- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
بیت الخلا کی ’آوازیں‘ سن کر ڈائریا کی خبر دیکھنے والا اے آئی نظام
جارجیا: مصنوعی ذہانت کا ایک دلچسپ استعمال اب بیت الخلا میں بھی سامنے آیا ہے۔ اس میں ایک حساس مائیک بیت الخلا سے آنے والی آوازوں کا تجزیہ کرتا ہے بلکہ اس کی بنا پر 98 فیصد درستگی سے اسہال (ڈائریا) کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے جبکہ کسی عوامی یا مصروف مقام کے ٹوائلٹ کے ڈیٹا سے وہاں ہیضے کی وبا کی پیشگوئی بھی کی جاسکتی ہے۔
جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی مایا گیٹلن اور ان نے ساتھیوں نے یوٹیوب اور ساؤنڈ اسنیپ نامی ڈیٹا بی سے بیت الخلا کی 350 مختلف آوازیں ریکارڈ کی ہیں۔ ان آوازوں میں عام حالات کی رفع حاجت، ڈائریا، پیشاب کرنے اور پیٹ میں گیس بھرنے کی آوازیں شامل تھیں۔
اس کے بعد سائنسدانوں نے جمع شدہ 70 فیصد آوازوں کو مصنوعی ذہانت والے سافٹ ویئر میں ڈال کر اس الگورتھم کو رفع حاجت کی چاروں اقسام میں فرق کرنے کی تربیت دی۔ پھر اگلے مرحلے میں جب انہیں یقین ہوگیا کہ مصنوعی ذہانت اس قابل ہوگئی ہے تو اس پر باقی بچ رہنے والے 10 فیصد ڈیٹا کو آزمایا گیا۔ اس کے بعد مزید بچ جانے والی 20 فیصد ریکارڈشدہ آوازوں کو حتمی طور پر سافٹ ویئر پر آزمایا گیا۔
معلوم ہوا کہ یہ نظام بیت الخلا کی آواز سن کر 98 فیصد درست طور پر بتا سکتا ہے کہ اسے اسہال ہے یا نہیں، تاہم ضروری ہے کہ لوگوں کی بات چیت اور دیگر اقسام کے شور کو کم کیا جائے ورنہ اس کی درستگی کم ہوکر 96 فیصد تک رہ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ عوامی ٹوائلٹ پر مائیکروفون لگا کر کسی بھی علاقے میں دست، اسہال اور ہیضے کی وبا کا تعین بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس نظام میں حساس مائیکرو فون، ڈائریا ڈٹیکٹر نامی مائیکرو پروسیسر شامل ہے جو سافٹ ویئر کی بدولت پر صحت کی پیشگوئی کرتا ہے۔ اس طرح آوازوں کے سگنل کو بہت باریکی سے سنا اور پروسیس کیا جاتا ہے۔
تاہم یہ بات طے ہے کہ بیت الخلا کی بناوٹ سے آوازوں پر فرق پڑسکتا اور امریکا یا یورپ جیسے بیت الخلا دنیا بھر میں نہیں پائے جاتے۔ تاہم پروفیسر مایا کی ٹیم نے مزید حقیقی آوازوں کی ریکارڈنگ کرنے اور ان کی آزمائش کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔