دیتی ہیں،فرق بہت بڑا ہے ناں کرنا آسان نہیں ہوتا، البتہ حکومت کوئی قانون بنا دے تو اور بات ہے، میں رمیز کو جانتا ہوں وہ اچھا ایماندار آدمی ہے مگر بعض معاملات میں آپ بے بس ہو جاتے ہیں۔

اچھا اب تم نے میرا بہت وقت لے لیا پھر کبھی بات کرتے ہیں، اور ہاں وہ ڈائریکٹرز کی فائٹ والے کیس میں تو تم بڑی باتیں کر رہے تھے کہ اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، یہاں کچھ نہیں ہوتا میرے دوست جسے بچانا ہو بچا لیتے ہیں، تم بھی بچ بچا کر چلو، خاص طور پر جوئے والی اسٹوریز میں زیادہ نہ ہی پڑو تو اچھا ہے، ڈفع کرو سوری دفع کرو‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے فون بند کر دیا، اب میں بیٹھا یہی سوچ رہا ہوں کہ اتنی طویل گفتگو میں بریکنگ نیوز کون سی ہے، آپ ہی کو اگر کچھ سمجھ آئے تو ضرور بتا دے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔